- Advertisement -

دیودار کے درخت

قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ

دیودار کے درخت

نیلے پتھروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی جنگلی نہر کے خاموش پانی پر تیرتے ہوئے۔ دیو داروں کے سائے بیتے دنوں کی یاد کے دھندلکے میں کھوکے مٹتے جارہے ہیں۔ بھیگی بھیگی سرد ہوائیں چیڑھ کے نوکیلے پتوں میں سرسراتی ہوئی نکل جاتی ہیں اور دیوداروںکے جھنڈ کے پرے اس اونچی سی پہاڑی پر بنی ہوئی سرخ عمارت کی کھڑکیوں کے شیشوں پر چاند کی کرنیں پڑی جھلملاتی رہتی ہیں۔ لیکن کبھی بھول کر بھی۔ "We met in the Valley of Moon” والا محبوب گیت گانے کو دل نہیں چاہتا۔ ناشپاتی اور خوبانی کی جھکی ہوئی شاخوں کے نیچے سہ پہر کی چائے اب بھی ہوتی ہے مگر امی کی نظر بچا کے کچّی خوبانیاں نہیں توڑی جائیں۔ نیچے وادی میں رات کے نو بجے والی ٹرین روز اسی طرح بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے لیکن اس کی آواز سنتے ہی بے تحاشا بھاگتے ہوئے جاکر مسافروں کو شب بخیر کہنے یا روشنیاں گننے کی اب قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ___ یہ سب باتیں فضول اور پرانی ہوچکیں۔

ہمسائی میڈم لورنیزو کی ولا میں سے کبھی کبھی گتار پر ___ Moon light in Havana کی بھولی بسری آواز آجاتی ہے تو دل جیسے چپکے سے ڈوب جانے کو تیار ہوجاتا ہے اور زرّیں پیانو بجاتے بجاتے تھک کر جمائیاں لینی شروع کردیتی ہے ___ خوشی اور قہقہوں کے دن واقعی ختم ہوگئے۔ خالدہ، رباب، زرّیں___ پتہ نہیں سب کو کیا ہوگیا ہے ___ دیوداروں کے درخت___ میڈم لورینزو کی سرخ ناک___ ان کی شاطو کے احاطے میں کھڑی ہوئی بغیرپہیوں کی فورڈ۔ باورچی خانے کے پیچھے سفید اور اودے پتھروں پر سے بہتا ہوا پہاڑی نالہ___ یہ سب چیزیں اب بھی ویسی ہی موجود ہیں لیکن نہ جانے کیسا سا لگتا ہے، جیسے ساری کائنات پر ایک تھکی ہوئی اُداسی‘ ایک بیمار سا جمود طاری ہے۔ اس رات ___ باورچی خانے کی سرخ ٹین کی چھت پر بہت دیر تک بارش کے قطرے ٹپ ٹپ گرتے رہے۔ جی چاہ رہا تھا کہ باتیں کریں مگر چپ چاپ‘ بظاہر نہایت انہماک سے ایک کونے میں صوفے پراکڑوں بیٹھی ڈی ایف کراکا کی Just Flesh پڑھتی رہی۔ رباب اس قدر تن دہی سے دوسرے کونے میں رکھے ہوئے بجلی کے چولہے پر اخروٹ کی ٹافی بنانے میں مصروف تھی گویا اس وقت اس سے زیادہ اہم کام دنیا میں اور کوئی نہ تھا۔

زرّیں صبح میڈم لورینزو کے یہاں سے ایک نئی ٹیون سیکھ کرآئی تھی اور بار بار اسی کو بجائے جارہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر آج برف پڑتی تو کتنا مزہ آتا! ہم چاروں ایک دوسرے سے بے زار اور روٹھے بیٹھے تھے۔ اتنے میں آڑو اور چنار کی ٹہنیوں سے الجھتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اس زور سے کمرے میں داخل ہوا کہ سارے دریچے پٹ سے کھل گئے اور ہمارے جسموں میں سردی کی ایک کپکپاتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔ ’’ ذرا اٹھ کر سامنے والا دروازہ تو بند کر لو جان۔‘‘ خالدہ نے کتاب پر سے نظر اٹھائے بغیر مجھ سے کہا۔ ہم سب اپنے خیالوں میں اتنے کھوئے ہوئے تھے کہ ہوا کی بدتمیزی پر واقعی غصہ آگیا۔ میں نے رباب کی طرف رخ کر کے بڑے پیار سے کہا : ’’ گڈو! تم تو دروازے کے اتنے قریب کھڑی ہو، ہاتھ بڑھا کر ذرا بند کردو___ میں یہاں سے اٹھ کے سارا کمرہ عبورکروں، کس قدر طوالت ہوگی۔ رباب نے بڑی بے نیازی سے مڑ کر دروازہ بند کیا اور بادام توڑنے میں مشغول ہوگئی۔ خالدہ نے کتاب کے ڈسٹ کور کو اتار کر پھر سے چڑھانا شروع کردیا۔

