اختر شیرانیاردو افسانےاردو تحاریر

مردہ عورت

ایک افسانہ از اختر شیرانی

مردہ عورت

مجھے اُس سے محبّت تھی، میں اُس پر دیوانہ وار فدا تھا، نثار تھا۔۔۔۔۔۔۔ ہم محبّت کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ انسان تمام کائنات میں صرف ایک ہستی سے لَو لگائے اور دماغ میں صرف ایک خیال پروان چڑھائے دل میں صرف ایک خواہش ہو اور لب پر صرف ایک نام۔۔۔۔۔۔ وہ شیریں نام جو روح کی گہرائیوں سے نکل کر بار بار لب پر اِس طرح آئے جیسے ایک تند رُو آبشار اپنے منبع سے اُٹھ کر دامنِ کوہسار میں پھیل جائے اور ہم ایک وظیفے کی طرح، تمام دن، زیرِ لب یاد کرتے رہیں۔
میں اپنی محبّت کی رام کہانی نہیں سناؤں گا۔ محبّت کے پاس کہانی کے سوا کیا دھرا ہے؟ اور محبّت کی تمام کہانیاں یکساں ہوتی ہیں۔ میں نے اُسے دیکھا۔ اُس سے ملا اور دل دے بیٹھا۔۔۔۔۔۔ اِن تین فقروں سے سب کچھ ظاہر ہو جاتا ہے۔کامل ایک سال تک میں نے اُس کی محبّت کی گود میں زندگی گزاری۔ اُس کے طلائی بازوؤں میں، اُس کی یاسمین آغوش میں، اُس کی پیار بھری نظروں میں۔ اُس کے عطرآلودملبوسات میں، اور اُس کے پُر شوق لفظوں میں، اِس طرح رچابسا رہا کہ یہ تمیز نہ ہوتی تھی دن ہے یا رات! میں مردہ ہوں یا زندہ، اُسی پرانی زمین پر ہوں یا دوسری دنیا میں؟
آخر وہ مر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ کس طرح۔۔۔۔۔۔۔ ؟ میں نہیں جانتا۔ میں اب نہیں جانتا۔
برسات کے موسم میں ایک دن شام کو وہ بارش میں بھیگی ہوئی گھر آئی۔ دوسرے دن اُسے کھانسی ہو گئی۔ ہفتے بھر تک کھانسی میں مبتلا رہی۔ اور آخر بسترِ علالت پر ایسی پڑی کہ پھر نہ اُٹھی۔ پھر کیا ہوا؟ میں اب نہیں جانتا۔
ڈاکٹر آئے، نسخے تجویز کیے اور چلے گئے۔ دوائیں آئیں۔ ایک عورت نے اُس کو پلائیں۔ اُس کے ہاتھ گرم تھے۔ اُس کی پیشانی پیسنے پیسنے اور گرمی کے مارے دہک رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں چمکداراورحسرت بھری تھیں۔ میں نے اُس سے باتیں کیں اُس نے مجھے ہر ایک بات کا جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ایک دوسرے سے کیا کچھ کہا؟ کیا کچھ نہ کہا ہو گا! مگر اب مجھے یاد نہیں اب میں سب کچھ بھول گیا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ۔۔۔۔۔ ہاں میں نے سب کچھ بھلا دیا۔۔۔۔۔۔ وہ مر گئی۔۔۔۔۔۔ مجھے اُس کی ہلکی سی آہ اچھی طرح یاد ہے۔۔۔۔۔۔ کس قدر کمزور آہ تھی۔ جو آخری مرتبہ اُس کے ہونٹوں سے نکلی۔۔۔۔۔۔ اتنے میں نرس کے منہ سے نکلا "آہ "اور میں سمجھ گیا۔
میں اُس وقت سے لے کراب تک کچھ نہیں سمجھ سکا۔ کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ میں نے ایک پادری کو دیکھا جو "میری محبوبہ "کے متعلق باتیں کر رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اُس کی ہتک کر رہا ہے۔ اُس کے مرنے کے بعد کسی کواُس کے متعلق کچھ جاننے کا حق نہ تھا۔ میں نے اُسے اپنے گھر سے باہر نکال دیا۔ ایک اور آیا وہ بہت نیک دل اور شریف تھا۔ جب اُس نے مرحومہ کے متعلق مجھ سے باتیں کیں۔ تو میں بے اختیار رو پڑا۔
لوگوں نے اُس کے کفن دفن کے متعلق مجھ سے ہزاروں باتوں کے بارے میں ہدایتیں طلب کیں۔ مجھے اب یاد نہیں کہ وہ کیا کیا تھیں؟ لیکن مجھے اُس کا کفن اچھی طرح یاد ہے اور وہ۔۔۔۔۔۔ ہتھوڑے کی چوٹوں کی آوازیں جواُسے تابوت میں رکھنے کے بعد تابوت بند کرتے ہوئے پیدا ہوئیں۔ الہٰی تیری پناہ!
