اردو تحاریرخطبات و مکتوباتغالب کے خطوط

رقعہ بنام نواب میر غلام بابا خان بہادر

نواب میر کو غالب کے خطوط

رقعہ بنام نواب میر غلام بابا خان بہادر
نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان سلامت۔ فقیر اسد اللہ عرض کرتا ہے کہ آپ کے خط کے آنے نے میری آبرو بڑھائی۔ حق تعالیٰ تمہیں سلامت رکھے ۳۲دُرفشِ کاویانی کی رسید پہنچی۔ بموجب ارشاد کے اب اور نہ بھیجوں گا۔ قبلہ غرض شہرت ہے۔ اس قلمرو میں مَیں نے جلدیں تقسیم کی ہیں اس ملک میں آپ بانٹ دیں۔ اتنی میری عرض قبول ہو کہ بڑودہ گجرات میں سید احمد حسن صاحب مودودی اور میر ابراہیم علی خاں صاحب کو ایک ایک جلد بھجوا دیجئے گا۔ اور چھ جلدیں مولانا سیف الحق کو عطا کیجئے گا۔ کہ وہ اپنے دوستوں کو بھجوا دیں۔ خواجہ بدر الدین خاں میرے بھتیجے نے بوستانِ خیال کو اردو لکھا ہے اس کا ایک اشتہار اور یہاں ایک اخبار نیا جاری ہونے والا ہے اس کے دو اشتہار اس خط کے ساتھ بھیجتا ہوں آپ یا آپ کے احباب میں سے کوئی صاحب کتاب کے یا اخبار کے خریدار ہیں تو اشتہار کے مضمون کے مطابق عمل میں لائیں۔ والسلام مع الاکرام۔ میاں سیف الحق سیاح کو سلام۔ ۲۲ مارچ ۱۸۶۶ء

ایضاً

سبحان اللہ تعالیٰ شانہ ما اعظم برہانہٗ۔ جناب مستطاب نواب میر غلام بابا خاں بہادر سے بتوسط منشی میاں داد خاں صاحب شناسائی بہم پہنچی۔ لیکن واہ اول ساغر و دُردی کیا جگر خون کن اتفاق ہے۔ پہلا عنایت نامہ جو حضرت کا مجھ کو آیا اس میں خبرِ مرگ۔ اب میں جو اس کا جواب لکھوں اور یہ میرا پہلا خط ہو گا لامحالہ مضامیں اندوہ انگیز ہوں گے نہ نامہ شوق نہ محبت نامہ صرف تعزیت نامہ صریر قلم ماتمیوں کے شیون کا خروش ہے جو لفظ نکلا وہ سیاہ پوش ہے۔ ہے ہے نواب میر جعفر علی خاں جیسا امیر روشن گہر نام آور۔ رُوشناس اعیان ہندو انگلینڈ وسط جوانی یعنی ۴۶ برس کی عمر میں یوں مر جائے ؎نخل چمن سروری افتادز پاہائے

سچ تو یوں ہے کہ یہ دہر آشوب غم ہے مجموع اہل ہند ماتم دار و سوگوار ہوں تو بھی کم ہے۔ اگرچہ میں کیا اور میری دعا کیا مگر اس کے سوا کہ مغفرت کی دعا کروں اور کیا کروں۔ قطعہ سالِ رحلت نواب غفران مآب جب دل خار خار غم سے پُر خون ہوا ہے تو یوں موزوں ہوا ہے ؎

گردید نہاں مہر جہانتاب دریغ

شد تیرہ جہاں بچشمِ احباب دریغ

ایں واقعہ راز روئے زاری غالبؔ

تاریخ رقم کرد کہ نواب دریغ

ازروئے زاری زاءِ ہوز کے عدد بڑھائے جائیں تو سنہ ۱۲۸۰ ھ پیدا ہوتے ہیں فہذا المطلوب شریک بزم ماتم منشی میاں داد خاں صاحب کو سلام۔ یکشنبہ بست و یکم ربیع الاول ۱۲۸۰ ہجری مطابق ششم ستمبر ۱۸۶۳ء

ایضاً

نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان عنایت فرمائے مخلصان زاد مجدہ۔ شکر یاد آوری و رُواں پروری بجا لاتا ہوں۔ پہلے اس سے کہ آپ کا موّدت نامہ پہنچا ہے۔ وہ میرے خط کے جواب میں تھا اس کا جواب نہیں لکھا گیا۔ پرسوں میاں سیف الحق کا خط پہنچا۔ خط کیا تھا خوانِ دعوت تھا میں نے کھانے بھی کھائے میوے بھی کھائے۔ ناچ بھی دیکھا گانا بھی سنا۔ خدا تم کو سلامت رکھے کہ اس نالائق درویش گوشہ نشین پر اتنی عنایت کرتے ہو صاحب ر یاست و امارت میں ایسے جھگڑے بہت رہتے ہیں میں بسببِ فرطِ محبت اخبار میں تمہاری افزایش عز و جاہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور تم کو تہنیت دی۔ ظفر نامہ ابد۔ بہت مبارک لفظ ہے۔ انشاءاللہ العظیم ہمیشہ مظفر و منصور ہو گے ؎ کارت بجہان جملہ چناں باد کہ خواہی۔

نجات کا طالب غالب۔ سہ شنبہ ۳ اپریل۱۸۶۷ ء

ایضاً

جناب سید صاحب و قبلہ بعد بندگی عرض کرتا ہوں کہ عنایت نامہ آپ کا پہنچا آپ جو فرماتے ہیں کہ تو اپنی خیر و عافیت کبھی کبھی لکھا کر۔ آگے اتنی طاقت باقی تھی کہ لیٹے لیٹے کچھ لکھتا تھا اب وہ طاقت بھی زائل ہو گئی۔ ہاتھ میں رعشہ پیدا ہو گیا۔ بینائی ضعیف ہو گئی۔ متصدی نوکر رکھنے کا مقدور نہیں۔ عزیزوں ، دوستوں میں سے کوئی صاحب وقت پر آ گئے تو میں مطلب کہتا گیا اور وہ لکھتے گئے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ کل آپ کا خط آیا۔ آج ہی ایک دوستمیرا آ گیا کہ یہ سطریں لکھوا دیں اور یہ آپ نہ فرمائیں کہ منشی میاں داد خاں سے تجھے قطع محبت ہو گیا ہے۔ منشی صاحب کی محبت اور ان کے توسط سے آپ کی محبت دل و جان میں اس قدر سما گئی ہے۔ جیسا اہل اسلام میں ملکہ ایمان کا پس ایسی محبت کا موقوف ہونا کبھی ممکن نہیں۔ امراضِ جسمانی کا بیان اور اخلاص ہمدگر کی شرح کے بعد ہجوم غمہائے نہانی کا ذکر کیا کروں جیسا ابر سیاہ چھا جاتا ہے یا ٹڈی دل آتا ہے بس اللہ ہی اللہ ہے۔ سیف الحق منشی میاں داد خاں کوسلام کہیئے گا اور یہ خط پڑھا دیجئے گا۔ فقط نجات کا طالب۔ غالبؔ۔ روز چہار شنبہ ۶ اپریل ۱۸۶۸ء

ایضاً

بخدمت نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان نواب میر غلام بابا خاں صاحب بہادر دام مجدہ۔

عرض کیا جاتا ہے کہ آپ کا عنایت نامہ اور مولانا سیف الحق کا مہربانی نامہ دونوں لفافے ایک دن پہنچے۔ سیف الحق کے خط سے معلوم ہوا کہ رجب کے مہینے میں شادیاں قرار پائی ہیں مبارک ہو اور مبارک ہو۔ نظارہ بزم جمشیدی سے محروم رہوں گا مگر میرا حصہ مجھ کو پہنچ رہے گا خاطر جمع رہے۔ کیوں حضرت صاحبزادہ کا اسم تاریخی پسند آ گیا کہ یا نہیں۔ ؟ نام تاریخی اور پھر سید بھی اور خان بھی۔ سید مہابت علی خاں (۱۲۸۳ھ)

