- Advertisement -

نواب سلیم اللہ خان

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

نواب سلیم اللہ خان

نواب سلیم اللہ خاں بڑے ٹھاٹ کے آدمی تھے۔ اپنے شہر میں ان کا شمار بہت بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ مگر وہ اوباش نہیں تھے، نہ عیش پرست، بڑی خاموش اور سنجیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ گنتی کے چند آدمیوں سے ملنا اور بس وہ بھی جو اُن کی پسند کے ہیں۔ دعوتیں عام ہوتی تھیں۔ شراب کے دور بھی چلتے تھے مگر حدِ اعتدال تک۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال کے قائل تھے۔ اُن کی عمر پچپن برس کے لگ بھگ تھی۔ جب وہ چالیس بھر کے تھے تواُن کی بیوی دل کے عارضے کے باعث انتقال کرگئی ان کو بہت صدمہ ہوا۔ مگر مشیتِ ایزدی کو یہی منظور تھا۔ چنانچہ اس صدمے کوبرداشت کرلیا۔ اُن کے اولاد نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے وہ بالکل اکیلے تھے۔ بہت بڑی کوٹھی جس میں وہ رہتے تھے چار نوکر تھے جو اُن کی آسائش کا خیال رکھتے اور مہمانوں کی تواضع کرتے۔ اپنی بیوی کی وفات کے پندرہ برس بعد اچانک اُن کا دل اپنے وطن سے اُچاٹ ہو گیا انھوں نے اپنے چہیتے ملازم معظم علی کو بُلایا اور اُس سے کہا

’’دیکھو کوئی ایسا ایجنٹ تلاش کرو جو ساری جائیداد مناسب داموں پربکوادے۔ ‘‘

معظم علی بہت حیران ہوا۔

’’نواب صاحب! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں۔ حضور کو کس بات کی کمی ہے جو اپنی ساری جائیداد بیچنا چاہتے ہیں۔ آپ کے سر پر کوئی قرض بھی نہیں۔ ‘‘

نواب صاحب نے بڑی سنجیدگی سے کہا

’’معظم علی اس ماحول سے ہمارا جی اُکتا گیا ہے۔ ۔ ایک ایک گھڑی، ایک ایک برس معلوم ہوتی ہے۔ میں یہاں سے کہیں اور جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’کہاں جائیے گا حضور؟‘‘

میرا خیال ہے بمبئی جاؤں گا۔ جب میں ولایت سے واپس آیا تھا تو مجھے یہ شہر پسند آیا تھا۔ اس لیے ارادہ ہے کہ میں وہیں جاکے رہوں۔ تم میری جائیداد فروخت کرنے کا بندوبست کرو۔ ‘‘

جائداد فروخت کرنے میں ایک مہینہ لگ گیا۔ ساڑھے دس لاکھ وصول ہوئے۔ نواب صاحب کے بنک میں دو اڑھائی لاکھ تھے۔ جو ساڑھے دس لاکھ وصول ہوئے وہ انھوں نے اپنے بنک میں جمع کروادیے۔ اور نوکروں کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا اور خود اپنا ضروری سامان لے کربمبئی روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر وہ تاج محل ہوٹل میں رہے۔ لیکن وہ کشادہ جگہ کے عادی تھے۔ اس لیے انھوں نے تھوڑے ہی عرصے کے بعد باندرہ میں ایک مکان خرید لیا اور اس کو مناسب و موزوں طریقے سے سجا کر اُس میں رہنے لگے۔ ایک دو ماہ کے اندر اندر ہی ان کی وہاں کافی واقفیت ہو گئی۔ ریڈیو کلب کے ممبربن گئے۔ جہاں اونچی سوسائٹی کے لوگ ہر شام کو جمع ہوتے وہ برج کھیلتے اور اپنی نئی کار میں واپس آجاتے۔ اُن کو باہر کا کھاناپسند نہیں تھا۔ گھر میں وہ اپنی منشا کے مطابق کھانا پکواتے۔ باورچی اچھا مل گیا تھا اس لیے وہ اپنے دوستوں کو ایک ہفتے میں ضرور کھانے پر مدعو کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے سوچا کہ یہاں بمبئی میں اچھی سے اچھی گورنس مل سکتی ہے۔ عورتیں زیادہ تن دہی اور نفاست سے کام کرتی ہیں۔ ان میں ایک خاص سلیقہ اور قرینہ ہوتا ہے وہ گھر کی دیکھ بھال مردوں سے کہیں اچھی طرح کرتی ہیں۔ چنانچہ اُنھوں نے ٹائمز آف انڈیا کے علاوہ اور کئی اخبارات میں اشتہار دیا کہ انھیں ایک اچھی گورنس کی ضرورت ہے۔ کئی درخواستیں آئیں۔ انھوں نے اُن کا انٹر ویو بھی لیا، مگرکوئی پسند نہ آئی، بڑی چھچھوری اور بھڑکیلی قسم کی تھیں، جو آنکھیں مٹکا مٹکا اورکولھے ہلا ہلا کر باتیں کرتی تھیں۔ نواب صاحب نے ان سب کوبڑی شائستگی سے کہا

