- Advertisement -

گریز قصے کا گمشدہ داخلی سرا ہے

ذوالقرنین حسنی کی اردو غزل

گریز قصے کا گمشدہ داخلی سرا ہے
میں چل پڑا ہوں یہ کہکشانوں کا سلسلہ ہے

تمہاری آنکھیں بھلے رہیں مجھ سے لاتعلق
مگر یہ گردن کا تل تو سنتا ہے دیکھتا ہے

ہمیں بتایا گیا ہے حور و قصور کا بھی
بتایا یہ بھی گیا ہے لالچ بری بلا ہے

وہ جس جگہ جیسے اور جس سے بھی دل لگائے
اسے وہ بہروپ راس آئے مری دعا ہے

بہت دنوں سے میں خود سے ہنس کر نہیں ملا ہوں
عجیب لوگو سے دوستی بھی کڑی سزا ہے

جو پھول چننے کے مرحلے سے گزر رہی ہو
ہماری آنکھوں میں کیا ہے اس کو بڑا پتہ ہے

ابھی ہمارے بدن پہ کچے نشاں ہیں حسنی
ابھی ہمارا نیا تعلق ……….. نیا نیا ہے

ذوالقرنین حسنی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ذوالقرنین حسنی کی اردو غزل