توبۃ النصوح – فصل یازدہم
شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا ناول
فصل یازدہم
کلیم نو کری کی جستجو میں دولت آباد گیا اور فوج میں بھرتی ہو گیا، لڑائی میں زخمی ہوا اور مردونکی طرح چار کہاروں پر لد کر دہلی آیا۔
یہ ایک چھوٹی ہندوستانی ریاست ہے۔ البتہ کوئی پانچ چھ لاکھ روپیہ سال کا محاصل اس میں ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک نوجوان نا تجربہ کار مسند نشین ہوا۔ خوشامدی صلاح کار، لچے مصاحب، موقع پا کر آ جمع ہوئے اور دولت آباد کو چھوٹا لکھنؤ بنا دیا۔ جہاں جہاں اس مذاق کے لوگ تھے سب کو فری میسن کی طرح ریاست دولت آباد کے حالات معلوم تھے۔ کلیم بھی سن سن کر دولت آباد کا ایسا مشتاق تھا، جیسے زاہد مرتاض جنت کا۔
غرض کلیم دو منزلہ طے کرتا ہوا دولت آباد پہنچا اور قبل اس کے کہ کسی سے تعارف پیدا کرے، اس نے اپنا سامان ظاہر درست کر پھر ایک مرتبہ سرائے میں امیری ٹھاٹھ لگا دیے۔ مدح رئیس میں قصیدہ تو اس نے سفر ہی میں کہنا شروع کر دیا تھا۔ صرف عرض حال اور قطعہ دعائیہ باقی تھا۔ جلدی جلدی تمام کر، اسی قصیدے کو ذریعہ تقریب قرار دے، درِ دولت پر جا کر حاضر ہوا۔ مگر شامتِ اعمال اور باپ کی نا خوشی کا وبال، اس کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس کے دولت پور پہنچنے سے چند روز پہلے یہاں بساط الٹ چکی تھی۔ بدنظمی ریاست کی خبریں صاحب ریذیڈنٹ کو پہنچیں، اور انہوں نے بہ ذات خاص دولت آباد پہنچ کر رئیس سے کل اختیارات متنازع کر، امور ریاست کا اہتمام ایک کمیٹی کو تفویض کیا، جس میں ریاست کے چند قدیم نمک خوار تھے، کہ وہ رئیس کی بے اعتدالیاں دیکھ کر ترکِ خدمت کر کے گھر بیٹھ رہے تھے۔ اور اس کمیٹی کے میر مجلس، انتظام الدولہ مدبر الملک نواب بیدار دل خاں بہادر، والی عافیت نگر، قرار دیئے گئے، کہ وہ رشتے میں رئیس دولت آباد کے ماموں بھی تھے اور ان کا حسنِ انتظام ان اطراف میں ضرب المثل تھا اور خود صاحب رزیڈنٹ بہادر بھی بلا ناغہ ماہ بہ ماہ اپنی شرکت سے کمیٹی کی آبرو افزائی کیا کرتے تھے۔ رئیس کو مصارف ضروری کے لیے کمیٹی سے دست برداشتہ کچھ روپیہ ملتا تھا۔ نابکار مصاحب ایک ایک کر کے نکالے جا چکے تھے۔ غرض جس چاٹ پر کلیم دوڑا آیا تھا وہ بات اب باقی نہ تھی۔
نا واقفیت کی وجہ سے کلیم نے اطلاع کرائی تو فوراً قاصد کی طرح طلبی آئی۔ یہ تو اس توقع سے خوشی خوشی اندر گیا کہ بان کے ٹیڑھے، رنگیلے سجیلے، وضع دار لوگ دیکھنے میں آئیں گے مگر جا کر دیکھتا ہے تو بڑے بڑے ریشائیل مولوی، پگڑ اور عمامے باندھے بیٹھے ہیں۔ کوئی درس دے رہا ہے، کوئی کتاب دیکھ رہا ہے کوئی اور اد میں مصروف ہے۔ اندر قدم رکھتے ہی کلیم نے یہ برجستہ مطلع پڑھا :
جاتے تھے جستجوئے بت خانہ و صنم میں
بہ کے تو جا کے نکلے ہم بھی کہاں حرم میں
مولویوں کی شکل دیکھ کر قریب تھا کہ کلیم اس طرح بھاگ کھڑا ہو جیسے لا حول سے شیطان مگر اس کو خیال ہوا کہ امیروں کے کارخانے ہیں، عجب کیا ہے کہ یہ کوئی خانقاہ ہو۔ ع :
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
چلو ذرا احوال تو دریافت کریں۔ بارے قریب جا کر اس نے ایک پیر مرد کو ” مجرا عرض کرتا ہوں ” کہہ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
لفظ ” مجرا” سن کر ان حضرت کے کان کھڑے ہوئے اور فورا آنکھ سے عینک اتار سیدھے ہو کر کلیم کو دیکھنے لگے۔ تب اس نے زائد از رکوع جھک کر ان کو سلام کیا، یعنی اپنا مجرا دکھایا۔ اس بزرگ نے فرمایا۔
” وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ من ابن انت فی ارفالک احسن اللہ بحالک۔
کلیم : حضرت قبلہ، میں فہم عربی سے قاصر ہوں۔
مولوی صاحب : کہاں سے اتفاقِ محبی ہوا؟
کلیم : دہلی سے۔
مولوی صاحب : تقریب؟
کلیم : مدحت طرازی اربابِ دول
مولوی صاحب : غرض و غایت؟
کلیم : تحصیل جاہ و ثروت
تب اس بزرگ نے مختصر طور پر کلیم کو وہاں کے حالات سے مطلع کر دیا اور کہا کہ رئیس لاشے محض ہے، وہ بھی لا بشرط شے نہیں بلکہ شرط لا شے اور بے اجازت خاص حضرت مولانا صدر اعظم کے کسی کو اس تک پہنچنے کا امکان نہیں۔
کلیم : صدر اعظم صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں؟
مولوی صاحب : دیکھو یہیں کہیں ہوں گے۔
کلیم : ان کی شناخت؟
مولوی صاحب : سیما ھُم فی وُجُوبھم من اثر السُجُود۔
کلیم : میں نہیں سمجھا۔
مولوی صاحب : ایک بڈھے منحنی سے آدمی ہیں۔ نیلی لنگی اوڑھے ہوئے حجرہ شمالی کے صحن میں طلبہ کو درس دے رہے ہوں گے، یا فصلِ خصومات میں مصروف ہوں گے۔
کلیم : ان کو کیا خدمت سپرد ہے؟
مولوی صاحب : جیسے حرفِ ندا، اللفظ ادعوا، کا قائم مقام ہوتا ہے، اسی طرح مولانا صاحب ادام اللہ فیوضہم نائب الرئیس ہیں۔
کلیم : میں ان کی خدمت میں جا سکتا ہوں؟
مولوی صاحب : لاباس بہہ۔
غرض کلیم صدر اعظم کی خدمت میں گیا تو وہ اس کی نظر میں کچھ بھی نہ جچے۔ یہ سمجھا تھا کہ وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں تو بڑے کروفر کے ساتھ ہوں گے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ولایتی نما ایکقے بڈھے سے مولوی ہیں، وراثت کا ایک جھگڑا ان کے روبرو در پیش ہے اور بیٹھے اپنے ہاتھ سے حساب مناسخہ لگا رہے ہیں۔ کلیم کو ایک اجنبی صورت دیکھ کر انہوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں سے فارغ ہوں تو آپ سے بات کروں۔ جب تم مقدمہ پیش رہا، کلیم غور سے دیکھتا اور سنتا رہا۔ مولوی صاحب بلا کی مو شگافیاں کر رہے تھے۔ تب تو کلیم نے سمجھا کہ واقع میں یہ شخص بڑی پائے گاہ کا آدمی ہے اور منصب وزارت کے قابل ہے۔ بارے جب مقدمہ طے ہو چکا تو صدر اعظم صاحب کلیم کی طرف مخاطب ہوئے کہ ہاں حضرت فرمائیے۔