’’میں اپنے فیصلے سے آپ کو بہت جلد مطلع کر دُوں گا۔ اس وقت کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

جو آئی تھیں ایک ایک کرکے رخصت کردی گئیں۔ نواب صاحب نے اپنا

’’ہوانا‘‘

سگار سُلگایا اور صوفے پر بیٹھ کر صبح کاپڑھا ہوا اخبار دوبارہ پڑھنے لگے۔ اتنے میں نوکر نے اطلاع دی کہ ایک اور عورت اسی ملازمت کے سلسلے میں آئی ہے۔ نواب صاحب نے اخبار تپائی پر رکھا اور کہا

’’اس کو اندر بھیج دو۔ ‘‘

وہ عورت اندر آئی۔ گواکی رہنے والی تھی اس لیے اس کے خدوخال ٹھیٹ گوائی تھے۔ رنگ سانولا، مضبوط جسم، قد میانہ۔ اندر آتے ہی اُس نے نواب صاحب کو بڑی صاف اردو میں سلام عرض کیا۔ نواب صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اُس کو کرسی پیش کی۔ انگریزی ادب کے متعلق، موسم کے متعلق چند باتیں کیں پھر اُس سے پوچھا۔

’’آپ پہلے بھی کہیں کام کرچکی ہیں؟‘‘

اُس عورت نے جس کی عمر تیس برس کے قریب ہو گی۔ بڑی شائستگی سے جواب دیا:

’’جی ہاں۔ دو تین جگہ بڑے اچھے گھرانوں میں۔ یہ اُن کی اسناد موجود ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اُس نے اپنا پرس کھولا اور چند کاغذات نکال کر نواب صاحب کو دیے

’’آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ ‘‘

نواب صاحب نے یہ کاغذات سرسری نظر سے دیکھ کر واپس کردیے۔ اور اُس عورت سے پوچھا۔

’’آپ کا نام؟‘‘

’’جی میرا نام مسز لوجوائے ہے۔ ‘‘

’’لوجوائے آپ کے۔ ‘‘

’’جی ہاں وہ میرے شوہر تھے۔ ‘‘

نواب صاحب نے سگار کا لمبا کش لیا اور مسز لوجوائے سے کہا۔

’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

مسز لوجوائے نے جواب دیا۔

’’جی وہ فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے، مگر تین برس ہوئے لڑائی میں مارے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ پیشہ اختیار کیا۔ ‘‘

سگار کے دُھوئیں میں سے نواب صاحب نے مسز لوجوائے کا آخری جائزہ لیا اور کہا آپ کب سے کام شروع کرسکتی ہیں۔ ‘‘

’’جی میں تو ابھی سے کرسکتی ہوں۔ مگر مجھے اپنا سامان لانا ہے۔ کل صبح حاضر ہوجاؤں گی۔ ‘‘

’’بہتر۔ فی الحال آپ کو سوروپیہ ماہوار ملے گا۔ اگر آپ کا کام اچھا ہوا تواس میں اضافہ کردیاجائے گا۔ ‘‘

مسز لوجوائے نے مناسب و موزوں الفاظ میں نواب صاحب کا شکریہ ادا کیا اور سلام کرکے چلی گئی۔ نواب صاحب سوچنے لگے کہیں ان کا انتخاب غلط تو نہیں؟۔ لیکن وہ ایک مہینے کے امتحان کے بعد دوسرے مہینے کی تنخواہ دے کر اُسے بڑی آسانی سے برخاست کرسکتے ہیں۔ معلوم نہیں مسز لوجوائے صبح کس وقت آئی، لیکن نواب صاحب بیدار ہوئے تو دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ نواب صاحب نے سوچا کہ شاید ان کا بیرا ہو گا جو بیڈ ٹی لایا ہے۔ اُنھوں نے آواز دی

