میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
جب ہم انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان ، تابعی بزرگ ، تبہ تابعین ، اولیاء کرام اور بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اپنے رب کو راضی کرنا تھا ان کے ہر عمل میں ہر معاملہ میں صرف یہ ہی نظر آتا ہے کہ ان کا رب ان سے ناراض نہ ہو بس رب راضی رہے اب چاہے دنیا یا دنیادار ان سے نالاں رہیں لیکن انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی بس کسی طرح سے کسی عمل سے ان سے ان کا رب ناراض نہ ہو اب چاہے انہیں کسی بھی تکلیف یا آزمائش سے گزرنا پڑا لیکن ہر تکلیف کو اللہ کی رضا سمجھ کر صبر اور شکر کے ساتھ اس کا سامنا کیا کیونکہ وہ لوگ اپنے ہر عمل سے اللہ کو راضی رکھنے اور کرنے کی کوشش میں مصروف عمل نظر آتے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان لوگوں میں زندگیوں کے مطالعہ سے ہمیں اللہ کو راضی کرنے کے کئی طریقے ملتے ہیں شرط یہ ہے کہ ہم ان کا مطالعہ کریں انہیں سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حج کے سفر پر روانہ ہوئے راستے میں حلہ کا گائوں آیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رات وہاں قیام کرنے ارادہ فرمایا جیسے ہی گائوں کے لوگوں کو معلوم ہوا تو لوگ جوک در جوک جمع ہونا شروع ہوگئے اور لوگوں کا ایک تاندھا بندھ گیا ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی یہاں قیام کریں لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کی دعوت قبول نہ کی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتائو کہ اس گائوں میں سب سے زیادہ مفلس ، محتاج اور غریب کون ہے تو لوگوں نے ایک گھر کا پتہ بتایا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پہنچ گئے وہاں پہنچ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ ایک کچا سا مکان ہے کہ جس کی دیواریں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں گھر کے مکینوں نے پردہ کی خاطر پرانے کمبل لٹکائے ہوئے تھے پوچھنے سے معلوم ہوا کہ یہاں ایک بوڑھا اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتا ہے حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بوڑھے سے فرمایا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آج کی رات آپ کے یہاں قیام کرنا چاہتا ہوں تو اس بوڑھے آدمی نے کہا کہ کیوں نہیں میرے اس کچے اور کھنڈر مکان میں اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رہنا چاہتے ہیں تو میرے لئے اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہاں ٹھہرنا میرے لئے عزت کا باعث ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لہذہ حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں رک گئے یہ خبر تھوڑی ہی دیر میں پورے گائوں میں پھیل گئی تھوڑی ہی دیر میں لوگ مختلف قسم قیمتی تحائف اور ہدیہ لے کر پہنچنا شروع ہوگئے ان تحائف میں سونا ، چاندی ، گائے ، بھیڑیں ، بکرے اور بھی بہت کچھ تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سارے قیمتی تحائف قبول کرکے اس بوڑھے شخص کو دے دیئے رات گزار کر صبح ہوتے ہی مکہ کی جانب روانہ ہوگئے حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانے کے بعد وہ بوڑھا شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ آرام و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے لگا دراصل حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بوڑھے شخص کے گھر میں اسی وجہ سے رکے تھے کہ اس کی مدد کی جا سکے اور اس کی غریبی دور ہوسکے ہمارے بزرگان دین اور اللہ تعالی کے ولیوں کا غریب اور مفلس بندوں کی اسی طرح سے مدد کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا جس پر نہ صرف انہوں نے عمل کیا بلکہ رہتی دنیا تک آنے والے لوگوں کو یہ طریقہ سکھا گئے کیونکہ ان کے نزدیک اس وقت اپنے رب کو راضی کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید کی سورہ التوبہ کی آیت 100 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۰۰﴾
