میں گہری نیند میں تھا۔ اچانک جگ گیا۔ شاید کوئی آہٹ تھی یا پھر کسی کی آواز۔ سنا کچھ بھی نہیں تھا۔ بس قیاس کے اندھے کنویں میں بھٹک رہا تھا۔ ممکن ہے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی آنکھوں پر کسی تیز روشنی کا حملہ ہوا ہو۔ روشنی ہی شب خون مارنا چاہتی ہو۔ مگر کچھ تو ہوا تھا۔ یوں ہی دن بھر کا تھکا ہوا کوئی شخص جاگ نہیں سکتا تھا۔ بلکہ دل کی دھڑکنیں بھی بہت تیز ہو گئی تھیں۔ انھیں سنبھال پانا بھی مشکل تھا۔ یہ بھی گمان ہوا کہ اچانک پھر کسی نے بے وقت دل پر دستک تو نہیں دی تھی۔ حالانکہ اُسے روز سونے سے پہلے یاد کرتا ہوں۔ پتہ نہیں کب سے یہ سلسلہ قائم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید کل کی ہی بات ہے۔
’اوہ! نو۔۔۔ وھاٹ آر یو ڈوئنگ‘ ؟
’نتھنگ! اچھا بتاؤ کیا ہوا‘؟
’تم اپنے دل سے پوچھو۔۔۔‘
’دل سے ہی پوچھ رہا ہوں۔۔۔‘
’یو آر ناٹی‘
’سو تو ہوں۔۔۔‘
’اچھا اب چھوڑو بھی۔۔۔‘
’کیوں ‘
’دیر ہو رہی ہے۔ آئی ایم سُولیٹ‘
’کمال ہے محض دو سال کی ملاقات ہے ابھی، اور ان دو برسوں میں تم نے مجھے صرف ۲۸۱ گھنٹے ۱۷ منٹ اور ہاں باون سکینڈ دیئے ہیں ‘۔
’اوہ۔۔۔ نو۔۔۔ تم اتنے کلکولیٹو ہو؟ میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں۔ یعنی تم ہر لمحے کا حساب رکھتے ہو‘۔
’حساب نہیں، ان لمحوں میں اپنا احتساب کرتا ہوں کہ آخر میں ہوں کہاں ؟ تم نے میرے لیے کیا فیصلہ کیا ہے‘؟
’فیصلہ کیا۔۔۔؟ وہ سب کچھ تو ہو ہی چکا ہے جو رشتے کو یقین میں بدلنے کے لیے ضروری تھا۔۔۔‘۔
’تو پھر ہمیں کسی اور شئے کی تلاش کیوں رہتی ہے‘؟
’کس شئے کی‘؟
’کہہ نہیں سکتا۔۔۔‘
’ٹھیک ہے۔ سوچ لو آج ساری رات یہی کام کرنا۔ مجھے جانا ہے، پاپا اِز اَ لُون۔ وہ بہت جلد گھبرا جاتے ہیں۔ تم نہیں سمجھو گے‘۔
’او کے۔۔۔ جاؤ۔۔۔ مگر ہاں کل میں شہر سے باہر جا رہا ہوں ہفتے بھر کے لیے۔ ضروری میٹنگ ہے۔ فون پر شام میں ہی باتیں ہوں گی۔۔۔‘۔
’اوکے۔۔۔ ٹیک کیئر۔۔۔ وِش یو اے ہیپّی جرنی۔۔۔ بائی۔۔۔‘۔
وہ چلی گئی۔ میں بھی سفر کی تیاری کرنے لگا۔ امی جانتی تھیں کہ بیٹے کو ہفتے بھر کے لیے باہر جانا ہے شاید اسی لیے اپنی سطح پر انھوں نے ساری تیاریاں کر دی تھیں۔ مگر ہمیشہ کی طرح یہی کہا کہ اب مجھ سے یہ سب نہیں ہونے والا۔ اکیلی ہوں۔ تمھارے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔ گھر میں بہو آنی چاہیے۔ جو تجھے پسند ہو وہی آئے۔ میری طرف سے کوئی بندش نہیں ہے۔ میں مسکرا کر ٹال دیا کرتا۔ مگر سفر کے دوران اس مسئلے پر ضرور سوچتا۔ امی ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ شادی تو کرنی ہی ہے تو پھر مزید دیر کیوں کی جائے؟
مسکان کو وہ اچھی طرح جانتی ہیں۔ انھیں پسند بھی ہے۔ وہ اسے بہو بنا کر گھر میں لانا بھی چاہیں گی۔ چلو اس سفر میں یہ طے کر ہی لیا جائے۔ مسکان سے پوچھ ہی لیتا ہوں کہ وہ شادی کے لیے تیار ہے یا نہیں۔
کافی لمبی دوری طے کرنے کے بعد شہر پہنچا۔ میٹنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ پاور پرزنٹیشن تھا۔ اپنے لیپ ٹاپ پر سب سے پہلے مسکان سے ملاقات کی اس کی جیتی جاگتی ایک بھرپور تصویر سے۔ زیر لب مسکرایا۔ لیپ ٹاپ (laptop) پر فیدر ٹچ سے ہی مسکان غائب ہوئی پھر پاور پرزنٹیشن کے مواد پر نظر ثانی کرنے لگا۔ انگلیاں بھی عجیب تھیں۔ ابھی میں اپنی ساری توجہ دفتری امور پر مرکوز کرنا چاہتا تھا مگر مسکان بیچ اسکرین پر آ جاتی، اوہ نو۔۔۔ ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ اگر پیشکش کے دوران بھی ایسا ہو گیا تو بہت ہُوٹنگ ہو جائے گی۔ ہیڈ آفس تک یہ بات پہنچ جائے گی۔ نو۔۔۔ ! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مسکان۔۔۔ ! پلیز ایسا مت کرنا۔ اِٹ اِز ناٹ فیئر۔۔۔ لگتا ہے وہ مان گئی۔ وہ ہلکے سے اشارے کے بعد ہی ا سکرین سے غائب ہو گئی۔
شام سات بجے تھکا ہارا اپنے گیسٹ ہاؤس پہنچا۔ موبائل آن کرتے ہی مسکان نے پکارا۔۔۔
’یہ تم موبائل کب سے آف کرنے لگے‘
’ارے نہیں یار۔۔۔ میٹنگ میں ڈِسٹرب ہو رہا تھا۔ بس ابھی لوٹا ہوں۔ تم سے بات کرنے کے لیے ہی اسے آن کیا تھا‘
’میٹنگ کیسی چل رہی ہے۔۔۔‘
’ ٹُو گڈ۔۔۔ ! صبح تم نے بہت ڈسٹرب کر دیا تھا‘
’میں۔۔۔ ! میں کہاں سے آ گئی۔۔۔‘
’تم گئی کہاں ہو۔۔۔‘
’او کے۔۔۔ ! کو نسنٹریشن رکھو۔۔۔ ورک فرسٹ‘
’اور تم پر۔۔۔‘
’میں نے کام پر توجہ دینے کے لیے کہا ہے، کسی بھی کام پر۔۔۔‘
’یو آر جینیس یار‘
’سو تو میں ہوں۔۔۔‘
’اب ہم سیریس ہو جائیں ‘
’کیوں، کیا ہوا؟۔۔۔وہاں کوئی اور ہے کیا۔۔۔؟‘
’یہیں پر دنیا کی ہر عورت ایک ہو جاتی ہے‘
’وھاٹ ڈَز اِٹ مٖین۔۔۔‘
’پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے پاپا سے بات کی۔۔۔ اِز ہی ریڈی‘؟
’میں ان سے کیا بات کروں اور کیسے؟ ذرا سوچو، ممی کے گزر جانے کے بعد وہ ایک دم تنہا ہو گئے ہیں۔ بھائی ڈاکٹر ہو گیا۔ بیوی بھی ڈاکٹر مل گئی۔ دونوں انگلینڈ میں سیٹلڈ ہو گئے۔ بس ہر مہینے بینک اکاؤنٹ میں روپے آ جاتے ہیں۔ پاپا کبھی کبھی ان سے ملنے جاتے ہیں مگر لوٹ کر اور بھی اُداس ہو جاتے ہیں۔ میں اُن سے کیسے کہوں کہ اب میں بھی آپ کو چھوڑ کر جانا چاہتی ہوں۔ نو۔۔۔ یہ ہم سے نہیں ہو پائے گا۔۔۔‘۔
