بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
کہتے ہیں انسان بڑا خودغرض ھوتا ھے۔اپنی مرضی و انا میں رہنے والا ہر حال میں اپنا سوچنے والا پر کبھی ھم نے یہ سوچا ہی نہی کہ آخر انسان ایسا کیوں ھوتا ھے؟
ابلیس نے تکبر میں آکر سجدے سے انکار کیا پر آج کا انسان تکبر میں رہ کر سجدہ کرتا ھے۔فرق کیا ھے بس اتنا ابلیس نے انکار کیا انسان نے کر کے دغا کیا۔ خدا سے مانگتے رہتے ہیں اپنی خواہشات کے مطابق کبھی خدا سے اسکی رضا مانگی ہی نہی اور وہ عطا پر عطا کرتا ھے۔کیونکہ یہ اسکی محبت ھے بے لوث ۔انساں وہ ھوتا نہی جو بظاہر نظر آتا ھے
۔میں نے اک درویش سے پوچھا انسان ھے کیا ؟
اس نے کہا اک پنجرے میں بند پرندۀ جو اڑنا تو جانتا ھے پر قید ھے ۔اور اسے جب مفت کا کھانے کو ملتا پھر وہ اس قید کو پسند کرنے لگتا۔پھر اسے اڑنے کی خواہش نہی رہتی ۔چاہ کر بھی نہی ۔
۔پھر میں نے سوچا
واقعی ہم تو آزاد ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔پر ہم بھی تو انا کے پنجرے میں قید ہیں اور یہ قید ہمیں بہت پیاری ھے انا ۔و۔ تکبر میں کسی کے ساتھ زمین پر کھانا کھانا ہماری شان کے خلاف ھے ۔پر زمین میں اچھی جگہ دفن ھونے کی حسرت بھی رکھتے ہیں۔اعمال ہم کرتے وہ ہیں ہی نہی جؤ اچھی جگہ کے قابل ھوں ۔
((ہم جیسے آرزؤ التجا کرتے ہیں۔
گنہگار ہیں پر
مدینے میں مرنے کی دعا کرتے ہیں۔
نماز کا ہمیں پتہ نہی
پھر جنت کی فریاد کرتے ہیں۔))
انسان خود غرض اپنی ذات سے ھے ۔اپنا ہی دشمن جو اپنے ہاتھوں سے خود کو برباد کر رہا ہے کچھ پیسوں ۔خواہشوں۔امیدوں۔خوابوں کی خاطر اگر دیکھا جاۓ تو ھوتا تو رب الہٰی ھے ۔پھر ھم اسکو راضی کیوں نہی کرتے اس کے آگے کیوں نہی جھکتے اگر جھکتے بھی ہیں تو صرف مشکل میں کیوں؟ خوشی میں کیوں ؟نہی دل سے کیوں نہی ؟
أخری لمحے میں کلمہ کیسے نصیب ھو گا جب ساری عمر کلمہ یاد نہی رہتا ۔ہم خودغرض ہی تو ہیں ۔خطاکار و گنہگار پھر بھی اسکی نعمتوں سے فیضیاب ھوتے ہیں۔اسکی عنیائیتوں پر عیش کرتے ہیں۔
ھم خودغرض ہی تو ہیں جو اپنے رب کو ہی نہی سمجھ پاتے صرف یار دن کے دنیا کی خاطر خود کو خودی میں برباد کرتے ھوے
۔
(((وقت کا کیا ھے یہ تو گزر ہی جاتا ہے۔
بادشاہ ھو یاں فقیر صنم
اپنے وقت پر مر ھی جاتا ھے۔
انا و تکبر کا کھیل فنا ھے۔
ھر چڑھتا سورج روز ڈھل ہی جاتا ھے۔۔)))
اللہ ہم سے سب سے بس راضی ھو جاۓ ۔اور ہمیں خود غرض نہی عاجز بننے کی توفیق دے آمین۔
رقیب تحریر
صنم فاروق