کلیم : بندہ ایک غریب الوطن ہے۔ رئیس کی جود و سخا کا شہرہ سن کر مدت سے مشتاق تھا۔ یہ حال ہے، باقی میری صورت سوال ہے۔
صدر اعظم : آپ کی سماعت صحیح لیکن اگرچہ جود صفتِ محمود ہے مگر اعتدال شرط ہے۔ شامتِ اسراف سے ٹنی باقی نہ رہا۔ فرنگیوں نے حفظِ ریاست کی نظر سے رئیس کو ممنوع التصرفات، مسلوب الاختیارات کر رکھا ہے۔
کلیم : میں طالبِ گنجینہ نہیں، سائلِ خزینہ۔
صدف کو چاہیے کیا ایک قطرہ چشمہ یم سے
بجھا لیتا ہے اپنی پیاس کام غنچہ شبنم سے
کلیم نے اس طرح کڑک کر بے دھڑک شعر پڑھا کہ تمام حاضرین اس کی یہ حرکت خارج از سیاق ادب دیکھ کر متعجب ہوئے۔ صدر اعظم صاحب ما منصب، ان کا علم و فضل اور ان کی پیری اور وہ ہیبت جو ان کی تہذیب کو لازم تھی، یعنی صدر اعظم کی حالت مجموعی اور اس سے قطع نظر خود کلیم کی حالت، اس کی مقتضی تھی کہ وہ پاسِ ادب ملحوظ رکھتا۔ مگر وہ ایسی ہی بے باکی کو ہنر لسانی اور صفت حاضر جوابی سمجھتا تھا۔ شعر اس کا تکیہ کلام تھا۔ بات کہتا تو مقفّیٰ، کلام کرتا تو موزوں۔ گفتگوئے روز مرہ میں بھی اس کی یہی کیفیت تھی اور جو کوئی کبھی اس کو ٹوکتا تو وہ جواب دیتا کہ ع :
شاعری تو شعار ہے اپنا
کلیم کو صدر اعظم کے حضور بے باکانہ شعر پڑھتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوئی۔ لیکن جو امر ان کی حیرت کا موجب تھا، وہی ان کو کلیم کے روکنے اور باز رکھنے سے بھی مانع تھا، یعنی صدر اعظم کی ہیبت۔ لوگوں سے زیادہ صدر اعظم کو حیرت ہوئی ہو گی مگر ان کی تہذیب اس درجے کی تھی کہ انہوں نے کلیم کو نظر بھر کر بھی تو نہیں دیکھا، اظہار نا خوشی و ناپسندیدگی تو بڑی بات ہے۔
صدر اعظم : رئیس سے تو توقع عبث ہے۔ مگر انتظامِ جدید در پیش ہے۔ اگر میں سمجھوں کو کوئی خدمت آپ انجام دے سکیں گے تو انشا اللہ مجلسِ شوریٰ میں، جس کو لوگ کمیٹی منتظم ریاست کہتے ہیں، آپ کے استحقاق پیش کر دیئے جائیں گے اور غالب ہے کہ کوئی خدمت آپ کو مفوض ہو جائے۔ متعدد مناصب خالی ہیں، خصوصاً انتظام فوج داری حدودِ ریاست میں۔
کلیم : چندے حضور مجھ کو اپنی خدمت خاص میں رکھیں اور اس نا لائق کی ہنر مندی اور بے ہنری حضور پر منکشف ہو جائے، تو پھر جس خدمت کے لیے ارشاد ہو گا بسر و چشم اس کو بجا لائے گا، اگرچہ خدمت فوج داری ہی کیوں نہ ہو۔
طالب ہوں علم کا کہ علم سے ہے ہم رقم
نیز سمجھ کے لیتا ہوں میں ہاتھ میں قلم
صدر اعظم : فرنگیوں نے جو انتظام کیا ہے وہ ایسی تنگ درزی کے ساتھ کیا ہے کہ اس میں بہت تھوڑی گنجائش ہے۔ پس قبل اس کے کہ میں آپ کو اپنے پاس کی کوئی خدمت دوں مجھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس کام کی انجام دہی پر قدرت رکھتے ہیں۔
کلیم : بقول غالب
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغز گو و خوش گفتار
صدر اعظم : لیکن انتظام جدید کے مطابق ریاست میں کوئی خدمت شاعری باقی نہیں
کلیم :
” گر سخن گو نہیں تو خاک نہیں
سلطنت ہے عروسِ بے زینت ”
صدر اعظم : جو کچھ آپ سمجھیں۔
کلیم : لیکن ریاست پر کیا منحصر ہے، حضور بھی تو وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں۔ آپ کی سرکار میں کیا کمی ہے۔ ع :
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
صدر اعظم : ” نعوذ باللہ المنان من فات اللسان۔ ”
میں بے چارہ نام کا نائب الرئیس اور وزیر ہوں، ورنہ فی الحقیقت ایک ذرہ حقیر ہوں۔
کلیم : یہ حضور کا کسر نفس ہے۔ بقول ظہوری :
سر خدمت بر آستاں دارد
پائے رفعت بر آسماں دارد
میں بھی اس بلاد دور دست اور دیار اجنبی میں اتفاق سے آ نکلا ہوں اور میں دیکھتا ہوں تو آپ کی سرکار با اقتدار میں ایک شاعر کی ضرورت بھی ہے، جو آپ کے محامد اوصاف کو مشتہر کر کے خیر خواہان دولت کو راسخ العقیدت اور دشمنان رو سیاہ کو مبتلائے ہیبت کرتا رہے۔
صدر اعظم : یہ آپ کی کریم النفسی ہے ورنہ ” من آنم کہ من دانم۔ ” مجھ کو اگر ضرورت ہے تو ایسے شخص کی ہے جو مجھ کو میرے عیوب پر مطلع کیا کرے۔
کلیم : اگر مدح و ستائش پسند نہیں ہے تو بندہ وصل و ہجر و شوق و انتظار و ناز و نیاز و واسوخت و رباعی و تاریخ و سجع و چیستان و معاملہ بندی و تضمین و محاکمہ و بزم و تشبیہ و استعارات و تجنیس و تمثیلات و سراپا، ہر طرح کے مضامین پر قادر ہے۔ جو طرز مرغوب طبع ہو اسی میں طبع آزمائی کرے گا۔
رکھتا ہوں اگرچہ عیب تعلیٰ سے عار ہوں
بس مغتنم ہوں منتخب روزگار ہوں
صدر اعظم : آپ کے ہنر مند بے نظیر بے مانند ہونے میں شک نہیں لیکن افسوس ہے کہ مجھ کو اس فن کی طرف رغبت نہیں۔
کلیم : حضور جیسے عالمِ با کمال کا ایسے فن شریف سے (ع) کہ ہم خط نفس ست و ہم قوت روح، رغبت نہ رکھنا (ع) میری قسمت کی نارسائی ہے۔
صدر اعظم : اگرچہ میں اپنے نفس میں انواع و اقسام کی خباثتیں پاتا ہوں لیکن خداوند کریم کا شکر گزار ہوں کہ اب تو خیر ایسی با توں سے محترز رہنے کی میری عمر ہی ہے، عنفوان شباب میں بھی خدا کے فضل سے میں ایسی با توں کو نہایت ناپسند کرتا تھا۔
کلیم : ع۔ سبب کیا وجہ کیا موجب جہت کیا؟
صدر اعظم : جہاں تم میں سمجھتا ہوں ایسے مضامین میں اشغال و انہماک رکھنے سے ذہول و غفلت، استخفاف معصیت، استحسان لہو و لہب، اختیار مالا یعنی کے سوائے کچھ اور بھی حاصل ہے؟
کلیم : اب اس خصوص میں کچھ عرض کرنا سواء ادب ہے۔ وہی خدمت فوج داری مجھ کو تفویض فرمائی جائے۔
صدر اعظم : مجھ کو کچھ عذر نہیں۔ مگر آپ مجھ سے استشارہ کریں تو یہ حکم المستشار موتمن، میں صلاح نہیں دے سکتا۔ اس واسطے کہ رئیس کے ضعف حکومت نے ان ٹھا کروں کو جو مستقر الریاست سے دور رہتے ہیں، ایسا عسیر الانقیاد کر دیا ہے کہ کوئی قسط بے جنگ و جدال وصول نہیں ہوتی اور ملازمان فوج داری کو ہمیشہ ان کے ساتھ معرکہ آرائی کرنی پڑتی ہے۔ آپ کے ذمے ریاست کے حقوق سوابق نعمت ثابت نہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ ابتدا ایسی خطرناک خدمت اختیار کی جائے۔