ترجمعہ کنزالایمان::
اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں ، یہی بڑی کامیابی ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید کی سورہ المجادلہ کی آیت 22 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ
لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَہُمۡ اَوۡ عَشِیۡرَتَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ وَ یُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿٪۲۲﴾
ترجمعہ کنزالایمان::
تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں ، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ اللہ کی جماعت ہے ، سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان آیات میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اس رب تعالی کو راضی کرنے کے لئے کسی کی بھی مخالفت کرنی پڑے چاہے وہ کوئی خاص اپنا ہی کیوں نہ ہو اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی مخالفت کرے تو اس کی مخالفت کرنی ہوگی صرف اللہ کی رضا اور اس کو راضی کرنے کی نیت سے پھر نہ صرف اللہ ان سے راضی ہوتا ہے بلکہ انہیں ان باغوں میں لے جاتا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے وہاں رہیں گےاس لئے ہمیں بھی اپنا ہر کام اللہ کی رضا کے لئے کرنا چاہئے تاکہ اللہ کی منشاء اور مصلحت کے تحت ہمیں بھی وہ مقام حاصل ہوسکے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یقیناً یہ بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہوتی ہے کہ اللہ بندے سے راضی ہوجائے ، یہ کتنی بڑی بات ہے اس کا اندازہ صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیں گے اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیوں کہ اب تو تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق کے کسی آدمی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کردوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا ۔ [بخاری: 6549]۔
اس سے پتہ یہ چلا کہ عام مسلمانوں اور مومنوں سے اپنے راضی ہونے کا باقائدہ اعلان رب تعالی اس وقت کرے گا جب وہ جنت میں ہوں گے اور اس دنیا میں صرف اشارہ ملتا ہے جبکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان وہ خوش نصیب لوگ ہیں جن سے اپنے راضی ہونے کا اعلان اس رب تعالی نےاس دنیا میں ہی کردیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جس طرح اللہ تعالیٰ کے یہ محبوب اور مقرب بندے اپنا ہر کام اس رب تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی رضا کے لئے کرتے تھے بالکل اسی طرح اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے ہمیں بھی ہر کام اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے کرنا ہوں گے وہ رب بڑا کریم ہے بڑا رحیم ہے ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے کس عمل سے خوش ہوکر وہ ہم سے راضی ہو جائے کیونکہ اس کی رحمت بہت بڑی ہے اب دیکھیں صحیح البخاری کی ایک حدیث جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ ” جب باری تعالیٰ نے دنیا کو تخلیق کیا تو اپنے دست قدرت سے اپنی وہ کتاب جو عرش پر رکھی ہوئی ہے اپنی ذات کے بارے میں اس نے اس میں لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ” اور کیوں نہ ہو وہ باری تعالی جو ایک بدکار عورت کو صرف اس لئے بخش دیتا ہے کہ اس نے ایک پیاسی بلی کو پانی پلایا تھا تو اس رب تعالی کی رحمت کا کیا کہنا وہ رب جو بروز محشر اپنے گناہگار بندوں کو بخشنے کے بہانے ڈھونڈے گا اور انہیں بخش دے گا ہوسکتا اسی لئے ہمیں ہمارے اکابرین نے تلقین کی کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی کمتر نہ سمجھو بلکہ پکڑ لو اور کرگزرو نہ جانے ہمارا رب ہمارے کس عمل سے خوش ہوکر ہم سے راضی ہو جائے اور جب وہ راضی ہوگا تو ہمیں بخشش کا پروانہ میں مل جائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بہت ہی پائے کے بزرگ جو ایک بہت بڑے محدث تھے اور اپنی پوری زندگی احادیث پڑھاتے پڑھاتے گزاری پھر وہ بیمار ہوئے اور ان کا انتقال ہوگیا کچھ دنوں کے بعد کسی نے خواب میں انہیں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ تو کہنے لگے کہ میں نے اپنی پوری زندگی علم حاصل کرکے اسے آگے منتقل کرنے میں گزاردی درس و تدریس میں سارا وقت گزارا سوچا کہ یہاں آکر ان خدمات کا کچھ صلہ ملے گا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مجھے پیش کیا گیا تو میرے رب تعالی نے میرے ساتھ کچھ اور معاملہ فرمایا وہ کہنے لگا کہ دنیا میں اپنے منصب کے تحت تم نے جو کچھ کیا وہ اپنی جگہ لیکن مجھے تمہارا ایک عمل بہت پسند آیا وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کرنکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی، اور سیاہی چوسنے لگی، تمہیں اس مکھی پر تر س آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے، اور پیاسی ہے، یہ سیاہی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں،چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر سیاہی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت فرمادی، اور جنت الفردوس عطا کردی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ ایسی عنایتیں صرف اپنے ان بندوں پر کرتا ہے جنہیں وہ اپنا قرب عطا کردیتا ہے اور جسے اپنا قرب عطا کردیتا ہے اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور رب تعالی جس سے محبت کرے تو سمجھ لیجئے کہ وہ اس سے راضی ہوگیا ایسی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہمیں اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے بڑی اہم ہیں اور ضروری ہیں اس لئے زندگی کے کسی بھی موڑ پر کہیں کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے کا موقع میسر آ جائے تو اسے ضایع نہیں کرنا چاہئے بالکل اسی طرح جیسے کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ بات تو ہر اہل ایمان مسلمان جانتا اور مانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور اپنے بندوں سے راضی ہونے کے لئے وہ مختلف بہانے ڈھونڈتا ہے کہ کوئی بندہ اس کے پسند کا فلاں کام کرلے تو وہ اس سے راضی ہو جائے میں نے ایک جگہ بہت خوبصورت بات پڑھی کہ اللہ تعالیٰ کو ہمیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ہر شکل میں ہر رنگ میں ہر حلیہ میں ہمارے درمیان موجود ہے بس اسے دیکھنے اور پرکھنے کے لئے ظاہری آنکھوں کی نہیں بلکہ دل کی آنکھوں کی ضرورت ہے اب دیکھئے ایک ماں نے اپنے بیٹے کو اسکول کے لئے تیار کیا اور اس کا لنچ باکس جو ایک عدد جوس کا ڈبہ ، ایک پراٹھا اور ایک آملیٹ پر مشتمل تھا اس کے بیگ پر رکھتے ہوئے اس پیار کیا اور باہر کھڑی اسکول کی وین کی طرف جانے کا اشارہ کیا تو بچہ کہنے لگا امی جان آج میں دیر سے آئوں گا تو امی نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا کیوں خیریت ہے تو بچہ کہنے لگا کہ آج میں خدا کو ڈھونڈنے جائوں گا تو ماں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بیٹا لیکن خدا تو نظر نہیں آتا تم کیسے تلاش کرو گے تو بچہ بغیر کچھ جواب دیئے باہر کھڑی گاڑی کی طرف دوڑا اور وین میں بیٹھ کر اسکول روانہ ہوگیا اور اماں دیکھتی رہ گئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اسکول کی چھٹی ہوئی تو وہ واپسی میں اسکول وین کے انتظار میں سامنے موجود پارک میں چلا گیا اور وہاں پر موجود ایک بینچ پر جا کر بیٹھ گیا لیکن وہاں پر ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو شکل سے بھوکی پیاسی لگ رہی تھی اس بچے نے آج لنچ نہیں کیا تھا لہذہ اس نے اپنا لنچ باکس کھولا تو اس بوڑھی عورت نے دیکھا اور اس کے منہ میں پانی آگیا لیکن اس نے بچے کو دیکھ کر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا