ہر شخص یاں محبت کا مارا بن گیا
اور شہرِ حسن والوں کا چارا بن گیا
اک جنگ چھڑ گئی شہرِ عشق والوں میں
آنکھوں سے جام پینا یہ نعرہ بن گیا
پلکیں جھکائے بیٹھا اک شام چھت پہ وہ
اسکی گلی میں پھر آنا جانا بن گیا
کچھ روز ہی رہا بس آنکھوں کے سامنے
پھر وقت ڈھل گیا تو وہ تارا بن گیا
مجروح جسم کب تک سہتا یہ آتشیں
بادِ خزاں سے ڈر کر بنجارا بن گیا
اسکے فراق میں ہم روئے ہیں یوں زملؔ
آنکھوں میں بہتا دریا بھی قطرہ بن گیا
ناصر زملؔ