کلیم : حالت اضطرار کو کیا کیا جائے؟
صدر اعظم : اگر اضطرار ہے تو بیس روپیہ ماہانہ کا جمع خرچ نوپس مداخل، ایک منصب جدید ہونے والا ہے، چندے آپ اس پر قناعت کریں۔ میرے نزدیک کنجِ عافیت کے یہ بیس، فوج داری کے پچاس پر ترجیح رکھتے ہیں۔
کلیم : یہ حضور کی مسافر نوازی ہے لیکن بندہ اس خدمت سے معاف رکھا جائے۔ ع :
ہر کسے را بہر کارے ساخستد
یہ کچھ لالہ بھائیوں ہی کو زیبا ہے۔
صدر اعظم : میں اتماماً للحجت پھر آپ سے کہتا ہوں کہ جس خدمت کے آپ خواستگار ہیں فی نفسہ، خصوصاً اس وقت میں محل خطر ہے۔
کلیم : ع
” از خطر نیندیشد ہر کہ ہمتش عالی ست۔ ”
صدر اعظم : اچھا تو آپ مال کار کی نسبت تامل صحیح کر لیجئے، پھر دیکھا جائے گا۔
غرض کلیم، صدر اعظم سے رخصت ہو کر اپنی جگہ واپس آیا، مگر حصول مطلب سے مایوس، صدر اعظم سے بد عقیدت، یہاں سرائے میں بعض لوگوں نے اس سے صدر اعظم کی ملاقات کی کیفیت پوچھی تو اس نے نہایت حقارت سے کہا : ” اجی بس، شعر فہمی عالم بالا معلوم شد۔ آواز دہل از دور۔ چوں دم بر داشتم مادہ خر برآمد۔ کوڑ مغز، جسد بے روح، جماد بے حس، افسردہ، دل مردہ۔ ع :
سگ نشیند بجائے گیپائی
زمانہ ناہنجار کے انقلاب دیکھیے، ایوان ریاست کیا ہے، فتح پوری کی مسجد ہے۔
اگرچہ کلیم کو ایسی دل برداشتگی بہم پہنچی تھی کہ وہ کسی طرح ایسی ریاست کی نو کری پسند نہیں کرتا تھا، مگر مجبوری یہ تھی کہ اس کے پاس اتنا خرچ نہیں تھا کہ کسی دوسری جگہ کا قصد کرے۔ حاجت اس کو صدر اعظم کے پاس جانے پر مجبور کرتی تھی، مگر مخالفت رائے اس کو مانع ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ اسی حیض بیض میں پورے دن گزر گئے اور کمیٹی منتظم ریاست کے انعقاد کا وقت آ پہنچا، لیکن اس بندہ خدا نے صدا اعظم کی طرف رخ نہ کیا۔ بارے یکایک نہیں معلوم کیا خیال اس کے دل میں آیا کہ سپاہیانہ لباس پہن، ہتھیار لگا، مونچھوں پر تاؤ دے، خدمت فوج داری میں امیدوار بن کر کمیتی کے روبرو جا کھڑا ہوا۔ آدمی تھا ماشاء اللہ وجیہ اور اس پر کسان، ایک دم سے فوج میں کپتان مقرر ہو گیا۔ شاعروں کو ایک پھٹکار یہ ہوتی ہے کہ اکثر خود پسند ہوتے ہیں، کیوں کہ ہمیشہ تعریف و آفرین اور داد و تحسین کے امیدوار رہتے ہیں۔ کلیم بھی اس مرض میں مبتلا تھا۔ اب جو اس کو دفعتاً منصب کپتانی مل گیا تو اس کی نخوت کو تائید مزید پہنچ۔ بقول میر، ع :
سمند ناز پہ اک اور تازیانہ ہوا
جب دیکھو، اردلی میں دس پندرہ سوار، شہر میں گھوڑے کداتے پھر رہے ہیں۔
چار پانچ مہینے کلیم نے بڑے چین سے گزارے اور چوں کہ باپ کو چھیڑنا منظور تھا، دہلی میں دوست آشناؤں کے پاس کپتان صاحب کے خط پر خط چلے آتے تھے۔ یہاں تک کہ زور آور سنگھ، ایک ٹھا کر نے اپنے علاقے کی قسط وقت پر ادا نہ کی۔ تنگ طلبی ہوئی تو وہ پھر بیٹھا۔ اس کو سرکوبی کے واسطے دولت آباد سے فوج روانہ ہوئی۔ اس میں کلیم بھی تھا۔ جوانی کی عمر، نئی نئی نو کری، مزاج میں بے باکی و تہور۔ پہلے ہی حملے میں میاں زخمی ہوئے تو کیسے سخت کہ دست بخیر، گھٹنے کی چپنی پر گولی بیٹھی تو اندر ہی اندر بن ران تک تیر گئی۔ معلوم نہیں نسوں میں کس طرح کا تعلق خدا تعالیٰ نے رکھا ہے کہ ایک پاؤں کے مجروح ہونے سے سارے کا سارا دھڑ بے کار ہو گیا۔
قاعدہ فوج کے مطابق میدان جنگ سے لوتھ کر اٹھا کر دار الشفا میں پہنچایا۔ جراحوں نے زخم کو دیکھا تو ایسا کاری پایا کہ فورا پاؤں کاٹنا لازم آیا۔ اگرچہ اس وقت تک جراحوں نے پاؤں کو جان کا فدیہ تجویز کیا لیکن کلیم بے چارہ، ناز و نعمت کا پلا ہوا تھا، اس صدمہ کا متحمل نہ ہو سکا اور روز بہ روز اس کی حالت ردی ہوتی گئی۔ تپ آنے لگی، زخم بگڑا، ناسور پڑے۔ اتنا بڑا ڈھو جوان، ایک ہی مہینے میں گھل گھل کر پلنگ سے لگ گیا۔ جب پاؤں کی طرح اس کی زیست کی امید منقطع ہو گئی تو نا چار لوگوں نے اس کو دہلی میں پہنچانے کی صلاح کی اور یہ بھی خیال ہوا کہ گھر کے جانے کی مسرت اور تبدیلی آب و ہوا کی فرحت سے عجب نہیں کہ اس کے دل کو تقویت پہنچے۔ صدر اعظم صاحب حسبتہ للہ مصارف ہوئے اور دولت آباد سے دہلی تک برابر کہاروں کی ڈاک بیٹھ گئی۔
کلیم دہلی میں پہنچا تو راہ میں انیس بیس کا فرق اس کی حالت میں ہو گیا تھا، مگر نا توانی اس درجے کی تھی دن رات میں سات پہر بے ہوشی میں گزرتے تھے۔ جب کہاروں نے اس کی ڈولی نصوح کے دروازے پر جا اتاری تو اس پر غشی طاری تھی۔ نصوح بالا خانے پر مصروف عبادت تھا۔ پہلے زنان خانے میں خبر ہوئی۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بے حجاب باہر نکل آئی۔ جو پالکی کے پت کھول کر دیکھا تو بیٹے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس طرح بلک کر روئی کہ سننے والوں کے کلیجے ہل گئے۔ فہمیدہ نے اس بے قراری میں جو بین کئے، ان کے لکھنے سے پہلے قلم کا سینہ شق ہے، اور چشم دوات سے اشک جاری ہیں۔ خلاصہ یہ کہ فہمیدہ کے قلق و اضطراب نے محلے میں حشر برپا کر دیا۔
اگرچہ نصوح گریہ و بکا کی آواز سن کر کھٹکا تھا مگر اس طرح کا مستقل مزاج، ضابطہ آدمی تھا کہ اسی ترتیل کے ساتھ معمولی تلاوت کو پورا کیا اور اس کے بعد نیچے اتر کر پالکی کے پاس آیا۔ فہمیدہ کا رونا سن کر اور بیٹے کی ردی حالت دیکھ کر بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو چلے آتے تھے اور بار بار ٹھنڈی سانسیں بھرتا تھا، مگر کچھ بولتا نہ چالتا تھا۔ آدھ گھنٹے کامل اس کی یہی کیفیت رہی۔ اس کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا :
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ انما اشکو ابثی و حرنی الی اللہ۔ اللھم افرغ علینا صبراً و ثبت اقدامنا۔ اللھم بون علیہ سکراتہ و کفر عنہ سیاتہ۔