مگر بچہ اس کی حالت سے واقف تھا گویا اس نے وہ لنچ اس بوڑھی اماں کو دیتے ہوئے کہنے لگا کہ اماں لگتا ہے آپ کو بھوک لگی ہے یہ کھا لیجئے وہ خوش ہوگئی اور اس طرح کھانے لگی جیسے نامعلوم کتنے دنوں سے بھوکی ہو اس کے بعد اس بچے نے جوس کا ڈبہ کھولا اور اس کو دیا تو وہ ڈبہ اس بوڑھی عورت نے دو تین گھونٹ میں ہی پی لیا بچہ خوش ہوگیا اور پھر وہاں سے اٹھ کر وین کی طرف چل دیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب پڑھئے سب اہم بات یعنی جب بچہ گھر پہنچا تو اس کی ماں نے پوچھا کہ بیٹا کیا ہوا خدا ملا ؟ تو بچہ مسکرایا اور کہنے لگا کہ ہاں ماں اصل میں خدا تھا نہیں بلکہ تھی کیونکہ میں نے اسے ایک بوڑھی عورت میں دیکھا ایسی تھی کہ مسکراتی تھی تو تمہارے جیسی لگتی تھی اور باتیں کرتے وقت وہ تم سے بھی زیادہ اچھی لگ رہی تھی اور وہاں وہ بوڑھی عورت جب کھا پی کر خوش ہوگئی تو وہاں سے اٹھ کر خوشی خوشی جارہی تھی تو اسے دوسری عورت ملی اور کہنے لگی کہ کیا بات ہے بہت خوش لگ رہی ہے تو اس نے کہا کہ آج میں بہت خوش ہوں کیونکہ میں نے آج خدا کے ساتھ بھرپور لنچ کیا اور تمہیں پتہ ہے کہ دراصل خدا ایک بچہ ہے وہ مجھے ایک بچہ کے روپ میں ملا بہت خوبصورت اور اچھی اچھی باتیں کرنے والا اور بڑا مہربان بھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ بھی سوچ میں پڑھئے ہوں گے کہ یہ کیا معاملہ ہے دراصل بات یہ ہے کہ بروز محشر جب سرکار مدینہ ﷺ اپنے امتیوں کی سفارش میں مصروف ہوں گے وہاں اللہ تعالٰی لوگوں سے شکوہ کرے گا کہ ” میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا "” میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہیں کی ” میں حاجت مند تھا تم نےمیری حاجت پوری نہیں کی ” تو لوگ کہیں گے "یا اللہ تیری عیادت یا بھوک یا حاجت ہم کیسے پوری کرسکتے ہیں تجھے ہم کہاں ڈھونڈتے تو تو خود حاجت پوری کرنے والی ذات ہیں” تو اللہ فرمایے گا کہ ” میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو اسکی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پاتا میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تو اسکو کھانا کھلاتا تو مجھے وہاں پاتا میرا فلاں بندہ حاجت مند تھا تم نے اسکی حاجت پوری کی ہوتی تو تم مجھے اسکے پاس پاتے لیکن تم نے مجھے کھبی ڈھونڈنے کی کوشیش ہی نہیں کی .
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اوپر والے واقعہ میں یہ ہی سبق ملتا ہے کہ اللہ ہر شکل میں ہر رنگ میں اور ہر حلیہ میں ہمارے درمیاں موجود ہے بس ہمیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جس طرح بچے کو بڑھیا کی شکل میں اور بڑھیا کو بچے کی شکل میں خدا نظر آیا بالکل اسی طرح وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہم اپنے کسی بھی اچھے اور نیک عمل سے اس کو راضی کرسکتے ہیں اس کو دیکھ سکتے ہیں اس کے ساتھ محو گفتگو ہوسکتے ہیں بس ضرورت ہے تو یہ کہ ہمیں اس کو ڈھونڈنا ہوگا تلاش کرنا ہوگا
کیونکہ خوشی، غمی، راحت، تکلیف، نعمت ملنے ،نہ ملنے، الغرض ہراچھی بری حالت یا تقدیر پر اس طرح راضی رہنا، خوش ہونا یا صبر کرنا کہ اس میں کسی قسم کا کوئی شکوہ یا واویلا وغیرہ نہ ہو ”اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا پر راضی رہنا” کہلاتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں قرآن مجید کی کئی آیتوں اور کئی احادیث مبارکہ میں یہ بات ملتی ہے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ کی باتوں پر عمل کرتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہم سے راضی ہوجاتے ہیں اور سرکار مدینہ ﷺ کو راضی کرلیا تو اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے تو اللہ کی محبت بھی مل جاتی ہے ایک دفعہ حضرت شیخ یونس جونپوری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک بہت بڑے عالم دین تشریف لائے جو خود بھی حضرت شیخ ذکریہ علیہ الرحمہ کے