’لِسن۔۔۔ پلیز سنو۔۔۔ میری ماں بھی اکیلی ہے۔ اسے بھی کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس نے تمام عمر ہمارے لیے بہت اسٹرگل کیا۔ اب میں انھیں تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ انھیں بھی تمھاری بہت ضرورت ہے۔ تم ان کی بیٹی بن کر رہو گی پلیز کچھ سوچو‘۔
’میں اپنے پاپا کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ کبھی انکار نہیں کریں گے۔ وہ صرف ہماری خوشی چاہتے ہیں۔ لیکن وہ تنہا ہو جائیں گے بلکہ مر جائیں گے‘۔
’کیا پاپا ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔۔۔‘؟
’وھاٹ نان سِنس یو آر ٹاکنگ؟ ہِی اِز ہائیلی سینسٹِو پرسن۔ بہت خوددار ہیں اور سوشل بھی‘۔
’مسکان۔۔۔ کوئی راستہ نکالو۔ میرے پرابلم کو بھی سمجھو۔۔۔‘
’میں اگر تمھیں ایک ایڈوائس دوں تو تم مانو گے‘
’پہلے بتاؤ بھی کہ مشورہ کیا ہے‘؟
’سننے کے بعد ہی کہہ سکوں گا‘
’اگر ہمارا رشتہ مضبوط ہے تو پھر تم میرے مشورے پر عمل کرو گے‘۔
’اچھا۔۔۔ چلو۔۔۔ کہو۔۔۔ بولو بھی۔۔۔‘
’تم کہیں اور شادی کر لو۔ تمھاری امی کو ایک گھریلو بہو چاہیے، بس اس کا خیال رکھنا‘
’اوہ نو۔۔۔ تمھیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔‘؟
’آئی ایم ویری کُول۔ میں بہت سوچ سمجھ کر ایسا کہہ رہی ہوں۔ ہم اپنا ٹائم ویسٹ نہ کریں۔ تمھاری ماں کا بھی تم پر حق ہے جس طرح میرے پاپا کا مجھ پر ہے پلیز تم مان جاؤ۔۔۔ پلیز‘
’مسکان۔۔۔ یہ میری زندگی کا سوال ہے‘
’اسی لیے تو تمھیں فیصلہ کرنے کا حق ہے‘
’لیکن ہم تو بہت دور نکل چکے ہیں۔ شادی تو محض فارملٹی ہو گی‘
’تم کیوں گِلٹ فیل کر رہے ہو۔ تم جسے گناہ سمجھتے ہو وہ میرے وجود کا حصہ ہے۔ تم ڈار سے بچھڑ چکے ہو۔ میں کوئی دعویٰ پیش نہیں کرتی تو تم کیوں پریشان ہو‘۔
’تو یہ تمھارا آخری فیصلہ ہے۔۔۔ پلیز ٹھیک سے سوچ لو۔۔۔‘
’ارے یار۔۔۔ ! میں فیصلے پر یقین رکھتی ہوں سوچنے پر نہیں۔ یہ ہم دونوں کے لیے اچھا ہو گا۔ تم خیال مت کرنا۔۔۔ پلیز۔۔۔‘
اس سفر میں کئی بار مسکان سے باتیں ہوئیں۔ بہت خوشگوار ماحول میں، کبھی کبھی ہم سوگوار بھی ہوئے۔ وہ اپنے فیصلے سے بہت مطمئن تھی۔ بہت کوششوں کے بعد بھی اس نے ارادہ نہیں بدلا۔ میں سوچنے لگا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ رشتوں میں اتنی شدت اور ایمانداری کے باوجود ہم الگ ہونے کے لیے نہ صرف یہ کہ راضی ہو گئے بلکہ اس نے میری امی کی پسند کی لڑکی روبینہ سے میری شادی بھی کروا دی۔ بہت پیش پیش رہی۔ امی کی نظر میں تو وہ اور بلند ہو گئی۔ میری شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ مسکان کے پاپا نے بھی بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا بلکہ اسی دوران میری امی سے کہا کہ ’آپ مسکان کو بھی شادی کے لیے راضی کیجئے۔ یہ جہاں چاہے رشتہ کر سکتی ہے۔ میرے بارے میں سوچتی رہتی ہے۔ میں نے اسے کئی بار سمجھایا کہ میں بہت دولتمند ہوں، کیئر ٹیکر کی کمی نہیں ہو گی۔ مگر اسے کون سمجھائے‘۔ اسی دوران مسکان نے آ کر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
’پاپا آپ پھر شروع ہو گئے۔ نئے کپَل کو مبارک باد دیجئے اور گھر چلئے۔ دوا بھی لینی ہے آپ کو۔۔۔ پلیز۔۔۔‘
اس روز وہ میرا گھر بسا کر چلی گئی۔ کبھی کبھی فون بھی کرتی۔ پہلے پوچھتی کہ روبینہ کہاں ہے۔ میں کہتا رسوئی میں ہے یا امی کی خدمت کر رہی ہے یا سو رہی ہے۔
اب ہم دنیا داری پر اُتر آئے تھے۔۔۔
’تم نے کون سا ٹی وی خریدا ہے۔۔۔‘
’وہ کوئی بِگ اسکرین والا ہے۔ دیوار پر آویزاں کر دیا ہے۔ ریموٹ سے ہی تصویریں بدل بدل کر دیکھتا رہتا ہوں ‘
’کار بھی تم نے اچھی خریدی ہے۔ مَیرون کلر ہے نا۔۔۔ میں نے ایک دن تمھیں اور روبینہ کو اس پر سوار ہو کر کہیں جاتے ہوئے دیکھا تھا‘
’ہاں بہت آرام ہے۔ اے۔ سی۔ بھی بہت اچھا ہے۔ کُول۔۔۔ ایک دم کُول۔۔۔ ذرا بھی سفوکیشن نہیں ہوتا‘
’ویل۔۔۔ او کے۔۔۔ بائی۔۔۔‘
مسکان میرے لیپ ٹاپ (laptop) سے دھیرے دھیرے غائب ہونے لگی۔ اب وہ شاید میموری میں بھی نہیں تھی۔ کسی آئی کون (Icon) میں اس کا نام و نشان باقی نہیں تھا۔ میری بیوی بہت خوش تھی۔ میں بھی اس کا پورا خیال رکھنے لگا تھا۔
مگر بظاہر سب کچھ نارمل ہونے کے بعد جب کچھ سال بیت گئے تو میرے ساتھ یہ کیا ہونے لگا۔ بھولنے کی بیماری۔ کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ گھر سے دفتر تک صرف پریشانی۔ کبھی چابی بھول گیا تو کبھی لیپ ٹاپ۔ کبھی پرس تو کبھی۔۔۔ ! کسی سے کیا گیا وعدہ تو روز ہی بھول جاتا ہوں۔ دیوار پر آویزاں ٹیلی ویژن ہو، اے۔ سی۔ کار یا پھر آسائش کے دوسرے سامان، کہیں دلچسپی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ بہت محنت اور عرق ریزی کے باوجود کوئی بھی کام معیاری نہیں ہوپا رہا تھا۔ نیشنل یا انٹرنیشنل میٹنگوں میں پہلے میں نمائندگی کیا کرتا تھا لیکن مستقل بے اثر ہونے کی وجہ سے اب دوسرے جونیر اسٹاف کو زیادہ ترجیح دی جانے لگی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر ناراضگی۔ زیادہ تر لوگوں سے تعلقات بھی دوریوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بے ترتیب پڑے ہوئے سامانوں سے لے کر گھر کے افراد تک میری زد میں آنے لگے تھے۔ ایک شور شرابہ۔ بے مقصد ہنگامہ۔ پڑوسیوں کے لیے میرا گھر تفریح کا مرکز بن چکا تھا۔