اس کے بعد بی بی کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں تم کو رنج کرنے سے منع نہیں کرتا۔ تمہارا رنج ایک اقتضائے طبیعت ہے کہ انسان اس میں مجبور ہے۔ لیکن مجھ کو تمہارا اضطرار دیکھ کر اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ مبادا تمہارے خیالات مبخر بہ کفران ہو جائیں۔ اگر مصیبت کے وقت انسان کے دل میں، نعوذ باللہ، بوئے نا رضامندی بھی خواند بے نیاز کی طرف سے پیدا ہو تو پھر کہیں اس کا ٹھکانا نہیں۔ خسر الدنیا و الاآخرۃ۔ ذالک ہو الخسران المبین۔ کیا ہم نئے آدمی اور یہ انوکھی مصیبت ہے؟ بزرگان دین پر اس سے کہیں زیادہ مصیبتیں نازل ہوئیں۔ زندہ دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیے گئے، سر پر آرے چلے، سولی چڑھے، قتل ہوئے، قید رہے، ماریں پڑیں، کوڑے سہے، گالیاں کھائیں، بیگاریں بھگتیں، ذلتیں اٹھائیں، رسوائیاں جھیلیں۔ مگر خدا ان کو جزائے خیر دے، کیسے سچے بندے تھے کہ رضا و تسلیم کے حبلِ متین کو ہاتھ سے نہ دیا۔ یہ کچھ مصیبت اور دل بہ رضا جوئی حضرت ربوبیت۔ یہ کچھ ایذا اور زبان سپاس گزار منت۔ شکر کا مقام ہے کہ خداوند کریم نے ہمارے ضعف پر رحم فرما کر امتحان سخت میں مبتلا نہیں کیا۔ اگر بندہ صوف یسر و رفاہ کی حالت میں خدا سے راضی ہے اور تکلیف و اذیت میں شاکی، تو وہ بندہ، بندہ خدا نہیں، بلکہ بندہ غرض اور مطلب پرست ہے۔ اے بی بی رنج کرو لیکن صبر کے ساتھ اور مصیبت پر روؤ مگر شان عبودیت لیے ہوئے۔ دنیا میں جتنی ایذا اور جتنی مصیبت ہے، پاداشِ گناہ و وبال معصیت ہے۔ اسی واسطے توبہ و استغفار کو لکھا ہے کہ اس سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں۔ سب سے بہتر ہمدردی جو ہم اس شخص کی اس تباہ حالت میں کر سکتے ہیں، یہ ہے کہ ہم اس کے گناہوں کی معافی کے لیے خداوند کریم کے حضور میں بہ منت و سماجت دعا کریں۔ یہ شخص تم بھی اس بات کو تسلیم کرو گی، اپنے ہاتھوں اس نوبت کو پہنچا کہ جو اس کو دیکھے گا، بہ اقتضائے انسانیت تاسف کرے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں، تمام دنیا کا رحم، خدا کی رحمت کاملہ کے آگے ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ ہم لوگوں کے دیکھنے میں اس کی حالت ہی زبوں ہے لیکن کوئی شخص اس سے بڑھ کر خوش قسمت نہیں، اگر اس کی یہ تکلیفیں، عند اللہ، اس کے گناہوں کا کفارہ سمجھی جائیں۔
نصوح کے وعظ کا سحر حلال ایسا نہ تھا کہ کوئی اس کو سنے اور متاثر نہ ہو۔ فہمیدہ فورا منہ پوچھ، سیدھی ہو بیٹھی اور اب میاں بی بی لگے آپس میں صلاح کرنے کیا کیا جائے۔
نصوح : اس کو محلے کے شفا خانے میں پہنچا دینا چاہیے۔ ہر وقت ڈاکٹر کے پیش نظر رہے گا۔
مکان بہت پر فضا ہے، اس کی طبیعت کو بھی تفریح ہو گی۔
فہمیدہ : ہے ہے ! اور میرا دل کیوں کر صبر کرے گا؟
نصوح : تمہارا یہ کہنا بھی واجب مگر بیمار کی حالت ایسی ردی ہے کہ کسی وقت اس سے طبیعت کا مفارقت کرنا مناسب نہیں۔
فہمیدہ : حکیم جی شوق سے آئیں جائیں، مگر سہ دری میں پردہ کیے بیٹھی رہوں گی۔
نصوح : زخموں کا علاج کچھ ڈاکٹروں ہی سے خوب بن پڑتا ہے۔ یونانی طبیب تو اس کوچے سے محض نابلد ہیں۔ رہے جراح، ان کو دوچار مرہم ضرور معلوم ہیں مگر تشریح سے جیسے یونانی طبیب بے خبر، ویسے ہی جراح نا واقف۔ بہتر ہو گا کہ اس کو نعیمہ کے گھر لے چلیں۔ سرکاری شفا خانہ بھی قریب ہے اور میاں عیسٰی کہ اس وقت ہندوستانی جراحوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، دیوار بیچ ان کا گھر ہے۔
فہمیدہ نے بھی اس صلاح کو پسند کیا اور کیسا سامان، کس کی تیاری، گھر کا گھر کلیم کی پالکی کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ یہاں سے کوئی چھ سات پیسے ڈولی نعیمہ کی سسرال تھی۔ کہاروں نے پالکی اٹھائی تو کہیں کاندھا تک نہیں بدلا، دھر نعیمہ کے گھر جا اتاری۔
یاد ہو گا کہ نعیمہ ماں سے لڑ کر، بے ملے، صالحہ کے ساتھ خالہ کے یہاں چلی گئی تھی۔ پھر چار مہینے وہاں رہی۔ نیک لوگوں کے ساتھ رہنے کی برکت، خدا نے اس کو ہدایت دی اور وہ بھی نیک بن گئی :
سگ اصحاب کہف روزے چند
پئے نیکاں گرفت و مردم شد
نیک بنے پیچھے ممکن نہ تھا کہ ماں باپ کی نا رضا مندی گوارا کرتی۔ اس نے ماں باپ کو شاد اور خدا نے اس کو اپنے گھر میں آباد کیا۔ اس کو سسرال گئے دوسرا مہینہ تھا کہ کلیم کو چار کہاروں کے کندھے پر لاد کر اس کے گھر لے گئے۔ چوں کہ نعیمہ کے گھر آباد ہونے کا تذکرہ آ گیا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نعیمہ کا حال لکھا جائے اور کلیم کو، جو دنیا میں اب مہمان چند روزہ ہے، پیچھے دیکھ لیا جائے گا۔
فصل دوازدھم
نعیمہ خالہ کے یہاں رہ کر خود بہ خود درست ہو گئی۔ اس نے ماں باپ سے اپنی خطا معاف کرائی اور خدا نے اس کا مدتوں کا اجڑا ہوا گھر پھر آباد کیا۔ کلیم نے بہن کے گھر
وفات پائی۔ قصے کا خاتمہ
