کہاں بچ کے جائیں ٹھکانہ کہاں ہے
سنا ہے زمیں سے بڑا آسماں ہے
بتا کون اب غیر کا مہماں ہے
یہ تیری قسم ہے یہ تیری زباں ہے
نشیمن یہ بلبل کا برق تپاں ہے
کہاں گر رہی ہے ارے بے زباں ہے
نہ کرتا رہا چاہے صیّاد لیکن
تسلی تو تھی باغ میں آشیاں ہے
خوشامد بہر حال کرنی پڑے گی
مخالف تو ہے دل مگر راز داں ہے
شبِ وصل رودادِ فرقت نہ پوچھو
کہاں تک سنو گے بڑی داستاں ہے
قمر آس کیوں توڑتے ہو ابھی سے
فلک پر سحر کا ستارہ کہاں ہے
قمر جلال آبادی