میرے بے ترتیب ہونے کا سلسلہ جب طویل ہونے لگا تو مجھے بہت تشویش ہوئی کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔ گھر میں سب کے ہونے کے باوجود میں اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ اپنا کمرہ بھی الگ کر لیا ہے۔ ڈِنر کے بعد اندر سے اسے مقفّل کر لیتا ہوں۔ پھر دیر رات تک کتابوں میں سر کھپاتا رہتا ہوں۔ کبھی کبھی جی چاہا تو کمپیوٹر پر بیٹھ گیا۔ روبینہ میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ سبھوں کے سو جانے کے بعد دیر تک ٹیرس پر ٹہلتا رہتا۔ نیند بھی بہت دیر سے آتی۔ کبھی کبھی تو تمام رات یوں ہی گزر جاتی۔ نیند کی گولیوں سے مستقل افاقے کا امکان بھی ختم ہونے لگا تھا۔ ذہنی کمزوری اور لگاتار بھولنے کے عمل سے میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ تب خیال آیا کہ یوگ کرنا چاہیے۔ سی۔ ڈی۔ لا کر یوگا اچاریہ کی نقل کرنے لگا۔ ہدایت کے مطابق آنکھیں بند کرنے کے بعد کہیں خلا میں کھو جانے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اس دوران بہت ساری دشواریاں درپیش آنے لگیں۔ کھونا کہاں ہے یہی واضح نہیں ہو پا رہا تھا …پھر بھی مصنوعی طور پر یہ سب کرتا رہا لیکن دیر تک طبیعت مائل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں بھی جی اُچاٹ ہو گیا۔ بات بات پر ناراض ہو جانے، خود کو لگاتار کمزور ہوتا ہوا محسوس کرنے یا زندگی کی اہم ضرورتوں کو بھی بھول جانے کے عمل سے دوچار ہونے کا سلسلہ اور طویل ہوتا گیا۔ کبھی کبھی تنہائی میں جی بھر کر رو لیتا تو تھوڑا سکون ضرور ملتا بلکہ اس وقت یہ تجسّس اُبھرتا کہ سب کچھ بھول گیا ہوں یا بھول جاتا ہوں تو پھر مسکان مجھے روز کیوں یاد آتی رہتی ہے۔ اسے بھی تو بھول جانا چاہیے تھا۔ اب تو بظاہر اس کا کوئی نقش باقی نہیں ہے۔ نہ موبائل میں، نہ ڈائری میں نہ لیپ ٹاپ یا کسی البم میں۔ پھر وہ کیوں مجھے جگا دیا کرتی ہے۔ میرے اندر کیوں رَچ بس گئی ہے۔ مجھے کیوں احساس دلاتی ہے کہ میرا جرم قابل معافی نہیں ہے۔ دوا لے کر بھی گہری نیند نہیں سو پاتا، اس کے آنے کی آہٹ یا کبھی کبھی چیخنے کی کوئی آواز مجھے جگا دیا کرتی ہے۔
مسکان۔۔۔! میں سچ مچ تم سے مُکتی چاہتا ہوں۔ میرے گناہوں کے ساتھ تم جینے کی کوشش مت کرو۔ پلیز مجھے جینے دو۔۔۔ پلیز۔
قاسم خورشید