عجب ہے اگر پسند نہ آئے اور بہت عجب ہے کہ اس امر کی نہ آپ کے خط میں توضیح نہ میاں داد خاں کے خط میں۔ خیر میں نہیں کہتا کہ خواہی نخواہی یہی نام رکھیے پسند آنے نہ آنے کی تو فقیر کو اطلاع ہو جائے۔ جواب کا طالب۔ غالب۔ ۹ اگست ۱۸۶۷ء

ایضاً

ستودہ بہر زماں و نامور بہر دیار نواب صاحب شفیق کرم گستر مرتضوی و یتار نواب میر غلام بابا خان بہادر کو مسرت بعد مسرت و جشن مبارک و ہمایوں ہو۔ رقعہ گلگوں نے بہار کی سیر دکھلائی۔ بسواری ریل روانہ ہونے کی لہر دل میں آئی۔ پاؤں سے اپاہج، کانوں سے بہرا، ضعفِ بصارت، ضعفِ دماغ، ضعفِ دل، ضعفِ معدہ۔ ان سب ضعفوں پر ضعفِ طالع۔ کیونکر قصدِ سفر کروں۔ تین چار شبانہ روز قفس میں کس طرح بسر کروں۔ گھنٹہ بھر میں دو بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے۔ ایک ہفتہ دو ہفتہ کے بعد ناگاہ قولنج کے دورے کی شدت ہوتی ہے۔ طاقت جسم میں ، حالت جان میں نہیں آنا میرا سُورت تک کسی صورت چیز امکان میں نہیں۔ خط لکھتے لکھتے خیال میں آیا کہ جیسا سید صاحب کی ولادت کی تاریخ لکھی سیدانی صاحبہ کی بسم اللہ کی بھی تاریخ لکھا چاہیے۔ "ماہِ خجستہ بہار” ذہن میں آیا۔ سات عدد کم پائے۔ خجستہ بہار پر ادب کے اعداد بڑھائے۔ شمار میں ۱۲۸۳ نظر آئے۔ دوسرے ورق پر وہ قطعہ مرقوم ہے۔ بوڑھوں کی طاقتِ فکر معلوم ہے۔ صرفجوشِ محبت سے چار مصرعے موزوں ہوئے ہیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

راقم اسد اللہ خاں غالب۔ ۱۴ نومبر ۱۸۶۶ء۔ سیف الحق صاحب کو سلام۔ ایک میرے دوست مصور خاکسار کا خاکہ اتار کر دربار کا نقشہ اتارنے اکبر آباد گئے ہیں وہ آ جائیں تو شغلِ تصویر تمام ہو کر آپ کے پاس پہنچ جائے۔ خط از راہِ احتیاط بیرنگ بھیجا ہے۔

قطعہ

خجستہ جشن و بستاں نشینی بیگم

بفیض ہمت نواب و یمن و اقبالش

چو از پے ادب آموزیست خوش باشد

اگر خجستہ بہار ادب بود سالش

ایضاً

نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان عالی شان والا دودماں زاد مجد کم۔ سلام مسنون الاسلا م و دعائے دوام دولت و اقبال کے بعد عرض کیا جاتا ہے کہ ان ایام میمنت فرجام میں جو ازروئے اخبار بمبئی آپ کی افزایشِ عز و جاہ کے حالات معلوم ہوئے۔ متواتر شکر الٰہی بجا لایا۔ اور اس ترقی کو اپنی دعا کا نتیجہ جان کر اور زیادہ خوش ہوا۔ خصوصاً عدالت العالیہ میں فتح پانا اور حق حقیقی کا ظہور میں آنا کیا کہوں کیا مسرت و شادمانی کا موجب اور کس طرح کی نشاط اور انبساط کا سبب ہوا ہے حق تعالیٰ یہ فتح مبارک و ہمایوں کرے۔

