کعبۂ دل میں محبت کے صنم جیسا ہے
وہ بھلا شخص حقیقت میں بھی ہم جیسا ہے
اس کی گفتار مسرّت کا سبب ہے اپنی
اس کا ہر قول ہمیں ترکِ الم جیسا ہے
خوشبوئیں رقص کناں ہوں وہ جہاں سے گزرے
وہ کوئی برگِ گلِ لالہ کے دم جیسا ہے
ذات میں پیر جما رکھے ہیں خاموشی نے
اور وہ شخص کہ للکارِ عدم جیسا ہے
لمحہ در لمحہ تخیل سے کمایا جس کو
تنکا تنکا وہ اسی جوڑی رقم جیسا ہے
خوبصورت ہے تصوّر میں بھی لانا اس کو
اور چھونا بھی اسے سیرِ ارم جیسا ہے
شعر لکھتے ہوۓ الفاظ مہک اٹھے ہیں
دل کے قرطاس پہ وہ شخص قلم جیسا ہے
شہزین فراز