’’دروازہ کھلا ہے، آجاؤ۔ ‘‘

دروازہ کھلا اور مسزلوجوائے اندر داخل ہوئی۔ صبح کا سلام کیا

’’چائے بیرا لارہاہے۔ میں نے آپ کے غسل کے لیے گرم پانی تیار کردیا ہے۔ آپ چائے پی کر فارغ ہوجائیے اور غسل کرلیں، تو میں آپ کے کپڑے نکال کر تیار رکھوں گی۔ آپ کا وارڈروب کھلا ہے نا؟‘‘

نواب صاحب نے جواب دیا

’’ہاں کھلا ہے۔ ‘‘

مسزلوجوائے نے وارڈروب کھولا۔ نواب صاحب کے سارے کپڑوں کا جائزہ لیا اور ان سے پوچھا

’’میرا خیال ہے آپ گیبر ڈین کا سوٹ پہنیں گے۔ ‘‘

نواب صاحب نے ایک لحظے کے لیے سوچا۔

’’ہاں میرا ارادہ بھی یہی سُوٹ پہننے کا تھا۔ ‘‘

بیرا چائے لے آیا۔ اُسے پی کر وہ اُٹھے اور غسل خانہ میں چلے گئے۔ جس کی سفید ٹائلیں شیشے کے مانند چمک رہی تھیں۔ پہلے وہ کبھی اتنا صاف نہیں ہوا کرتا تھا۔ نواب صاحب بہت خوش ہوئے، اس لیے کہ صفائی میں یقیناً مسزلوجوائے کا ہاتھ تھا۔ غسل سے فارغ ہوکر وہ بیڈ روم میں آئے انھوں نے دیکھا کہ ان کے تمام کپڑے بستر پر پڑے تھے، سلیقے سے، ٹائی بھی وہی تھی جو خاص طور پر گیبر ڈین کے سوٹ کے ساتھ پہنتے تھے۔ جب انھوں نے کپڑے پہن لیے تو مسزلوجوائے آئی اور نواب صاحب سے کہا

’’چلیے تشریف لے چلیے۔ ناشتہ تیار ہے۔ ‘‘

نواب صاحب ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔ ناشتہ خود مسز لوجوائے نے لگایا۔ گردے تھے، پنیر تھا، بہت اچھے سینکے ہوئے ٹوسٹ، بالائی پوچڑ، انڈ ے اور ایک گلاس دودھ۔ مسز لوجوائے تھوڑے ہی عرصے میں نواب صاحب کے گھر پر چھا گئی۔ اُن کے دوستوں کو بھی اُس نے موہ لیا۔ اُس کو معلوم ہوتا کہ کون سی چیز اُن کے کس دوست کو مرغوب ہے۔ مرغ کا کون سا حصہ کس کو پسند ہے۔ کون سی شراب کس کس کو من بھاتی ہے۔ چنانچہ جب بھی دعوت ہوتی وہ کھانا خود میز پر لگاتی اورخود ہی فرداً فرداً سارے مہمانوں کو پیش بھی کرتی۔ اس کے کام کرنے کے انداز میں تمکنت تھی، مگر وہ بڑے ادب سے ہرایک کے ساتھ پیش آتی۔ اُس میں پھرتی تھی مگر گلہریوں ایسی نہیں۔ ہر کام اپنے مقررہ وقت کے اندر اندر ہوجاتا۔ جب نواب صاحب کاکوئی دوست مسزلوجوائے کی تعریف کرتا تو وہ بڑے فخریہ انداز میں کہتے

’’یہ انتخاب میرا ہے۔ سوعورتیں آئی تھیں۔ انٹرویو کے لیے لیکن میں نے سب میں سے اسی کو چنا۔ ‘‘

مسز لوجوائے سے گھر کے نوکر بھی خوش تھے، اس لیے کہ ان کا کام بہت ہلکا ہو گیا تھا۔ البتہ اتوارکو سارا بوجھ ان کے کندھوں پر آ پڑتا تھا کہ مسز لوجوائے اُس دن چھٹی مناتی تھی۔ چرچ جاتی۔ وہاں اپنی سہلیوں سے ملتی۔ اُن کے ساتھ پکچر دیکھنے چلی جاتی۔ اور کسی ایک سہیلی کے ہاں رات کاٹ کر صبح پھر ڈیوٹی پر حاضر ہوجاتی۔ نواب صاحب کو اُس کی اتوارکی غیر موجودگی ضرورمحسوس ہوتی، مگر وہ بااصول آدمی تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی نوکر کو چوبیس گھنٹے کا غلام بنا کے رکھا جائے۔ مسز لوجوائے اگر ہفتے میں ایک چھٹی کرتی تھی تو یہ اُس کا جائز حق تھا۔ دن بہ دن مسزلوجوائے نواب صاحب اور اُن کے تمام دوستوں کے دل میں گھر کرتی گئی۔ سب اُس کے شیدا تھے۔ ایک دن اُن میں سے ایک نے نواب صاحب سے کہا۔