قطعہ

فتح سید غلام بابا خاں

خود نشانِ دوامِ اقبال است

ہم ازین رُو بود کہ غالب ؔ گفت

کہ ظفر نامہ ابد سال است

بہار باغ جاہ و جلال جاوداں باد۔ اسد اللہ خان غالب ؔ۔ فقط

ایضاً

جناب نواب صاحب میں آپ کے اخلاق کا شاکر اور آپ کی یاد آوری کا ممنون اور آپ کے دوامِ دولت کا دعا گو ہوں اگر بوڑھا اور اپاہج نہ ہوتا تو ریل کی سواری میں مقرر آپ تک پہنچتا۔ اور آپ کے دیدار سے مسرت اندوز ہوتا۔ آپ میرے شفیق اور میرے محسن ہیں خدا آپ کو ہمیشہ سلامت با کرامت رکھے۔ خط کے دیر دیر لکھنے کا سبب ضعف و نقاہت ہے اگر میری اوقات ِ شباروزی اور میرے حالات آپ دیکھیں تو تعجب کریں گے کہ یہ شخص جیتا کیونکر ہے صبح سے شام تک پلنگ پر پڑا رہنا۔ اور پھر دم بدم پیشاب کو اٹھنا۔ ان مجموع مصائب میں سے ایک ادنی مصیبت یہ ہے کہ ۱۲۸۶ ھ شروع ہوئے ۱۲۱۲ ھ کی ولادت ہے۔ اب کے رجب کے مہینے سے سترواں (۷۰) سال شروع ہو گا۔ ستر ا بہترا بوڑھا اپاہج آدمی ہوں۔ جو عنایت تم میرے حال پر فرماتے ہو صرف تمہاری خوبی ہے۔ میں کسی لائق نہیں۔

نجات کا طالب۔ غالب۔ چہار شنبہ ۳۱ مئی سنہ ۱۸۶۷ء۔

ایضاً

بجناب نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان سلمہ اللہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون الاسلام و دعائے دولت و اقبال کہ ہمیشہ وردِ زبان ہے گھڑی کے عطیہ کا شکر ہر گھڑی اور ہر ساعت بجا لاتا ہوں۔ پہلے تو آپ دوست اور پھر امیر اور پھر سید۔ نظر ان تین امور پر اس ارمغاں کو میں نے بہت عزیز سمجھا اور اپنے سر اور آنکھوں پر رکھا خدائے عالم آرائے آپ کو سلامت رکھے اور ہر گھڑی آپ کا ممد و مددگار رہے ظاہر اًبوقت روانگی کنجی کا رکھنا سہو ہو گیا خیر یہاں بن جائے گی۔ والسلام بالوف الاحترام۔ خوشنودی احباب کا طالب۔شنبہ سوم دسمبر ۱۸۶۴ء۔

ایضاً

نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان امید گاہ ِ درویشان زاد افضالکم۔ آپ کا بندہ منت پذیر غالب خونین صفیر یوں نوا سنج ہوتا ہے کہ عنایت نامہ عز و رود لایا۔ اور مژدہ قبول سے میرا رتبہ بڑھایا جو کچھ میرے حق میں ارشاد ہوا ہے اگر اس کو قدر دانی کہوں تو لازم آتا ہے کہ اپنے کو ایک طرح کے کمال کا مالک سمجھ لوں۔ البتہ آپ نے از راہِ حق پسند ی سخن کی قدر دانی اور میری قدر افزائی کی ہے جو اغلاط فارسی دانانِ ہند کے ذہن میں راسخ ہو گئے تھے۔ ان کو دفع کیا ہے تو کیا برائی کی ہے۔ بات یہ ہے کہ اوچھی پونجی والے گمنام لوگ اپنی شہرت کے لئے مجھ سے لڑتے ہیں واہ واہ اپنے نامور بنانے کو ناحق احمق بگڑتے ہیں۔ عطیہ حضرت بتوسط جناب سیف الحق پہنچا اور میں نے اس کو بے تکلف عطیہ مرتضوی سمجھا۔ علی المرتضیٰ علیہ التحیہ والثنا آپ کا دادا اور میرا آقا۔ خدا کا احسان ہے کہ میں احسان مند بھی ہوا تو اپنے خداوند کے پوتے کا۔ آج سے کاپی لکھی جانے لگی اور تصحیح کو میرے پاس آنے لگی۔ چھاپے کے واسطے برسات کا موسم اچھا ہے بس اب اس کے چھپ جانے میں دیر کیا ہے۔

نجات کا طالب۔ غالب۔ صبح یکشنبہ۔ ۱۷ دسمبر سنہ ۱۸۶۰ ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button