استعارے کی کیا ضرورت ہے
اور اشارے کی کیا ضرورت ہے
بند آنکھوں سے کر قبول مجھے
استخارے کی کیا ضرورت ہے
تیرے قدموں میں آن بیٹھی ہوں
اب اشارے کی کیا ضرورت ہے
میرے دامن میں تم سمائے ہو
چاند تارے کی کیا ضرورت ہے
دل کا دل پر ہے اندراج تو پھر
گوشوارے کی کیا ضرورت ہے
منزّہ سیّد