’’میری ایک درخواست ہے۔ ‘‘

’’فرمائیے۔ ‘‘

’’مسز لوجوائے اگر آپ مجھے عنایت فرمادیں تو میں ساری عمر آپ کا شکر گزار رہوں گا۔ ۔ مجھے گورنس کی اشد ضرورت ہے۔ ‘‘

نواب صاحب نے سگار کا کش لگایا اور زور سے نفی میں سر ہلایا

’’نہیں قبلہ یہ نہیں ہوسکتا۔ ایسی گورنس مجھے کہاں سے ملے گی۔ ‘‘

اُن کے دوست نے چاپلوسی کے انداز میں کہا

’’نواب صاحب آپ کی نگاہ انتخاب یقیناً اس سے بھی اچھی ڈھونڈلے گی۔ ہم ایسی نگاہ کہاں سے لائیں؟‘‘

نواب صاحب نے سگار کا دوسرا کش لگایا

’’نہیں جناب۔ مسز لوجوائے کو میں کسی قیمت میں کسی کے حوالے نہیں کرسکتا۔ ‘‘

ایک رات جب مسز لوجوائے صاحب کا شب خوابی کا لباس استری کرکے لائی تو انھوں نے اُس کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ جلدی سونا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس سے کہا

’’مسز لوجوائے میں آج دیر سے سوؤں گا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ سیکنڈ شو میں کوئی پکچر دیکھوں۔ تمہارے خیال میں کون سی اچھی پکچر آج کل شہر میں دکھائی جارہی ہے؟‘‘

مسز لوجوائے نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا

’’میونٹی اون دی بونٹی کی بہت تعریف سُنی ہے۔ میٹرو میں چھ ہفتوں سے برابر رش لے رہی ہے۔ ‘‘

نواب صاحب نے ازراہِ مہربانی اُس کو دعوت دی

’’تم بھی ساتھ چلو گی۔ ‘‘

’’آپ کی بڑی نوازش ہے۔ آپ لے چلیں تو چلی چلوں گی۔ ‘‘

نواب صاحب نے اُٹھ کر قدِ آدم آئینے میں اپنے آپ کا سرتا پا جائزہ لیا اور مسز جوائے سے مخاطب ہوئے:

’’توچلو۔ کھانا آج باہر ہی کھائیں گے۔ ‘‘

مسز لوجوائے نے کہا

’’اگر آپ اجازت دیں تو کپڑے تبدیل کرلوں۔ اس لباس میں آپ کے ساتھ جانا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ مجھے زیادہ سے زیادہ دس منٹ لگیں گے۔ ابھی حاضر ہوئی۔ ‘‘

تھوڑی دیر بعد جب وہ آئی تو بڑی سمارٹ دکھائی دے رہے تھی۔ نواب صاحب نے اُس سے کہا۔

’’چلیے۔ ‘‘

آگے آگے مسز لوجوائے تھیں۔ باہر صدردروازے پر جا کروہ رُک گئی۔ نواب صاحب سمجھ گئے کہ اب وہ خود کو ملازم نہیں سمجھتی۔ چاہتی ہے کہ اُس کے لیے دروازہ کھولا جائے۔ جیسا کہ انگریزی قاعدہ ہے کہ احتراماً وہ خواتین کے لیے آگے بڑھ کر دروازہ کھولتے ہیں۔ نواب صاحب نے دروازہ کھولا۔ مسز لوجوائے باہر نکلیں اُس کے بعد نواب صاحب۔ موٹر باہر کھڑی تھی۔ شوفر بھی موجود تھا لیکن نواب صاحب نے اُسے رخصت کردیا۔ پہلے مسز لوجوائے کو بٹھایا۔ پھر آپ بیٹھے اور کار ڈرائیو کرنا شروع کردی۔ جب موٹر میرین ڈرائیو سے گزر رہی تھی تو نواب صاحب مسز لوجوائے سے مخاطب ہوئے جو خاموش اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی۔

’’کس ہوٹل میں کھانا کھائیں۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے ایروز سینما کے اُوپر جو ہوٹل ہے اچھا رہے گا۔ آپ کو وہاں اپنی پسند کی چیزیں مل جائیں گی۔ ‘‘