وہ دفنا دی گئی۔۔۔۔۔۔۔ وہ! وہ۔۔۔۔۔۔ ایک سوراخ میں۔۔۔۔۔۔ آہ ایک قبر میں سُلا دی گئی۔ دبا دی گئی۔ چند اشخاص آئے۔۔۔۔۔۔ میرے احباب! غم کی تاب نہ لا کر میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا دیوانہ وار بھاگا۔۔۔۔۔۔۔۔ گھنٹوں گلی کوچوں میں آوارہ پھرتا رہا۔ خدا جانے کب گھر پہنچا۔ اور کب سفرکوروانہ ہوا۔
پرسوں پیرس واپس آیا۔
جس وقت میں نے اپنی خوابگاہ کو۔۔۔ ہماری خوابگاہ کو دوبارہ دیکھا۔ ہمارے بستر کو، ہمارے تکیوں کو، ہمارے آرائشی سامان کو، ہمارے مکان کو جو اَب تک اُن تمام ماتمی علامتوں اور حزن انگیز حکایتوں سے لبریز تھا، جنھیں بے رحم موت! اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے میرا صدمہ اِس تیزی سے تازہ ہوا کہ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور باہر کی طرف بھاگا۔
میں زیادہ دیر تک اُس مہلک فضا میں، اُس سوگوار فضا میں نہیں ٹھہرسکتا تھا۔ اُن چار دیواروں میں جو ایک دن اس کی محافظ تھیں اور جواَب بھی اپنے نامحسوس خلاؤں میں اُس کی موجودگی کے، اُس کے تنفّس کے ہزاروں آثار باقی رکھیں گے۔۔۔۔۔ میں نے اپنی ٹوپی اُٹھائی اور دروازے کی طرف بھاگا۔ میں ہال کے بڑے آئینے کے پاس سے گزرا۔ وہ آئینہ جواُس نے یہاں اِس لیے لگایا تھا کہ وہ روزانہ باہر جانے سے پہلے اُس کی سطح پر اپنے حسین مجسمے کا سر سے پاؤں تک معائنہ کر سکے۔۔۔۔۔۔۔ اپنی آرائش کی کامیابی کا اندازہ کر سکے۔ اپنی دل کشی اور دلفریبی کا جائزہ لے سکے۔
میں ساکت و صامت، اُس آئینے کے سامنے کھڑا رہ گیا۔ یہ آئینہ۔۔۔۔۔۔ جس نے بارہا اُس کا دیدار کیا تھا۔۔۔۔۔ اتنی بار کہ اُس میں یقیناً اُس کا مجسمہ سما گیا ہو گا۔ ثبت ہو چکا ہو گا۔
لرزتے ہوئے جسم کے ساتھ میں وہاں کھڑا رہا۔ میری آنکھیں آئینے کی صاف شفاف سطح پر جمی رہیں۔ وہ سطح جس کی گہرائیاں اب خالی تھیں۔ وہ گہرائیاں جو کبھی اُس کے سراپائے حسن کی حامل تھیں۔ جو اُس کے تمام و کمال وجود کو اِس طرح اپنے آغوش میں لے لیا کرتی تھیں۔ جس طرح میں لیا کرتا تھا۔ اِس قدر مکمل طور پر جس قدر میری محبّت بھری نظریں محیط ہو جانے کی عادی تھیں۔ مجھے اِس آئینے سے محبّت ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے اُس کو چھوا۔ وہ سرد اور افسردہ تھا۔ آہ یاد! یاد!۔۔۔۔۔۔ مغموم، پژمردہ، زندہ، ہولناک آئینہ! ہماری تمام تکلیفوں کا باعث! خوش نصیب ہے۔ وہ جس کا دل، آئینے کی سطح کی طرح جس پر ہزاروں سائے اور نقشے اُبھرتے اور مٹ جاتے ہیں۔ تمام چیزوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ تمام نقوش کو، جو رنج و غم ہویا عیش و مسرّت کے، عشق و محبّت کے ہوں یا سوگ اور ماتم کے !۔۔۔۔۔۔ آہ مجھ پر کیسی بپتا پڑی!