نعیمہ اور کلیم، اس اعتبار سے دونوں کی کچھ ایک ہی سی کیفیت تھی، کہ زیادہ عمر ہو جانے کی وجہ سے عادتیں دونوں کی راسخ ہو چکی تھیں۔ بیاہے ہوئے اور صاحبِ اولاد دونوں تھے۔ کلیم کو بی بی سے کچھ انس نہ تھا تو نعیمہ کا شوہر سے بگاڑ تھا۔ نعیمہ اگرچہ کلیم کی طرح سب میں بڑی نہ تھی مگر بڑی بیٹی تھی۔ لیکن پھر بھی کلیم فولاد تھا تو نعیمہ اس کے مقابلے میں سیسا، بلکہ رانگا سمجھنا چاہیے۔ کلیم مرد تھا، قسی القلب نعیمہ عورت، نرم دل۔ کلیم باہر کا چلنے پھرنے والا سینکڑوں آدمیوں سے تعارف، ہزاروں سے جان پہچان۔ نعیمہ بے چاری پردے کی رہنے والی۔ میل ملاپ سمجھو تو اور پیار اخلاص سمجھو تو، ماں، بہن، خالہ، نانی، کنبے، کی عور توں سے وہ بھی گنتی کی۔ کلیم اور نعیمہ، دل دونوں کے بیمار تھے۔ لیکن کلیم کے دل کو ذاتی روگ کے علاوہ صد ہا بیماریاں اس قسم کی تھیں جو متعدی کہلاتی ہیں، یعنی ایک سے اڑ کر دوسرے کو لگ جاتی ہیں۔ اس کلیم کے مزاج میں چند در چند خرابیاں تھیں جو اس نے بری صحبتوں میں بیٹھ کر اپنے پیچھے لگا لی تھیں۔ نعیمہ میں جو کچھ برائی تھی، وہ ماں باپ کے لاڈ پیار، علم کی ناداری اور عقل کی کوتاہی کی وجہ سے تھی۔ کلیم دلیر و بے باک اور عیار و چالاک تھا۔ نعیمہ بے وقوف، بھولی اور ڈرپوک، دل کی بودی۔ کلیم کے سر پر ایک سخت بلا مسلط تھی یعنی اس کے جلیس و ہم نشیں، اور نعیمہ اس سے بالکل محفوظ تھی۔ کلیم میں اس قسم کے بے ہودہ عیوب تھے جن میں آج کل کے کم بخت نوجوان شریف زادے کثرت سے مبتلا پائے جاتے ہیں، یعنی عور توں کی طرح درپے تزئین رہنا اور بناؤ سنگھار رکھنا۔ پہر دن چڑھے سو کر اٹھے۔ ضرور توں سے فارغ ہو کر آئینے کی تلاوت شروع ہوئی تو دوپہر کر دیا۔ اگرچہ رات کو مانگ اور پٹیوں کے لحاظ سے رومال باندھ کر اور سر کو الگ تھلگ رکھ کر سوئے تھے، مگر آئینے میں منہ دیکھا تو زلف کی پریشانی پر اس قدر تاسف کیا کہ سر اسحاق نیوٹن صاحب، نے بھی اپنے اوراق کی ابتری پر اتنا افسوس نہ کیا ہو گا۔ بارے اگر اصلاح کا دن نہ ہوا تو گھنٹوں کی محنت میں، وہ بھی اپنے اکیلے کی نہیں، بال ٹھکانے لگے اور مانگ درست ہوئی، اور اگر کہیں اصلاح کا زور منحوس ہوا تو سارا دن گزر گیا۔ ایک وضع خاص پر سر جھکائے جھکائے گردن شل ہو گئی۔ داڑھی اور مونچھوں کے ترشوانے میں منہ کو لقوہ مار گیا۔ حجام کی آنکھوں کے تلے اندھیرا آنے لگا مگر پھر بھی ان کا خط خاطر خواہ نہ بنا۔ کپڑے بدلنے کی نوبت پہنچی۔ ٹوپی قالب سے اتر کر آئی تو سر پیٹ لیا، مگر ایسی احتیاط سے کہ بال نہ بگڑیں۔ اس کے بعد انگرکھے کی چنٹ پر چیں بہ جبیں ہوئے۔ پھر تو ادھر انگرکھے کی آستینوں اور ادھر پائجامہ کی تنگ مہریوں کے ساتھ ہاتھ پائی شروع ہوئی۔ مشکل یہ آ کر پڑی کہ کپڑا کشاکش کا متحمل نہیں، ذرا زور پڑا اور مسکا اور ہاتھ پاؤں کہتے ہیں کہ ہم ان چیونٹی کے بلوں میں گھسنے کے نہیں۔ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔ بارے کاغذ کے سہارے سے ہولے ہولے پھسلاتے پھسلاتے کہیں پہروں میں جا کر مشکل آسان ہوئی۔ اب ملبوس خاص زیب تن تو ہوا، مگر کس کیفیت سے کہ تنگی اور چستی کے مارے مشکیں الگ کسی ہوئی ہیں، پاؤں علیحدہ جکڑے ہوئے ہیں اور سارا بدن گویا شکنجے میں ہے۔ کھانسنا، چھینکنا، جمائی، انگڑائی تو در کنار، گھنڈی تکمے کے لحاظ اور بندوں کے پاسِ خاطر سے اچھی طرح سانس بھی نہیں لے سکتے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ لباس سے غرض اصلی بدن ڈھانکنا اور آسائش پہنچانا ہے۔ اس میں کبر و نخوت کو دخل دے کر کیا ناس مارا ہے کہ غرض اصلی گئی گزری ہوئی، اور تکلیف و ایذا الٹی گلے مڑھی گئی۔ مقصود تھی پردہ پوشی، ان بزرگ ذات نے اس میں تراش خراش اور وضع داری کو ایسا شامل کیا کہ کپڑوں نے اندرون دل تک کا لفافہ ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اب ان کے حالات لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صورت ببیں حالش مپرس۔
کلیم بھی ایک اس طرح کا چھیلا تھا، بد وضع، آوارہ، جس کے اطوار و عادات جا بہ جا لکھے جا چکے ہیں۔ اس خصوص میں نعیمہ شرفا کی بہو بیٹیوں کی طرح کالدُر المکنُون، محفوظ و مصئون تھی۔ اس میں اور کلیم میں بے مبالغہ فرشتہ اور شیطان کی نسبت سمجھنی چاہیے۔ غرض نعیمہ کا رو براہ ہونا دشوار مگر نہ کلیم کی طرح محال : مشکل البتہ تھا، لیکن نہ کلیم کی مانند متعذر۔ خالہ کے یہاں ڈولی سے اتری تو جوں خالہ کی شکل دور سے نظر پڑی کہ بھوں بھوں رونا شروع کیا۔ دیہات کی مستورات کا تو یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی مہمان یا مسافر بہت دنوں کے بعد آتا ہے تو اس مل کر رونے لگتی ہیں، اس واسطے کہ اس وقت ان کو مفارقت کی سختیاں اور تکلیفیں اور یادگاری و انتظار کی زحمتیں یاد آتی ہیں۔ مگر دہلی کا یہ دستور نہیں ہے۔ یہاں کی عورتیں اسی حالت میں روتی ہیں جب کہ طرفین میں سے کسی کا کوئی عزیز و قریب زمان جدائی میں مر گیا ہو۔ ورنہ یوں مہمان و مسافر کے آنے پر رونا دلی والیاں منحوس سمجھتی ہیں۔ گو خالہ کو دیکھ کر نعیمہ کے دل میں جوش پیدا ہوا تھا مگر اس کو ضبط کرنا چاہیے تھا۔ لیکن نہ تو نعیمہ کو اتنی عقل تھی کہ اتنی بات سمجتھی، اور شاید سمجھتی بھی ہو تا ہم وہ دل پر اس قدر ضابطہ نہ تھی۔ خالہ نے جو اس کو روتے دیکھا سخت تعجب کیا۔ بھانجی کی عادت سے واقف تھیں۔ سمجھ تو گئیں کہ ماں سے روٹھ کر آئی ہے، اسی کا یہ رونا ہے۔ لیکن جلدی سے دوڑ کر بھانجی کو گلے سے لگا لیا اور پیار چمکار کر بہت کچھ تسلی دی اور سمجھایا کہ اللہ رکھے بیٹے کی ماں ہوئیں، اب تمہاری عمر بچوں کی طرح رونے کی نہیں ہے۔ ہمسایے کی عورتیں سنیں گی تو کیا کہیں گی؟ جانے دو بس کرو، طبیعت کو سنبھالو، جی کو مضبوط رکھو۔
نعیمہ : اماں جان نے مجھے مارا، اوں اوں۔
خالہ : مارا تو کیا ہوا؟ ماں باپ ہزار بار لاڈ کرتے ہیں تو نصیحت کے واسطے مار بھی بیٹھتے ہیں۔ ماں باپ کی مار، مار نہیں سنوار ہے۔ تمہاری نانی، خدا جنت نصیب کرے ہ بڑی ہتھ چھٹ تھیں۔ تم اس بات کو سچ ماننا کہ اب ہم ان کی مار کو ترستے ہیں۔ ماں باپ کی مار کیا ہر ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ جنہیں خدا کو بہتر کرنا منظور ہوتا ہے، وہ ماں باپ کی مار کھاتے ہیں۔ بھلا تم نے اس بات کا خیال کیا۔ ہوش میں آؤ تو دیکھو کہ تمہارا بیٹا بھی تمہارے رونے پر ہنستا ہے۔ (ننھے بچے کی طرف مخاطب ہو کر) کیوں جی بڑے میاں ! تم کچھ اپنی اماں جان کو نہیں سمجھاتے؟
بچہ : آغوں !