نواب صاحب نے کہا

’’بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن ایسا کیوں نہ کریں۔ اوپر کھانا بڑے اطمینان سے کھائیں اور ایروز میں پکچر دیکھیں۔ ‘‘

مسز لوجوائے نے تھوڑی دیر سوچا

’’جی ہاں۔ ایروز میں ایک اچھی پکچر دکھائی جارہی ہے۔ گڈارتھ۔ میری چند سہلیوں نے دیکھی ہے۔ بہت تعریف کررہی تھیں۔ کہتی تھیں پال منی نے اس میں کمال کردیا ہے۔ ‘‘

نواب صاحب اور مسز لوجوائے ایروز پہنچے۔ اُوپر کی منزل پر لفٹ کے ذریعے سے پہنچے۔ ڈانسنگ ہال میں مشہور موسیقار بیتھون کی ایک سمفنی بجائی جارہی تھی۔ نواب صاحب نے مینبو دیکھا اور کھانے کے لیے آرڈر دیا۔ جو کچھ دیر بعد سرد کردیاگیا۔ لیکن اس سے پہلے وہ دو پیگ وسکی کے ختم کرچکے تھے اور مسز لوجوائے نے شیری کا ایک گلاس پیا تھا۔ وہ دونوں ہلکے ہلکے سُرور میں تھے۔ جب ڈنر سے فارغ ہوئے تو ڈانس شروع ہو گیا۔ نواب صاحب کو انگلستان کا وہ زمانہ یاد آگیا جب اُن کا دل جوان تھا اور انھوں نے انگریزی رقص کی باقاعدہ تعلیم لی تھی۔ اُس یاد نے انھیں اُکسایا کہ وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے ذرا ناچ لیں۔ چنانچہ انھوں نے مسز لوجوائے سے کہا

’’کیا آپ میری پارٹنر بن سکتی ہیں۔ ‘‘

مسز لو جوائے نے جواب دیا

’’مجھے کوئی عذر نہیں۔ ‘‘

دونوں دیر تک ناچتے رہے۔ نواب صاحب مسز لوجوائے کے قدموں کی روانی سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ سلسلہ جب ختم ہوا تو پکچر دیکھنے چلے گئے۔ جب شو ختم ہوا تو گھر کا رخ کیا۔ رات کا وقت تھا میرین ڈرائیو کی وسیع و عریض سڑک پر جس کے ایک طرف سمندر ہے۔ اور ساحل کے ساتھ ساتھ بجلی کے قمقمے دوڑتے چلے گئے ہیں خنک ہوا کے جھونکے ان دونوں کے سُرور میں اضافہ کررہے تھے جب گھر پہنچے تو نواب صاحب نے مسز لوجوائے کے لیے دروازہ کھولا۔ اور غیر ارادی طور پر اُس کی کمر میں اپنا بازو حمائل کر کے اندر داخل ہوئے۔ مسز لوجوائے نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ دوسرے روز خلافِ معمول نواب صاحب چھ بجے جاگے۔ ایک دم اُٹھ کر انھوں نے اپنے ساگوانی پلنگ کو اس طرح دیکھنا شروع کیا جیسے اُن کی کوئی چیز گم ہو گئی ہے اور وہ اسے تلاش کررہے ہیں۔ موسم سرد تھا۔ لیکن اُن کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔ اُن کے تکیے کے ساتھ ایک تکیہ تھا جس پر مسز لوجوائے کے سر کا دباؤ موجود تھا۔ نواب صاحب دل ہی دل میں پشیمان ہوئے کہ انھوں نے جن کی لوگ اتنی عزت کرتے ہیں جن کا مقام سوسائٹی میں بہت اُونچا ہے یہ کیا ذلیل حرکت کی۔ اس قسم کے خیال اُن کے دماغ میں اُوپر تلے آرہے تھے اور ندامت کی گہرائیوں میں ڈوبتے چلے جارہے تھے کہ مسز لوجوائے اندر آئی اور اس نے حسبِ معمول بڑے مؤدبانہ انداز میں کہا۔

’’جناب میں نے آپ کے غسل کے لیے گرم پانی تیار کردیا ہے۔ بیرا آپ کی بیڈ ٹی لے کر آرہا ہے۔ آپ پی کر فارغ ہوجائیں تو غسل کے لیے تشریف لے جائیں میں اتنی دیر میں آپ کے کپڑے نکالتی ہوں۔ ‘‘

نواب صاحب نے اطمینان کا سانس لیا اور بیڈ ٹی پئے بغیر غسل خانے میں چلے گئے جہاں اُن کے لیے گرم پانی تیار تھا۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از اے حمید