خلیفہ تھے کہنے لگے کہ حضرت مجھے لگتا ہے کہ میرا رب مجھ سے ناراض ہوگیا ہے آپ احادیث جانتے ہیں مجھے کوئی راستہ بتائیں کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے یہ سن کر شیخ یونس جونپوری رحمتہ اللہ علیہ رو پڑے کہنے لگے کہ میں ایک ادنی سا انسان میری کیا اوقات کہ میں تیرا تعلق رب سے جوڑ سکو تو وہ کہنے لگے حضور اللہ نے آپ کو علم و تقوی عطا کیا ہے کوئی تو راستہ ہوگا آپ کی نظر میں تو شیخ فرمانے لگے کہ سمجھ یہ آتا ہے کہ درود شریف کی کثرت کرنا شروع کردو میرے حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا اس طرح شروع کردو کہ جہاں تمہیں ضرورت نہ ہو وہاں بھی کرو مثلاً پانی کی پیاس نہیں ہے لیکن سنت سمجھ کر پی لو اور سنت ادا کرلو بس یہ کام کرلو ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ عالم دین وہاں سے چلے گئے اور کم و بیش ایک ماہ کے بعد واپس آئے تو بڑے خوش تھے حضرت شیخ یونس جونپوری رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہنے لگے کہ حضور اللہ تعالیٰ راضی ہوگیا تو شیخ صاحب نے فرمایا تمہیں کس طرح یہ محسوس ہوا تھا کہ اللہ تم سے ناراض ہوگیا ہے اور اب کس طرح محسوس ہوا کہ وہ رب آپ سے راضی ہوگیا تو عالم دین نے فرمایا کہ نہ نماز میں دل لگتا تھا نہ ذکر میں لذت ملتی تھی بے چینی رہتی تھی اور دل اُچاٹ اچاٹ رہتا تھا لیکن اب نماز میں بھی دل لگنے لگا ہے ذکر میں بھی لذت مل رہی ہے کیونکہ میرا رب مجھ سے راضی ہوگیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ خود میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا جا میں تجھ سے راضی ہوگیا تو شیخ فرمانے لگے بیشک رب بھی تم سے راضی ہوگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دنیا داری میں جب ہم سے کوئی ناراض ہوجاتا ہے تو اس کو منانے کے لئے ہمیں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے بڑے پاپر بیلنے پڑتے ہیں بلکہ کئی دفعہ تو کئی کئی سال گزر جاتے ہیں کسی کو منانے میں لیکن قربان جائوں میں اپنے رب پر کہ دنیا میں سب سے آسان کام رب تعالی کو منانا ہے جہاں ہمیں بہت زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑتی بس صرف اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اس کے حبیب کریمﷺ کی باتوں پر عمل کرکے صرف اپنی آنکھ سے دو قطرے آنسو بہا لینے سے وہ رب مان جاتا ہے جیسے ایک شخص مسجد میں نماز پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھاتا ہے اور بارگاہ رب العزت میں زاروقطار رو کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے میں مصروف تھا جب اس کے رونے کی شدت میں اضافہ ہوگیا تو اللہ کے فرشتہ نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ تیرا بندہ اتنا زاروقطار رو کر تجھ سے معافی مانگ رہا ہے اب تو اسے بخش دے اس کی دعائوں کو قبول کرلے اس سے راضی ہوجا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو کب کا اس سے راضی ہوگیا یوں اس کی دوائوں کو قبول بھی کر چکا ہوں لیکن اس اعلان اس لئے نہیں کیا کہ اس کی رونے اور آنسو بہانے کی ادا مجھے پسند آگئی ہے میں چاہتا ہوں کہ یہ روتا رہے اور میں اپنے اس بندے پر اپنی خاص رحمتیں ہی رحمتیں نازل کرتا رہوں یا اللہ تیرے ہر بندے سے اسی طرح راضی ہوجا اور ہم سب کو اپنا پسندیدہ بندہ بنالے آمین
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دنیا کی اس عارضی زندگی میں ہر وہ کام کرنے کی ہمیں کوشش کرنا ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں تاکہ بروز محشر ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں اسی لئے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہر وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس میں اس کی رضا شامل ہو اور اس کے حبیب کریمﷺ کی رضامندی بھی شامل ہو مجھے ہمیشہ سچ لکھنے اور ہم سب کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم
محمد یوسف برکاتی