خالہ : آغوں غوٹے، دودھ پی پی کر میاں ہوئے موٹے۔
غرض خالہ نے نعیمہ کے رونے کو با توں میں ٹال دیا۔ نعیمہ چندے جھینپتی سی رہی۔ مگر پھر تو ہنسی خوشی رہنے لگی۔ اگرچہ خالہ نے بھانجی سے رونے کا سبب مصلحتاً دریافت نہیں کیا، مگر موقع سے صالحہ کو الگ لے جا کر ساری حقیقت پوچھی اور جب اس کو بہن کے گھر دین داری کی چھیڑ چھاڑ کا ہونا معلوم ہوا تو اس کو اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان نہیں آ سکتی اور اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جب تک نعیمہ کو پکی دین دار نہ بنا دے، گھر سے رخصت نہ کرے۔ خالہ کے گھر رہ کر نعیمہ کی عاد توں کا خود بہ خود درست ہو جانا، عمدہ مثال ہے۔ اس کی صحبت سے بڑھ کر تعلیم کو کائی اچھا طریقہ نہیں، ماں کے گھر چند خاص باتیں نعیمہ کی اصلاح میں خلل انداز تھیں۔ اول تو اس نے ماں اور تمام خاندان کو بے دینی کی حالت میں مد توں زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھا، بس بالضرور ان کی نصیحت کو وہ وقعت نہیں ہو سکتی تھی جو یہاں خالہ کی با توں کی تھی۔ دوسرے، ماں کے گھر بھائی بہن نو کر چاکر پاس پڑوس والے، کتنے لوگ تھے جو نعیمہ کو ابتدائے عمر سے ایک طرز خاص پر دیکھ چکے تھے۔ نعیمہ کو ان کے روبرو طرز جدید اور جدید بھی کیسا کہ طرز سابق سے مخالف، اختیار کرتے ہوئے، عار آتی تھی۔ تیسرے، ماں کے یہاں اتفاق سے اس کو ایک سختی بھی پیش آ گئی تھی اور وہ سختی اس کی حالت کو کسی طرح مناسب نہ تھی۔ چوتھے، اس کو ماں پر بڑا ناز تھا، یعنی ان کی خدمت میں شدت سے گستاخ تھی اور ان کے کہنے کی مطلق پروا نہ کرتی تھی۔ خالہ کے یہاں آ کر رہی تو کسی نے بھول کر بھی اس سے تذکرہ نہ کیا کہ دین داری بھی کوئی چیز ہے، یا خدا کی پرستش بھی انسان کا ایک فرض ہے۔ مگر تھا کیا، کہ چھوٹے بڑے سب ایک رنگ میں رنگے تھے۔ صبغۃ اللہ و من احسنُ من اللہ صبغۃ اور ان کی تمام حرکات و سکنات شان دین داری لیے ہوئے تھیں۔ ان کی نشست و برخاست، ان کی رفتار و گفتار، ان کا قول، ان کی بات چیت، ان کا میل جول، ان کا لڑائی جھگڑا، ان کا کھانا پینا، ان کی خوشی، ان کا رنج، کوئی ادا ہو، وہ ایک نرالی دین دارانہ ادا تھی۔ نعیمہ کو خالہ کا گھر ایک نئی دنیا معلوم ہوتا تھا۔ اگرچہ ابتداً وہ یہاں کے اوضاع کو حقارت سے دیکھتی تھی، لیکن جوں جوں وہ ان دستورات سے مانوس ہوتی گئی، ان کی عمدگی اور بہتری اس کے ذہن میں بیٹھتی گئی اور آخر اس کو ثابت ہوا کہ بے دین زندگی، محض ایک بے اطمینان، بے سہارے زندگی ہے۔ اگر رنج و ایذا ہے، تو کوئی وجہ تسلی، کوئی ذریعہ تشفی نہیں اور اگر آرام و خوشی ہے تو اس کو ثبات پائیداری و قرار نہیں۔ فاقہ ہے تو صبر نہیں، کھانا ہے تو سیری نہیں۔ بدی کو سزا نہیں، نیکی کی جزا نہیں ہے۔ بے دین آدمی ایسا ہے، جیسے بے نکیل کا اونٹ، بے ناتھ کا بیل، بے لگام کا گھوڑا، بے ملاح کی ناؤ، بے ریگولیٹر کی گھری، بے شوہر کی عورت، بے باپ کا بچہ، بے تھیوے کی انگوٹھی، بے لالی کی مہندی، بے خوشبو کا عطر، بے باس کا پھول، بے طبیب کا بیمار، بے آئینے کا سنگھار، یعنی دین نہیں تو دنیا و مافیہا سب ہیچ اور عبث اور فضول اور پوچ اور لچر ہے۔
نعیمہ نے رفتہ رفتہ خود بہ خود خالہ کی تقلید شروع کی۔ وہ ہمیشہ پہر سوا پہر دن چڑھے سو کر اٹھتی تھی اور یہاں گھر بھر، چھوٹے بڑے، منہ اندھیرے اٹھ، ضرور توں سے فارغ ہو، عبادت الہٰی میں مصروف ہوتے تھے۔ گھر بھر کا اٹھنا اور وہ بھی نرا اٹھنا اور چار پائیوں پر لدے بیٹھے رہنا نہیں بلکہ چلنا پھرنا، کام کاج کرنا ہر چند نعیمہ کی وجہ سے احتیاط کی جاتی تھی مگر کہاں تک، کچھ نہ کچھ آہٹ آواز ہوتی ہی تھی۔ بعد چندے نعیمہ کی آنکھ بھی سب کے ساتھ کھلنے لگی، اور جاگی تو ممکن نہ تھا کہ اس کو اپنی حالت پر تنبہ نہ ہو۔ اس واسطے کہ وہ اپنے تئیں دیکھتی تھی کہ بچے کی نجاست میں لتھڑی ہوئی پڑی انگڑائیاں لے رہی ہے مست، اداس، مضمحل، نیند کے خمار سے کسل مند، اور دوسرے ہیں کہ چاق و چوبند، چست و چالاک، تازہ دم، پاک صاف، خدا کی درگاہ میں شکر کے سجدے کر رہے ہیں۔ کہ رات امن چین سے کٹی اور دعائیں مانگ رہے ہیں کہ بارِ الہٰا ! ہم کو روزی دے، اتنی کہ فراغت سے کھائیں اور رزق دے، ایسا کہ دوسرے کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں، حاجت نہ لے جائیں۔ بارِ خدایا ! بیماروں کو شفا، گم راہوں کو ہدایت، قیدیوں کو رہائی، مسافروں کو امن، بھوکوں کو روزی، قحط زدوں کو ارزانیِ رزق، تشنہ کاموں کو پانی، مایوسوں کو امید، ناکاموں کو کام یابی کو نوید، مفلسوں کو قناعت، تونگروں امیر کو سخاوت، بے اولادوں کو اولاد، نا مرادوں کو مراد، جاہلوں کو علم، عالموں کو عمل، زاہدوں نیک کو اخلاص، حاکم وقت کو توفیقِ عدل و داد، رعیت شاد، ملک آباد، کیا اپنے کیا غیر، جل جہان کی خیر۔
