حقائق تنازعات اور قانونی جائزہ دیکھنے سے پہلے اس کا جغرافیائی محل سمجھ لینا ضروری ہے کہ دریائے سندھ (Indus River) جنوبی ایشیا کا ایک عظیم دریا ہے، جو پاکستان، بھارت اور چین کے بڑے حصے سے گزرتا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے طویل اور اہم دریا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی دور میں بھی یہ دریا متنازعہ رہ چکا ہے اور پاکستان کے بننے کے بعد بھی بھارت کے ساتھ باقاعدہ طور پر مختلف ادوار میں معاہدے ہوچکے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بھی چاروں صوبوں کی تقسیم کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے اور حالیہ تنازعہ بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جو کہ (green pakistan initiative) کے تحت دو سو گیارہ ارب پاکستانی روپوں کی لاگت سے چھ نئی کنال بنائی جائی گی یہ کنال دریائے سندھ سے پانی نکال کر پنجاب کے صحرائے چولستان کو سیراب کرنے کے لیے تجویز کی گئی ہیں اور اس سے قبل چاروں صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے کئی معاہدے ہوچکے تھے لیکن یہ ایک اہم اور بنیادی معاہدہ ہے جو کہ1991 میں باقاعدہ طور پر یہ فارمولا طے پایا گیا، جس کو (Water apportionment Accord) کا نام دیا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ چاروں صوبوں کو دریائے سندھ سے اپنا مخصوص share ملے گا جس کا خاکہ یہ ہے.
پنجاب 55:94، سندھ 48.76، خیبر پشتونخواہ 8:78 اور بلوچستان 3:87 فیصد حصہ ہوگا لیکن یہاں تنازعہ دراصل اس سوال کی جنم ہے کہ سوائے پنجاب کو باقی تمام صوبوں کو 35 سال پہلے جو حصہ رکھا گیا تھا اس سے بھی کم Share مل رہا ہے جبکہ تمام صوبوں کی آبادی یکساں طور پر بڑھتی جارہی ہے اور چاروں صوبوں کی ضروریات بھی مساوی طور پر بڑھتی جارہی ہیں لیکن اب رہی سہی کسر ان نئی کنال کی تعمیر سے پوری کردی جائے گی لیکن معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا کہ باقی صوبوں کی حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ اس سے بالعموم تینوں صوبوں کو معاشی خطرات لاحق جبکہ بالخصوص سندھ کی عوام کو اس سے بڑا نقصان اٹھانا ہوگا
ممکنہ خطرات
اس منصوبے نے سندھ کی عوام، کسانوں اور ماہرین میں شدید تشویش پیدا کی ہے۔ اور بتایا یہ جائیگا کہ اس منصوبے سے چھ کروڑ سندھیوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے، مجموعی طور پر زیر غور نئی کنال کی وجہ KM 7300 ایریا تباہ ہوگا اور بارہ ملین ایکڑ زرعی اراضی کے بنجر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے نقصانات تو لامتناہی ہیں اس کا حساب لگانا مشکل ہے
قانونی جائزہ
اس منصوبے کے ساتھ بہت سارے ممکنہ خطرات لاحق ہیں تو اسی لیے اس کا قانونی جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے اور اس حوالے سے کئی قانونی نکات زیر بحث لائے جا سکتے ہیں،
سب سے پہلے اٹھارویں ترمیم جو کہ اظہر اور اقرب مثال ہے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے کہ صوبوں کی خودمختاری ہونی چاہیے اور ماضی قریب میں کالا باغ ڈیماسی پیچیدگیوں کا شکار رہا تھا۔
اور دوسرا، جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے (Water Apportionment Accord) کی خلاف ورزی ہے یہ معاہدہ چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کی ریگولیٹری کا کرتا ہے، جس کا مقصد پانی کی مساوی تقسیم اور بین الصوبائی تنازعات کو حل کرنا تھا۔اور چونکہ نئی نہریں سندھ کے پانی کو متاثر کر رہا ہے اور اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے باقاعدہ طور 1992 میں IRSA کو بھی وجود میں لایا گیا لیکن وہ بھی بظاہر ناکامی کا شکار ہے۔
ان سب باتوں کا لحاظ رکھا جائے اگر ہم سوچ لے تو ہمیں خود اس کا جواب مل جائے گا کہ کیا نئی کنال بنائی جانی چاہیے کہ نہیں؟