خون اخلاص کی بو آتی ہے پیمانے سے
رند گھبرا کے نکل آئے ہیں میخانے سے
تیز ہوتا ہے جنوں اور بھی سمجھانے سے
کیا توقع کرے دنیا ترے دیوانے سے
اے ابھرتی ہوئی موجوں سے الجھنے والو
ڈوب مرنا کہیں بہتر ہے پلٹ آنے سے
کیا تری انجمن آرائیاں یاد آئی ہیں
کیوں پلٹ آئے ہیں وحشی ترے ویرانے سے
آرزوؤں کے معمے نہ ہوئے حل باقیؔ
زندگی اور الجھتی گئی سلجھانے سے
باقی صدیقی