دنیا کی حسرتوں کو یہاں چھوڑ چھاڑ کر
میں چل بسا حیات کو اوروں پہ وار کر
وہ شخص بھی وہاں پہ بہت ہوگا سوگوار
جو جا چکا ہے رونقِ ہستی اجاڑ کر
بلبل کا حال دیکھ کے کرتے رہے فغاں
اک دن چمن کے پھول قبا کو اتار کر
لگتا ہے جا چکی ہے کہیں اس کو ڈھونڈنے
وہ رت! چلی تھی جو گلِ گلشن سنوار کر
اک دن ضرور آئے گا ایسا کہ سوئیں گے
ہم خواہشوں کے بارِ گراں کو اتار کر
مردوں کے پیچھے روتے ہوئے آدمی تو سن
گر ہو سکے یہاں پہ تو زندوں سے پیار کر
معلوم تھا شکست میں پنہاں ہے میری جیت
اس واسطے میں مطمئن کھڑا ہوں ہار کر
ویسے تو سب ہی ٹھیک ہیں پر دل کے ساتھ میں
کچھ زرد پڑ گیا ہوں شَبِ غم گزار کر
ابصار اعتبار مرا خود پہ کچھ نہیں
یہ شخص کہہ رہا ہے مرا اعتبار کر
احمد ابصار