میں باہر نکل آیا اور بغیر ارادہ کئے۔۔۔۔۔۔ بغیر یہ جانے کہ میں نے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔ بغیر چاہے قبرستان میں آ پہنچا۔ میں جلد ہی اُس کی سادہ قبر تلاش کر لی جس کی مرمری صلیب پریہ عبارت کندہ تھی۔
"وہ محبّت کرتی تھی۔ اُس سے محبّت کی جاتی تھی۔ اور وہ مر گئی۔ ”
وہ یہاں خوابیدہ تھی۔۔۔۔۔۔۔ اِس حقیر زمین کے اندر خوابیدہ تھی۔ بربادیوں کا مرقّع! تباہیوں کا ہجوم! دہشت ناک، عبرت ناک!۔۔۔۔۔۔۔ میں رو پڑا۔ قبر پر پیشانی رکھ کر روتا رہا۔
مجھے اِس حالت میں کافی دیر ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ رات کی تاریکی چھا رہی ہے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک عجیب وحشیانہ دھُن، خواہش، ایک حسرت زدہ اور بدنصیب عاشق کی خواہش، میرے دل میں پیدا ہوئی۔ میں نے اُس کے قریب رات گزارنا چاہا۔ ایک آخری رات۔۔۔۔۔ اُس کی قبر پر رونے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ ڈر تھا کہ کوئی دیکھ لے گا۔ اور مجھے قبرستان سے نکال دیا جائے گا میں کیا کر سکتا تھا؟ میں نے سمجھ سے کام لیا۔۔۔۔۔۔ وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اور ہمیشہ کے لیے بچھڑنے والوں کی دنیا میں اِدھر اُدھر پھرنے لگا۔۔۔۔۔۔ پھرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آوارہ پھرتا رہا۔ ہمارے عظیم الشان اور وسیع و عریض شہر کے قریب یہ کتنا مختصر شہر ہے۔ زندہ انسانوں کے شہر کے قریب۔ در حالیکہ زندہ شہر کے باشندوں سے اِس خاموش بستی کے مکینوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
ہمیں زندگی بسرکرنے کے لیے کیسے کیسے طویل مکانات، محلّے اور وسعتیں درکار ہیں۔۔۔۔۔۔ ہماری اِن گنتی کی چار نسلوں کے لیے جو بیک وقت دن کی روشنی سے لطف اُٹھاتی ہیں۔ چشموں اور فوّاروں کا پانی اور انگوروں کا عرق پیتی ہیں۔ اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کا اناج کھاتی ہیں۔ اِس کے مقابلے میں مُردوں کی بے شمارنسلوں کے لیے عدم رسیدہ انسانوں کی کثیر النمو آبادیوں کے لیے ابتدا سے لیکر ہمارے عہد تک، کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ زمین اِن کا خیر مقدم کرتی ہے۔ فراموشی اِن کو چادر اُڑھاتی ہے اور بس رخصت!
نئے قبرستان کے خاتمے پر پہنچ کر میں پُرانے قبرستان میں جا نکلا۔ وہ فراموش شدہ بستی، جہاں صدیوں پیشتر کے مردے اپنے خاکی جسم کو، خاکی پردے میں چھپانے کے لیے آئے تھے۔ جہاں بہت سی قبروں کی صلیبیں شکستہ و بوسیدہ حالت میں سر بسجود ہو رہی تھیں۔ اور جہاں کچھ عرصہ کے بعد نئے آنے والے اپنی آرامگاہ بنائیں گے۔ یہ مقام جنگلی گلاب اور شمشاد و صنوبر کے پودوں کی چھاؤں میں آباد ہے۔ ایک مُرجھایا ہوا مگر شاندار باغ! جس نے مغرورانسان کے قرمزی خون سے نشو و نما پائی ہے۔
میں تنہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ بالکل تنہا۔ میں ایک سبز درخت کی آڑ میں ہولیا۔ میں نے اپنے آپ کواُس کی گھنیری اور اندھیری شاخوں میں چھپا لیا۔ اور اُس کے تنے سے اِس طرح لپٹ گیاجیسے کوئی کشتی شکستہ مسافرمستول سے لپٹ جاتا ہے۔
