کس کی نظر لگی آشیانے کومیرے
اے رمضان ہم سے توبھولا نہ جائے گا
جاتے جاتے غموں کا سمندر جو دے گیا
22جون 2016ء کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسکا ایک ایک منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے اس طرح آجاتا ہے جسے کل کی بات ہوایک ایسے شحص کو سر عام شہید کردیا جاتا ہے کہ جو مارنے والے سے یہ فریاد کرتا ہے کہ مجھے کیوں مار رہے ہو؟مجھے مت مارو میرے معصوم بچے ہیں۔مگر پیسوں کے لالچی اور ظلم کے شیدائی کبھی کسی کی کوئی فریاد نہیں سنتے انھوں نے اس شخص کو گولیوں سے چھلنی کردیا ایک گولی جو سیدھی دماغ پر ماری تو الٹی آنکھ بھی اس سے متاثر ہوئی اور باہر آگئی مرحوم وہ کوئی اور نہیں ہمارے صوفی و روحانی گلوکار امجد صابری تھے ایک معصوم سا چہرہ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے سب کے ساتھ حسن ُ و سلوک سے پیش آنے والا یہ شخص جب گیا تو دنیا کو رُلاگیا ایک شخص ایسا بچھڑا کہ دنیا اجڑ گئی ان کاجنازہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ ہر ایک کی دل کی دھڑکن تھے اس شخص سے محبت کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ شہید کے جنازے میں مختلف شہروں اور دور دراز سے لوگ شریک ہوئے جنازے میں اس قدر خلقت تھی کہ لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر با مشکل جنازے کا آخری دیدار کر رہے تھے 2016ء کا ہیٹ اسٹروک سب کو یاد ہوگا ۷۱ رمضان کو ان کو شہید کیا گیا گر می کی شدت کے باوجود لوگ جوق در جوق ان کے جنازے کے ہمراہ جارہے تھے جوکہ لالو کھیت سے پاپوش پیدل لے جایاگیاآپ کو غلام فرید صابری (آپ کے والد) کے پہلو میں آخری آرام گاہ ملی اللہ پاک امجد بھائی کے درجات بلند فرمائے اور فیملی کو صبر عطا فرمائے مگر آپ کے مرنے کے بعد آپ کی فیملی کی کفالت ضرور آپ کی فیملی نے احسن طریقے سے کی ہوگی لیکن جو بات بچوں کے لئے باپ کی،ماں کے لئے بیٹے کی اور بیوی کے لئے شوہر کی ہوتی ہے وہ کوئی پوری نہیں کرسکتا امجد بھائی کو روزے کی حالت میں شہید کرنے والوں اور ان کو قتل کروانے والوں امجد صابری دنیا سے چلے گئے اور رب کو حساب بھی دے چکے اگر تم لوگ زندہ ہو تو میری پروردگار سے ہاتھ اُٹھا کر یہی التجا ہے تم لوگ موت کی بھیک مانگو،مرنا چاہو مگر موت نہ آئے اللہ پاک اب اسی دنیا میں حساب کر دیتا ہے دنیا مقافات عمل ہے اور یوم حشر سے پہلے اسی دنیا میں حساب دینا ہوگا۔
امجد ہم سے تیری جدائی سہی نہ جائے گئی
دنیا تیرے جانے سے ویران گئی
حمیدہ گل محمد