متنبہ ہوئے پیچھے نعیمہ کی اصلاح ہوئی ہوائی تھی۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ دین دار خدا پرست بن گئی۔ نماز روزے کی پابند، واعظ و نصیحت کی دلدادہ، منکسر، متواضع، ملن سار، صلح جو، نیک خو شائستہ باوجودے کہ نعیمہ ایک آسودہ حال گھر کی بیٹی تھی اور اس نے ناز و نعمت میں پرورش پائی تھی اور ماں باپ کو اس کی دل جوئی اور خاطر داری ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی، بایں ہمہ وہ اپنے مزاج، اپنی عادات، اپنے خیالات کے پیچھے سدا نا خوش رہا کرتی تھی۔ اور چوں کہ طبیعت میں برداشت مطلق نہ تھی، ذرا سی تکلیف کو وہ مصیبت کا پہاڑ بنا لیتی۔ اگر کسی نو کر نے مرضی کے مطابق کوئی چھوٹا سا کام نہ کیا، یا مثلاً کھانے میں نمک پھیکا یا تیز ہو گیا، یا روٹی کو چتی لگ گئی۔ یا کپڑے کی سلائی اس کی خاطر خواہ نہ ہوئی، یا بچہ کسی وقت رونے لگا، ان میں سے ایک ایک بات کا سارے سارے دن اس کو جھگڑا لگ جاتا تھا۔ اور جو کہیں خدانخواستہ خود اس کی طبیعت یونہی سے علیل ہو گئی، یا اس کو اپنی خانہ ویرانی کا کبھی خیال آ گیا تو ہفتوں گھر کا عیش منغض ہوا۔ اب خیالات دین داری کے ساتھ اس کو عافیت اور اطمینان کا مزہ ملا۔ دنیوی کوئی تکلیف نہ تھی جو اس کو ایذا دیتی ہو۔ مگر ہاں ماں باپ کی نا رضامندی اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور ایک ایک لمحہ اس پر شاق تھا۔
اسی اثنا میں خدا نے اپنے فضل سے نعیمہ کی خانہ آبادی کی صورت بھی نکال دی۔ نعیمہ کا شوہر بڑا دین دار تھا اور اس کو بی بی ملی نعیمہ جو ان دنوں دین سے مطلق بے بہرہ اور خدا پرستی سے کلیتہً بے نصیب تھی۔ ہر چند وہ نعیمہ کے حسن صورت پر فریفتہ تھا مگر اختلافِ عادات، اختلافِ عقائد ایک ایسا پردہ تھا کہ وہ دونوں میں اتحاد کے پیدا ہونے کا مانع تھا۔ ساس نندیں، میاں بی بی کی اتنی نا موافقت کا سہارا پا کر ایسے بے رخ ہوئیں کہ نعیمہ کا رہنا دشوار کر دیا۔ اب نعیمہ کی تبدیل حالت کے تھوڑے ہی دن بعد صالحہ کے چچا کے گھر شادی کی تقریب پیش آئی۔ نعیمہ کو دہرا بلاوا آیا۔ ایک تو صالحہ کے رشتے سے، دوسرا سسرال کی طرف سے، صالحہ کی چچا زاد بہن اور نعیمہ، دیورانی جٹھانی بھی تھیں۔ شادی کے مجمع میں اور عور توں نے تو اپنی رات گیت گانے اور لا یعنی باتیں بنانے میں ضائع کی، اور نعیمہ نے نماز عشا سے فارغ ہو کر صلواۃ التسبیح کی نیت باندھی تو آدھی رات ہو گئی۔ پھر تھوڑی دیر سو کر تہجد پڑھنے کھڑی ہوئی تو صبح کر دی۔ نعیمہ کی شب بیداری اور تہجد گزاری کی کبر جب اس کے شوہر نے سنی تو غایت درجہ محظوظ ہوا۔ اور اگرچہ وہ کبھی کبھی سسرال آتا جاتا تھا اور اپنی ذات سے بی بی کا بڑا خیال رکھتا تھا، لیکن بی بی کے بے دین ہونے کی وجہ سے، اس کو، اپنی ماں بہنوں کے مقابلے میں، اس کی طرف داری کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ اب جو اس نے بی بی کا دین دار ہونا سنا، تو ڈولی لے کر دوڑا ہوا سسرال آیا۔
نعیمہ ماں کے رضا مند کرنے کے لیے بیتاب تو تھی ہی، شادی میں جو دونوں ایک جگہ جمع ہوئیں تو نعیمہ دور سے ماں کو دیکھ دوڑ کر قدموں پر گر پڑی۔ ادھر فہمیدہ ” باقتضائے مہر مادری ” من جانے کے لیے بہانہ ڈھونڈھتی تھی۔ بیٹی کو جھکتے دیکھ کر جلدی سے اٹھ، گلے لگا لیا۔ اور جب بہن اور بھانجی سے نعیمہ کا حال اور رات کے وقت اس کو خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت الہٰی کرتے دیکھا، تو اس نے نہ صرف بیٹی کی خطا سے درگزر کی، بلکہ پہلے سے زیادہ ریجھ ریجھ کر اس کو پیار کیا۔ اور جب شادی کے مہمان رخصت ہوئے تو بہن بھانجی کا بہت بہت شکریہ ادا کر کے بیٹی کو اپنے ساتھ گھر لوا لائی، اور محلے کی بیبیوں کو جمع کر کے ایک ایک سے اس کو ملوایا۔ ادھر نعیمہ، ساری بیبیوں میں کشادہ پیشانی سے اپنے قصور کا اظہار کر کے، کبھی تو ماں کے پاؤں سر رکھ رکھ دیتی تھی اور کبھی حمیدہ کو گود میں لے لے کر پیار کرتی تھی، اور اس کی پیشانی پر جہاں کیل کا داغ تھا، بوسے دیتی تھی۔ کبھی بیدارا کو بلا بلا کر پاس بٹھاتی اور دولتی کے بدلے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑتی تھی۔ آج شام کو تو نعیمہ ماں کے گھر آئی، اگلے دن بڑے سویرے اس کا میاں ڈولی لے آ موجود ہوا۔ نعیمہ چندے سسرال جا کر رہی تو نہ صرف میاں بلکہ ساس، نندیں، سارے کا سارا کنبہ، اس کی نیکی کا مرید و معتقد تھا۔
