تقدیر میں پاؤں کی ہے زنجیر مکرر
باقی نہ رہی کوشش و تدبیر مکرر
برسات کے موسم سے گریزاں کفِ دریا
پتھر پہ بنی بوند کی _ تصویر مکرر
بہتر ہے کہ انسان زباں کاٹ. دے اپنی
کچھ بولنے سے اٹھتی ہے شمشیر مکرر
تقصیرِ گُنہ سے مجھے سانسیں نہیں آتیں
ہر جرم کی دنیا میں ہو تعزیر __ مکّرر
تحریر مٹانے سے بھی خاموش نہ ہوگی
کرتی رہے گی غم کی یہ. تشہیر مکرر
پر ٹوٹ کے بکھرے ملے ہیں چھت پہ مسلسل
یوں خواب کی میرے ہوئی ___تعبیر مکرر
رشتہ بھی کتابوں سے مرا ٹوٹ گیا ہے
مجبوری میں پڑھ لیتا ہوں تحریر مکرر
سید محمد وقیع