جب رات کی تاریکی۔۔۔۔۔ بیحد تاریکی۔۔۔۔۔ ہمہ گیر تاریکی۔۔۔۔۔۔ زیادہ بڑھ گئی۔ پھیل گئی تومیں اپنی جائے پناہ سے نکلا اور دبے دبے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ۔۔۔۔۔۔ چپ چاپ اِس شہرِ خاموشاں میں چلا۔
میں دیر تک آوارہ گردی کرتا رہا۔۔۔۔۔۔ دیر تک۔۔۔۔۔۔ بہت دیر تک۔۔۔۔۔۔ ! میں اُسے دوبارہ نہ پاسکا۔ اشتیاق سے کھلی ہوئی باہوں اور انتظار میں کھلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ، میں مختلف قبروں کی لوحوں اور تعویذوں سے اپنے ہاتھ، پاؤں، گھٹے، سینہ اور سر ٹکراتا ہوا پھرتا رہا۔ مگر وہ نہ ملی۔
میں نے ایک اندھے کی طرح، جوراستے کی تلاش میں سرگرداں ہو، قبرستان کی چیزوں کو چھوا اور محسوس کیا۔ اپنی انگلیاں مُردوں کے ناموں پر پھیرتے ہوئے الفاظ کی کھدائی اور گہرائی کے اندازہ سے اُن کے نام پڑھے۔۔۔۔۔ اللہ کیسی ڈراؤنی رات! کتنی اندھیری رات!۔۔۔۔۔۔ مگر وہ مجھے نہ ملی۔
چاند غائب ہے ! کتنی اندھیری رات ہے ! مجھ پر دہشت طاری ہو گئی۔۔۔۔۔۔ خوفناک دہشت! قبروں کی دو طرفہ قطاروں کے درمیان، تنگ و مختصر راستے۔۔۔۔۔۔ اور قبریں۔۔۔۔۔۔ قبریں ہی قبریں۔۔۔۔۔ چاروں طرف قبریں۔۔۔۔۔۔ میرے بائیں طرف، میرے دائیں طرف، میرے سامنے میرے چاروں طرف قبریں۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ ہر قدم پر قبریں۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک قبر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے گھٹنے کانپ رہے تھے اور اُن میں چلنے کی طاقت نہیں رہی تھی۔
میں نے اپنے دل کی دھڑکن سُنی اور ساتھ ہی ایک اور آواز۔۔۔۔۔۔ ایک مبہم اور بے نام آواز۔۔۔۔۔ اِس اندھیری اور گھنیری رات میں یہ آواز میرے دہشت زدہ دماغ ہی میں پیدا ہوئی تھی یا اِس پُراسرار زمین سے جہاں لاشیں بوئی جاتی ہیں۔ سنائی دی تھی؟۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ میں وہاں کتنی دیر ٹھیرا، مجھے کچھ ہوش نہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں خوف اور دہشت کے مارے لرزہ بر اندام تھا۔۔۔۔۔۔ ہیبت کے اثرسے مبہوت تھا۔۔۔۔۔۔۔ قریب تھا کہ میری چیخ نکل جائے ! قریب تھا کہ میں مر جاؤں!
معاً مجھے ایسامعلوم ہوا کہ قبر کی مرمری سل کو جس پر مَیں بیٹھا تھا۔ جنبش سی ہوئی۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ سچ مچ ہل رہی تھی۔ جیسے کوئی اُسے اُوپر کی طرف اُٹھا رہا ہو۔۔۔۔۔ میں ایک ہی جست میں اچھل کر قریب کی قبر پر جا گرِا اور۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا۔۔۔۔۔۔ ہاں میں نے دیکھا کہ وہ پتھرجسے میں نے ابھی ابھی چھوڑا تھا۔ وہ بالکل سیدھا اُٹھتا چلا گیا اور۔۔۔۔۔۔۔ اور مُردہ نمودار ہوا۔۔۔۔۔۔۔ ایک برہنہ پنجر جو پتھر کو اپنی جھکی ہوئی کمرسے دھکیل رہا تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا۔۔۔۔۔۔ میں نے صاف طورسے دیکھا۔۔۔۔۔۔ ہرچند کہ رات بہت زیادہ اندھیری تھی۔ مگر میں نے صلیب پر لکھا دیکھا:-