نعیمہ کو اپنے گھر آئے دوسرا مہینہ تھا کہ کلیم، اس حالت سے کہ اوپر بیان کی گئی، بہن کے یہاں پہنچا۔ بھائی کی ایسی ردی حالت دیکھ کر بہن پر اور بہن بھی کیسی خدا ترس، جو صدمہ ہوا قابل بیان نہیں۔ کلیم اسی کیفیت سے بہن کے گھر رہا۔ ایک چھوڑ دو دو ڈاکٹر، شہر کے نامی جراح، مل کر اس کا علاج کرتے تھے مگر اس کے زخموں کا بگاڑ کم نہ ہوتا تھا۔ صبح و شام تھوڑی دیر کے لیے کبھی کبھی اس کو ہوش آ جاتا تھا، اور ضرور اس نے سمجھا ہو گا کہ کہاں ہے اور کون لوگ اس کی تیمار داری کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی نا توانی اور نقاہت دیکھ کر کوئی اس سے کسی قسم کا تذکرہ نہیں کرتا تھا۔ باتیں کرتے بھی تھے تو تسلی و تشفی کی۔ یہاں تک کہ زخموں کا فساد انتہا کر پہنچ گیا، اور اس کی مدت حیات پوری ہو چکی۔ مرنے سے پہلے یکایک ایسی اس کی حالت بہتر ہو گئی کہ وہ اچھی خاصی طرح آپ سے آپ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور خلاف عادت اس نے فرمائش کر کے دو گوشتہ پلاؤ پکوایا اور تندرستوں کی طرح وہ گھر والوں کے ساتھ بہت دیر تک پکار پکار کر باتیں کرتا رہا۔ اس نے اپنے تمام حالات، جب سے کہ وہ گھر سے نکلا اور جب تک کہ وہ مجروح ہو کر پھر دہلی آیا، ذرا ذرا بیان کیے اور بھائی بہن، ایک ایک کر کے سب کا حال پوچھا۔ اس وقت وہ اپنے افعال پر تاسف کر کے اتنا رویا اتنا رویا کہ اس کو غش آ گیا۔
بڑی دیر کے بعد ہوش میں آیا تو اس نے ماں سے کہا کہ آج کی غیر معمولی توانائی جو تم مجھ میں دیکھتی ہو، میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ میری آخری توانائی ہے۔ خون جو مدارِ حیات ہے، مطلق میرے بدن میں باقی نہیں رہا۔ بلکہ میں جانتا ہوں کہ شاید میری ہڈیوں کے اندر کا گودا بھی پگھل پگھل کر فنا ہو چکا ہے۔ گو تم لوگ میری تقویت کی نظر سے تسلی و تشفی کی باتیں کرتے ہو مگر میں سمجھ چکا ہوں کہ میں اس مرض سے جاں بر ہونے والا نہیں۔ میں اپنے مرنے کو ترجیح دیتا ہوں، اس نا لائق زندگی پر جو میں نے بسر کی۔ اگرچہ میں نے اپنی زندگی، خرابی اور رسوائی اور فضیحت اور والدین کی نا رضا مندی اور خدا کی نا فرمانی میں کاتی، اور ایسی ایسی ہزاروں لاکھوں زندگیاں ہوں تو بھی اس نقصان کی تلافی کی امید نہیں، جو اس چند روزہ زندگی میں، مجھ کو اپنی بد کرداری سے پہنچا، مگر مجھ کو تین طرح کی تسلی ہے۔ اول یہ کہ میں مرتا ہوں نادم، پشیمان، خجل، متاسف، دوسرے یہ کہ سفر عاقبت شروع کرتے وقت ایسے لوگوں میں ہوں جو اس راہ کے منزل شناس اور میرے دل سوز اور ہم درد اور شفیق اور مہربان حال ہیں۔ تیسرے یہ کہ غالباً میری زندگی دوسروں کے لیے نمونہ عبرت ہو گی، کہ اس صورت میں، گو اپنی زندگی سے میں خود مستفید نہیں ہوا لیکن اگر دوسروں کو کچھ نفع پہنچے تو میں ایسی زندگی کو رائیگاں اور عبث نہیں کہہ سکتا۔ ع :
من نہ کر دم شما حذر بہ کنید
اب مجھ کو دنیا میں سوائے اس کے اور کوئی آرزو باقی نہیں کہ میں ابا جان سے اپنا قصور معاف کرا لوں۔
یہ کہہ کر اس پر بڑے زور کی رقت طاری ہوئی۔ بے چارے کی طاقت تو مد توں سے سلب ہو ہی چکی تھی، رونا تھا کہ بے ہوش ہو گیا، اور اسی بے ہوشی میں اس کا سانس اکھڑ گیا اور لگا ہاتھ پاؤں توڑنے۔ نبضیں چھوٹ گئیں، ہچکیاں لینے لگا، ناک کا بانسہ پھر گیا۔ عورتیں تو یہ حالت دیکھ کر رونے پیٹنے لگیں۔ باہر مردانے سے نصوح دوڑا آیا اور عور توں کو علیحدہ کر کے جزع و فزع نا مشروع سے منع کیا اور صبر جمیل کی تلقین کی اور بیٹے کے سرہانے بیٹھ کر یاسین پڑھنی شروع کی۔ منہ میں شربت ٹپکایا، اور اس کو قبلہ رو لٹایا۔ کلمہ پڑھ کر سنایا۔ شربت کا حلق سے اترنا تھا کہ کلیم نے آنکھیں کھول دیں اور باپ کو نگاہِ حسرت آلود سے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑے، اور اسی حالت میں اس نے جاں بہ حق تسلیم کی۔ ع :
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
اس میں شک نہیں کہ اگر کلیم بچ جاتا تو وہ نیکی اور دین داری میں اپنے سب بھائی بہنوں پر سبقت لے جاتا۔ اس نے مصیبتیں اٹھا کر اپنی رائے کو بدا تھا، اور آفتیں جھیل کر تنبہ حاصل کیا تھا۔ پس وہ مجتہد تھا اور دوسرے مقلد، وہ محقق تھا اور دوسرے ناقل۔ اس کا سا انجام خدا سب کو نصیب کرے۔
کلیم کا جوان مرنا ایک ایسی بھاری موت تھی کہ ماں باپ تو دونوں گویا اس کے ساتھ زندہ درگور ہو گئے۔ بھائیوں کا بازو ٹوٹ گیا۔ بہنوں کے سر سے ایک بڑا سرپرست اٹھ گیا۔ لیکن بہ تقاضائے دین داری سب نے صبر جمیل کیا اور ہر شخص نے بجائے خود عبرت پکڑی۔ کلیم کے ساتھ نصوح کی وہ تمام کوششیں بھی تمام ہوئیں جو اس کو اصلاحِ خاندان کے لیے کرنی پڑتی تھیں۔ کیوں کہ کلیم مرحوم کے سوا سب چھوٹے بڑے اس کی رائے میں آ چکے تھے۔ یا تو ابتدا علیم کے انٹرنس پاس کرنے کے لالے پڑے تھے، یا اس نے بی۔ اے پاس کیا۔ ایک سے ایک عمدہ نو کری گھر میں بیٹھے اس کے لیے چلی آتی تھی، مگر اس نے نیک نہادی کی وجہ سے، سر رشتہ تعلیم کو یہ سمجھ کر پسند کیا کہ ہم وطنوں کو نفع پہنچانے کا قابو ملے۔ سلیم بڑا ہو کر طبیب ہوا تو کیسا کہ آج جو دلی کے بڑے نامی طبیب ہیں وہ اسی کی بیاض کے نسخوں سے مطب کرتے ہیں۔ ولیۂ مادر زاد حمیدہ، قرآن اس نے حفظ کیا، حدیث اس نے پڑھی۔ اور اگر سچ پوچھئے، تو شہر کی مستورات میں جو کہیں کہیں لکھنے پڑھنے کا چرچا ہے، یا عورتیں خدا اور رسول کے نام سے واقف ہیں، یہ سب بی حمیدہ کی بدولت۔
جزاہا اللہٗ عنا خیر الجزا۔
ڈپٹی نذیر احمد