دل کے کونے میں کہیں اب بھی فغاں باقی ہے
اول اول کی محبت کا زیاں باقی ہے
ان سے کہہ دو کہ ذرا ہجر طویل اور کریں
میری آنکھوں میں ابھی سیلِ رواں باقی ہے
وقت کا کام گزرنا ہے، گزر جائے گا
وقت کی دَوڑ میں اب وقت کہاں باقی ہے
وہ جب آئے تو بہاروں نے کیا رقصِ جنوں
میں سمجھتا تھا ابھی فصلِ خزاں باقی ہے
عالمِ غیب میں اِک دن جو ملاقات ہوئی
وہ ہوئے مجھ سے یوں گویا کہ: میاں!! باقی ہے؟؟
جو بھی کرنا ہے وہ کرنا ہے اسی وقت، حسنؔ!
کون کہتا ہے کہ اِک عمرِ رواں باقی ہے
حسن ابن ساقی