”یہاں جیکس اولیونٹ مدفون ہے۔ جو ۵۱ سال کی عمر میں اِس دُنیاسے رخصت ہوا۔ وہ بہت نیک اور خداترس انسان تھا۔ اپنے اہل و عیال سے محبّت کرتا تھا۔ اُس نے خدا کی رحمت کی چھاؤں میں بسیرا کیا۔ ”
مُردہ خود بھی اپنی قبر کی اِس عبارت کو پڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ یک بیک اُس نے راستے سے ایک پتھر اُٹھایا۔ اور ایک چھوٹا سا۔ مگر نوکدار پتھر۔۔۔۔۔۔ اور اُس سے اُن حرفوں کو کھرچنے لگا۔ یہاں تک کہ اُس نے تمام عبارت کی جگہ کو دیکھتے ہوئے، ایک پتلی ہڈی کے آخری سرے سے، جو کبھی اُس کی انگشت شہادت تھی، اُس نے ایسے روشن حروف میں، جیسے پُرانی قسم کے دیاسلائی کے مسالے سے رات کو دیواروں پر چمکتے ہیں۔ یہ عبارت لکھی۔
”یہاں جیکس اولیونٹ مدفون ہے جو ۵۱ سال کی عمر میں اِس دنیاسے رخصت ہوا۔ وہ اپنی بد مزاجی اور سختی کے باعث اپنے باپ کی قبل از وقت موت کا سبب بنا۔ کیونکہ وہ ورثہ پانے کے لیے بے چین تھا۔ اُس نے اپنی بیوی کو شدید اذیّتیں پہنچائیں، اپنے بچے کو ایذا اور ہمسایوں کو دغا دی۔ امکانی حد تک لوگوں کو لُوٹا اور بالآخر ذلیل اور کمینہ موت مرا۔”
مُردے نے تحریر ختم کی اور کچھ دیرسوچتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو تمام قبریں کھلی نظر آئیں۔ تمام مردے باہر نکل آئے تھے اور اپنے اپنے رشتہ داروں کی غلط نویسیوں کو، صلیبوں پرسے مٹا رہے تھے اور اُن کی بجائے سچی باتیں تحریر کر رہے تھے۔
میں نے دیکھا کہ یہ شہرِ خموشاں کے بے ضر ر مکین، سب کے سب اپنی زندگی میں، اپنے رشتہ داروں کے قاتل رہ چکے تھے۔۔۔۔۔ ! یہ ہرقسم کے الزامات سے بلند اور پاک افراد! یہ شریف باپ، یہ نیک مائیں، یہ وفا دار میاں بیوی، یہ فدا کار فر زند، یہ معصوم دوشیزائیں، یہ راست باز تاجر، یہ اچھے مرد اور عورتیں! یہ کیا تھے ؟ ظالم! بے رحم! بے وفا! مکار! کاذب! فریبی! ریاکار! حاسداورکینہ توز! ! !
ایک انداز اور ایک طریقے سے، تمام کے تمام مُردے اپنے ابدی مسکن کے آستانے پر، وہ وحشی، خوفناک، مگرمقدس صداقتیں ثبت کر رہے تھے۔ جن سے اِس مدہوش دنیا میں ہر فرد بشر انجان ہے۔ یا انجان رہنے کا دھوکا دیتا ہے۔
مجھے خیال آیا کہ وہ بھی اپنی قبرپراِسی طرح کچھ نہ کچھ ضرور لکھ رہی ہو گی۔ یہ خیال آتے ہی میں بے خوفی سے کھلی ہوئی قبروں کے درمیان، لاشوں کے درمیان، پنجروں کے درمیان دوڑتا ہوا اُس کی طرف چلا۔ مجھے یقین تھا کہ اُسے پالوں گا۔ میں نے دُور ہی سے اُسے پہچان لیا۔ اگرچہ میں اُس کا چہرہ جو کفن میں لپٹا ہوا تھانہ دیکھ سکا۔
مرمری صلیب پر، جہاں میں نے ابھی ابھی یہ عبارت لکھی دیکھی تھی کہ۔
"وہ محبّت کرتی تھی۔ اُس سے محبت کی جاتی تھی۔ وہ مر گئی ‘‘۔
اب اُس کی بجائے لکھا تھا۔
"اپنے عاشق کو دھوکا دے کر کسی دوسرے عاشق سے ملنے باہر گئی تھی کہ بارش میں بھیگنے سے سردی لگ گئی اور وہ مر گئی۔ "ایسا معلوم ہو تا ہے کہ مجھے وہاں سے لوگوں نے صبح آ کر اُٹھایا۔ اِس حالت میں کہ میں بے ہوشی و بے خبری کے عالم میں ایک قبر کے نزدیک پڑا تھا
یا وفا خود نہ بود در عالم
یا مگر کس درایں زمانہ نہ کر د! (سعدی)

(فرنچ افسانہ)(ماپساں)

اختر شیرانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button