زرّیں موسیقی کی کتاب کے ورق الٹ پلٹ کر نہ جانے کون سا گیت ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ بارش کی بوچھار سے دریچوں کے شیشوں پر پانی گر کر نیچے پھسل رہا تھا۔ شیشوں کی جھلملاتی ہوئی سطح پانی کی آڑی سیدھی لکیروں سے دھندلی ہوتی جارہی تھی اور اس دھندلکے میں باہر کا منظر عجیب پھیلا پھیلا اور غمگین سا دکھائی دے رہا تھا۔ تپائی پر جھپتال کی گت بجاتے بجاتے خواہ مخواہ میرا دل چاہا کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر ان شیشیوں کو چھولوں۔ ٹھنڈے ٹھنڈے کیسے اچھے لگیں گے۔ بالکل آئس کریم جیسے ___برف کی طرح سفید اورنیلے یونیفارم اور اودے کہرے میں سے جھانکتے ہوئے ستارے اسٹارز اینڈ اسٹرائیپس___ اخروٹ کی ٹافی___ دھن دھن دھاگے ترکٹ تو ناکٹ دھن ترکٹ دھنا___ اودے شنکر اور رام گوپال دھی نا دھی، دھی نا___ ریڈ کراس ویک منا نے کے لیے رنک میں جو منی پوری ناچ ہوا تھا کتنا اچھا تھا۔ زریں نے پیانو کے پردوں پر زور سے انگلیاں پٹک کر ایک بڑی رومینٹک سی جمائی لی۔ ٹپ ٹپ ٹپ۔ بوندوں کی ناگوار آواز اب مدھم پڑتی جارہی تھی۔ ’’ باتیں کرو گی؟‘‘ رباب نے اطمینان سے انگلیوں پر لگا ہوا قوام چاٹ کر پوچھا خالدہ نے کتاب بند کر کے قالین پر پھینک دی۔ ’’ رِنک چلتی ہو بچیّو! ‘‘ میں نے سوچا کہ ایسے پیارے موسم میں اگر جاوید کے ساتھ اسکیٹنگ یا آئس ہاکی کھیلی جائے تو بس جنت کا مزا آجائے۔ ’’ میں بھلا کیسے چلوں گی۔‘‘ خالدہ نے بڑے اسٹائل سے شال اپنے گرد لپیٹی اور سر پیچھے ڈال کر دھندلے شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔ بے چاری کو ایک ہفتے سے ہلکا سا فلو ہوگیا تھا۔ ’’ ہاں بھلا کیسے چل سکتے ہیں۔ گڑیا خالدہ کیسے جائے گی۔‘‘ زریں نے بے انتہا ہمدردی کے ساتھ کہا۔ ’’ باتیں کریں‘‘ ۔ رباب بولی۔ سب کا موڈ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا جارہا تھا۔ ’’ قہوہ پیوگی پیاری۔‘‘ رباب لیڈی ارون کالج میں رہ کر بہترین قسم کی House wife بنتی جارہی تھی۔ جذبی کی ایک نظم گنگنا کر وہ ٹافی کو ٹھنڈا کرنے لگی۔ ’’ میڈم کے بڑے لڑکے کو دیکھا جوکل ہی یہاں آیا ہے۔ کس قدر بے تکی سنہری سنہری مونچھیں ہیں اس کی۔ ‘‘ زریں نے کہا۔ خالدہ بہت ہی بیمار انداز سے وکس سونگھتے سونگھتے آنکھیں بند کر چکی تھی۔ مونچھوں کا ذکر ہوتے ہی مجھے خالد کا خیال آگیا ۔ بے انتہا اسٹائلش۔ رانلڈ کالمین ٹائپ مونچھوں کا مالک۔ توبہ۔ کیا واہیات بات ہے۔ ’’ ریڈکراس دیک ختم ہونے والا ہے۔ ہم نے لیڈی مودی سے وعدہ کیا تھا کہ اتوار کے دن سے قبل کمبل تیار کردیں گے۔‘‘ میں نے گفتگو کا رخ جلدی سے دوسری طرف پھیر دیا۔ ’’ اگر بارش یوںہی ہوتی رہی تو کل جاوید بھی نہ آسکے گا۔‘‘ زریں بولی۔ ’’ یہ جاوید کا اس وقت کیا ذکر تھا؟‘‘ خالدہ نے فوراً آنکھیں کھول کر پوچھا۔ ’’ رباب ہی نے تجویز کی تھی کہ باتیں کی جائیں۔‘‘ زریں بگڑ کر پیانوں پر جھک گئی۔ ’’ ان کمبلوں کے ساتھ کی عنابی اون ہی نہیں مل رہی ہے۔‘‘ میں نے صلح کرنی چاہی۔ ’’ یہ جاوید کو کل خاص طور سے کیوں مدعو کیا گیا ہے۔ ‘‘ خالدہ نے عنابی اون نہ ملنے کی مطلق پروانہ کرتے ہوئے پھر پوچھا۔ ہم چاروںمیں وہ سب سے بڑی تھی۔ اور امّی کی عدم موجودگی میں ہمیں chaperon کرنے کا کام اس کے سپرد تھا۔ ’’ کل ہیک مین میں وکٹری بال ہے۔ہم اس کے ساتھ جائیں گے۔ تم مت جاناڈیر۔ زکام بڑھ جائے گا۔‘‘ زریں نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا۔ ’’ تمہیں معلوم ہے زریں تاج بیگم امّی اس چیز کو ہر گز پسند نہیںکریںگی۔ کیا میڈم کے ساتھ وکٹری بال میں نہیں جاسکتیں۔‘‘ خالدہ وکس کی شیشی میز پر پٹخ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’ میری پیاری سینوریتا ، غالباً آپ کو معلوم ہوگا کہ میں آپ سے صرف گیارہ مہینے چھوٹی ہوں۔ اور آپ مجھے ڈانٹنے کے کسی قانونی حق کی مالک نہیں۔ اور یہ کہ جاوید کی نیلی آنکھیں یا اس کے ساتھ آئس ہاکی کے میچ مجھ پر قطعی کوئی خطرناک اثر نہیں کرسکتے۔ اور یہ بھی کہ جاوید نے جو تصویر بھیجی تھی وہ صرف آپ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہم چاروںکے لیے تھی۔ اور اسے آپ اپنی خواب گاہ میں سجا کر بہت سخت قانونی غلطی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اور یہ کہ ___ ‘‘ زریں کا جملہ ابھی پورا نہ ہوا تھا کہ خالدہ تیزی سے شال لپیٹتی اپنے کمرے کی طرف جا چکی تھی۔ اس رات سے دو ہفتے قبل ہمارا کراؤن پرنس کھو گیا تھا۔ ہم چاروںاسے تلاش کرتے ہوئے نالے کو پھلانگ کر نیلے پتھروں والی پہاڑی پر چڑھ گئے۔ پہاڑی پر بنی ہوئی سرخ گول عمارت کے پیچھے جو گھاس کا ڈھلوان قطعہ ہے اس کے آخری سرے پر کراؤن پرنس کی ہلتی ہوئی دم کا سیاہ دھبّہ نظر آگیا اور ہم سیٹیاں بجاتے اس کی طرف دوڑے___ اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس سرکاری لیباریٹری کے احاطے میں، جہاں جنگ کے سلسلے میں ریسرچ اورجانے کیا کیا ہوتا ہے، بغیر اجازت داخل ہونے کی سخت ممانعت ہے۔ بھاگتے میں خالدہ کے ہاتھ سے Dog’s Biscuits کا ڈبہ کہیں گر گیا اور وہ تھک کرایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ ہم کراؤن پرنس کو بلاتے بلاتے پریشان ہوگئے لیکن نہ جانے وہ کہاں غائب ہوچکا تھا۔ زریں نے زور سے سیٹی بجائی۔ معلوم ہوا کہ جواب میںلان کے دوسرے حصے سے سیٹی بجا کر کتّے کو کوئی اپنی طرف بلا رہا ہے۔ بارش ہو کر ابھی رکی تھی اور ہلکی سی گیلی گیلی دھوپ میں دیوداروں کے سفید تنے اور نیلے پتھر تیزی سے چمک رہے تھے۔ زریں ، رباب اور میں بھیگی ہوئی ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس اور نیلوفر کے پودوں کو روندتے ہوئے نیچے کی طرف بھاگے۔ اتنے میں دور ڈھلوان کے دوسرے سرے پر سے دو سفید سے دھبّے ہماری جانب بڑھتے نظر آئے۔ قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ دو بہت خوب صورت آدمی ہیں جنہوں نے سفید ایپرن باندھ رکھے تھے۔ ان میں سے ایک کی آنکھیں نیلی سی تھیں۔ ہمارے پاس آکر وہ رُک گئے۔ ابھی وہ دونوں کچھ کہنے ہی والے تھے کہ مجھے ایک دم کچھ یاد آگیا اور میں نے سیاہ اسکارف میں بالوں کو لپیٹتے ہوئے پوچھا: "Are we tress passing ?” ’’ اجی بالکل نہیں___ آپ کے کتّے کو بلادوں۔‘‘ نیلی آنکھوں والے نے نہایت بے تکلفی سے کہا۔ پھر اس نے زور سے سیٹی بجائی اورکراؤن پرنس نہ جانے کدھر سے بھاگتا ہوا آگیا۔ ’’ ___ ہا میری جان کا ٹکڑا ‘‘ رباب نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ بے چارا رات بھر بارش میں بھیگنے کی وجہ سے بیمار ہوگیا تھا۔ ابھی میں نیلی آنکھوں والے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے خوب صورت سے الفاظ سوچ رہی تھی کہ پیچھے سے خالدہ کی آواز آئی : ’’ بچیو! اب واپس چلو۔ مالی کو بھیج کر ڈھونڈوالیں گے‘‘ اور خالدہ جب ہمارے پاس پہنچی تو یہ دیکھ کر یقینا جل بھن کر رہ گئی کہ کس قدر رومینٹک جگہ پر ‘ دیوداروں کے سائے میں جھکے جھکے بادلوں کے نیچے، دو بہت ہی زیادہ ڈیشنگ قسم کے لڑکے ہم سے اپنا تعارف کرا رہے ہیں۔

جاوید نیلی آنکھوں والا اور اجیت گھوش دوسرا۔ دونوں آئی۔ ایم۔ ایس میں تھے اور چند ہی روز ہوئے ان کا تبادلہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہوا تھا جہاں وہ ملیریا اور مچھروں وچھروں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ ’’ کسی روز ہمارے یہاں تشریف لائیے۔ ہم نہر کے اس پار سرخ چھت والی شاطو میں رہتے ہیں۔‘‘ خالدہ نے امّی کی قائم مقام کی حیثیت سے اُسے مدعو کیا اور جب ہم گھر واپس آرہے تھے تو زریں نے چپکے سے کان میں کہا: Perfect heat throbs. اور خالدہ کو ٹھنڈ میں نکلنے کی وجہ سے زور سے چھینک آگئی۔ بارش پھر شروع ہوچکی تھی۔ اگلا دن ڈرائنگ روم کے دروازے بند کر کے آتش دان کے پاس کراؤن پرنس کا علاج کرانے میں گزرا۔ شام کو جاویدکراؤن پرنس کی مزاج پرسی کے لیے آیا اور ہم سب بہت دیر تک اس سے باتیں کرتے رہے۔ بے چارا صبح سے شام تک لیباریٹری میں گھسا ریسرچ کیا کرتا تھا۔ چلتے وقت اس نے خالدہ سے کہا کہ وہ اس کے زکام کے لیے ایک بہت عمدہ دوا بھجوا دے گا۔ پھر ایک دن اس نے ہم کو لیباریٹری کی سیر کروائی اور ایک ایک چیز کی ماہیت، اثرات اور نہ معلوم کیا کیا الّم غلّم سب تفصیل سے سمجھاتا رہا۔ ہمیں بھلا اس میں کیا دل چسپی اور گھر پہنچ کرمیں نے زریں کو ڈانٹا کہ جب وہ بلوری آلات پر جھکا ہوا مچھروں کی اقسام سمجھا رہا تھا تووہ خورد بین پر نظر جمانے کے بجائے اس کی نیلی آنکھوں کو مستقل کیوں دیکھتی رہی۔ تصویر کشی کے لیے دیوداروں کا جنگل اور اس کے نیچے پہاڑی بہترین پس منظر تھا۔ میں اکثر صبح صبح کراؤن پرنس کے ساتھ تصویریں بنانے کا سامان لے کر ان درختوں کے جھنڈ کی طرف چلی جایا کرتی تھی۔ ایک دن ان ہی پیڑوں کے نیچے میں لیڈی مودی کے لیے ایک تصویر تیار کر رہی تھی کہ پیچھے سے ہلکی سی سیٹی کی آواز آئی: ’’ ہلو! آرٹسٹ صاحبہ‘‘ جاوید بہت لااُبالانہ انداز سے پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پیچھے سے کاغذ پر جھکا ہوا تصویرکو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ ’’ اوہ۔ ہلو کیپٹن ۔‘‘ ہم کبھی کبھی دوستی کی موڈ میں اس کا نام لینے کے بجائے اسے ڈاکٹر، کیپٹن یا کامریڈ کہا کرتے ہیں۔ ’’ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ’’ کس قدر بے وقوف ہو، ظاہر ہے کہ تصویر بنا رہی ہوں۔‘‘ ’’ اچھا شرط لگا لو کہ اس وقت تم تصویر بنانے کے علاوہ دل میں مجھے بھی یاد کر رہی تھیں۔‘‘ وہ نہایت اطمینان سے قریب کے پتھر پر بیٹھ گیا۔ ’’ واللہ ! کیا کیا مغالطے ہیں! مولانا مجھے آپ کو یاد کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔‘‘ ’’ سچ کہہ رہی ہو!‘‘ اس نے مجھے غور سے دیکھ کر کہا اور پھر زور سے ہنس پڑا۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے کاغذوں کو منتشر کردیا اور میں جلدی سے انہیں چننے لگی۔ ’’ دنیا روز بروز زیادہ خوب صورت اور خوش گوار ہوتی جارہی ہے۔ ‘‘ تھوڑی دیر بعداس نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے ذرا سنجیدگی سے کہا۔ اس روز ہم بہت دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔ مجھے تصویر مکمل کرنی تھی۔ وہ پاس بیٹھا رنگوں کی آمیزش کے متعلق مشورے دیتا رہا۔ اسی طرح روز دیودار کے درختوں کے نیچے تصویریں بنائی جاتیں، باتیں ہوتیں، شام کے پروگرام بنتے، ملیریا اور مچھروں کا ذکر ہوتا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ واقعی دنیا بہت پیاری اور خوب صورت بن گئی ہے۔ ایک دفعہ اس نے بچوںکی سی سادگی سے کہا : ’’ بے بی، اگر ان ہی درختوں کے سائے میں ساری عمر گزر جائے تو کیسا اچھا ہو۔‘‘ اور میں اس کی خواہش پر زور سے ہنس پڑی تھی۔‘‘ دیوداروں کے نیچے وہ آخری دن تھا۔ خالدہ کے زکام نے بران کائٹس کی شکل اختیار کر لی تھی اور اس وجہ سے میں اب بہت کم وہاں آتی تھی۔ خالدہ میری بہترین دوست ہونے کے باوجود اب کچھ کھنچی کھنچی سی رہتی تھی___ اور اس کا مجھے بے حد افسوس تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اسے کس طرح خوش کروں۔ جاوید اپنے مخصوص پتھر پر بیٹھا دور نیچے پہاڑی نالے کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ نہ معلوم کیوں کچھ عرصے سے وہ بہت خاموش رہنے لگا تھا۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے بے چارے لڑکے کی صحت پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ میں نے فکر مندی سے سوچا۔ میں اس وقت چپ چاپ رنگوں کے برش صاف کر رہی تھی۔ ’’ خالدہ اب کیسی ہیں؟‘‘ اس نے یکلخت پوچھا۔ ’’ آج تو اسے بخار نہیں آیا۔ شکر ہے ‘‘ میں نے جواب دیا ، ’’ اسے دیکھنے کے لیے آتے نہیں ہو۔‘‘ ’’ میں نے کل اجیت کو بھیجا تھا۔‘‘ وہ کچھ پریشان سا ہوگیا۔ بھاری بھاری بادل چوٹیوں پر سے گزرتے ہوئے ہماری سمت آرہے تھے۔ میں نے کاغذ سمیٹنے شروع کردیئے۔ ’’ اب اٹھنا چاہئے۔ بارش آرہی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ ہاں اٹھو۔‘‘ اس کی آواز میں اجنبیت سی آگئی تھی۔ ’’ شام کو آنا۔ خالدہ بے چاری روز انتظار کرتی ہے۔ اچھا، چیریو!‘‘ ’’ چیریو___ ‘‘ وہ اٹھا اور پگڈنڈی پر مڑ کر جھنڈ کی دوسری جانب نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اس کے بعد ___ خالدہ دن میں کئی بار اسے فون کرتی اور وہ چپراسی کے ہاتھ خالدہ کے لیے نئی نئی کتابیںبھجواتا رہتا۔ شام کو اس نے خالدہ کی مزاج پرسی کے لیے آنا شروع کردیا۔ اور اس وقت وہ یہی چاہتی تھی کہ میں، زریں اور رباب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہا کریں۔ وہ تمام دن اپنی خواب گاہ کے دریچے میں شال میں لپٹی لپٹائی گڑیا کی طرح بیٹھی جاوید کی بھیجی ہوئی کتابیں پڑھا کرتی تھی۔ اس شام ___ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے مجھے بہت دیر ہوگئی۔ آس پاس کی پہاڑیوں اور گھاٹیوں پر پھیلا ہوا کہرہ رات کی سیاہی میں گھل مل کر زیادہ بھاری ہوتا جارہا تھا۔ دور اونچی اونچی برفانی چوٹیوں پر بادل جمع ہو رہے تھے۔

تھوڑی دیر میں چاروں طرف پھیلے ہوئے مکانات اور عمارتوں میں ایک ایک کر کے روشنی ہوگئی اور جنگل کے پرے کا سارا منظر جگمگااٹھا۔ دور افق کے نزدیک رنک کی سبز روشنی کہرے میں جھلملا رہی تھی۔ سردی محسوس ہورہی تھی لیکن اندر جانے کے بجائے غیر ارادی طور پر میرے قدم خالدہ کے کمرے کی طرف جانے والی روش پراٹھ گئے۔ میں باورچی خانے کی انگوروں کی بیل سے ڈھکی ہوئی گیلری کی جانب بڑھ رہی تھی کہ دریچے کے زرد شیشوں میں سے دو سلہٹ دکھائی دیے۔ خالدہ کہہ رہی تھی: ’’ امی کو تو آجانے دو۔ آٹھ دس روز میں آجائیں گی۔‘‘ ’’ اسی طرح کب تک ٹالتی رہو گی گڑیا___ اگلے ماہ تک شاید میرے تبادلے کا حکم آجائے گا۔‘‘ اُف یہ ان گدھوں کی فطرت ___ میں جلدی سے گیلری میں داخل ہوگئی۔ اس وقت مجھے خالدہ پر رحم آرہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ خوب خوب روؤں اور نہ معلوم کیا کر ڈالوں۔ دوسرے دن صبح میں وہیں سیڑھیوں پر بیٹھی ریڈ کراس ویک کی نمائش کے لیے جنرل منٹگمری کی نامکمل تصویر کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ آگیا: ’’ ہلو بے بی! کئی دن سے تمہیں نہیں دیکھا۔‘‘ وہ پرانا دوستی کا انداز اور آواز میں شگفتگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ نچلی سیڑھی پر بیٹھ گیا اور پھر بولا: ’’ کل مجھے بے چاری خالدہ کے پاس بہت دیر تک بیٹھنا پڑ گیا۔ تم تینوں اس کا دل بہلانے کی ذرا کوشش نہیں کرتیں۔ اس کی اعصابی کمزوری کو سائیکلوجیکل علاج کی ضرورت ہے۔‘‘ ’’ ہاں یہ تو ہے نہ ‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ اس نے سگریٹ جلا لیا اور کاغذوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اس کی نیلی آنکھیں مجھے زہر لگ رہی تھیں۔ ’’ میں مخل تو نہیں ہورہا ہوں۔‘‘ ’’ بالکل نہیں۔‘‘ ’’ کیا بات ہے۔ مجھ سے ناراض ہو بے بی؟‘‘ جیسے کن پٹیوں میں آگ سی لگ گئی۔ ساری دنیا کو ایک زور دار ٹھوکر لگا کر میں کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔ چند لمحوں تک اپنی نیلی آنکھوں کی مقناطیسی کشش کی پوری طاقت کے ساتھ وہ مجھے دیکھتا رہا۔ میں برش زمین پر ڈال کر اندر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سگریٹ کی راکھ جھٹک کر وہ بھی کھڑا ہوگیا۔ ’’ اچھا خدا حافظ۔ خالدہ سے کہہ دینا کہ سہ پہر تک اگر میں خود نہ آسکا تو اجیت کے ہاتھ انجکشن کا سامان بھجواد دوں گا۔‘‘ میں تصویر کو غور سے دیکھتی رہی۔ وہ پھاٹک سے باہر جا چکا تھا۔ اس روز کے بعد سے وہ خود پھر کبھی نہ آیا۔ دن گزرتے گئے۔ زریں سارا دن میڈیم لورنیزو کے ہاں رقص سیکھنے میں مشغول رہتی تھی ___ رباب کاکالج کھل گیا تھا اور وہ بھی جاچکی تھی۔ خالدہ روز بروز بیمار ہوتی چلی جارہی تھی۔ موسلا دھار بارشوںکا موسم شروع ہوچکا تھا۔ میں صبح سے شام تک خواب گاہ کے دروازے بند کیے آتش دان کے قریب خالدہ کے پاس بیٹھی رہتی تھی۔ گھر پہ کوئی بڑا آدمی موجود نہ تھا۔ امی اور ابّا کئی ماہ کے لیے وطن گئے ہوئے تھے۔ دونوں بھائی محاذ پر تھے۔ ہماری اتالیق میڈیم لورینزو کو اپنے بچوں سے ہی فرصت نہ ملتی تھی جو وہ ہمارا دل بہلاتیں۔ خالدہ کے متواتر فون کرنے پر جاوید نے کہہ دیا تھا کہ آج کل اسے دگنا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ سر کھجانے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ کس قدر اُداس اور پریشان دن تھے۔ آخری رات ___ خالدہ کو تیز بخار ہو رہا تھا___ باہر زور کی بارش شروع ہوگئی تھی۔ میں کمرے کے سارے دروازے اور کھڑکیاںبند کر کے خالدہ کے صوفے کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ بہت ہی پیارے انداز میں اپنا سفید ہاتھ پیشانی پر رکھے آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔ اس وقت اس کی بیمار آنکھوں کو دیکھ کر میں بہت ہی زیادہ فکر مند ہوگئی۔ ’’ بے بی، پیاری! کیا تم مجھ سے بھی خفا ہو؟‘‘ یکلخت آنکھیں کھول کر اس نے کہا۔ مجھے اس وقت بے اختیار اپنی گڑیا سی خالہ زاد بہن پر بے انتہا پیار اور ترس آگیا۔ ’’ مجھے تم سے خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ گڈو ! ‘‘ میں اس کی غمگین آنکھوں اورچھوٹے چھوٹے کمزور سفید ہاتھوں کو دیکھ کر اُسے کب کا معاف کر چکی تھی۔ ’’ سونے کی کوشش کرو جان۔ صبح تک بالکل اچھی ہوجاؤگی۔ ‘‘ میں نے جھک کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اس نے کشنوں میں منہ چھپا کر دیوار کی طرف کروٹ لے لی۔ باہر طوفان بڑھتا جارہا تھا۔ نہ جانے کس خیال سے میں ایک دم بہت ہی گھبرا گئی اور جلدی سے دوسرے کمرے میں ڈیڈی امی کو بلانے کے لیے ارجنٹ تار لکھا اور بوڑھے حفیظ کو برساتی اڑھا کر پوسٹ آفس کی طرف باہر پانی میں دھکیل دیا۔ خالدہ اسی طرح خاموش پڑی تھی۔ میز پر دوا کی ساری شیشاں خالی پڑی تھیں۔ جاوید اپنے اسسٹنٹ گھوش کے ہاتھ دوائیں بھیج دیا کرتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس وقت خالدہ کو انجکشن ضروری ہے۔ میں نے جلدی سے لیباریٹری کا نمبرملا کر جاوید کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔ دوسرے سرے سے کوئی آوازنہ آئی۔ آندھی کی وجہ سے ٹیلیفون کے تار ٹوٹ چکے تھے۔

خالدہ کی خواب گاہ کی مدھم سبز روشنی کی طرف دیکھ کر میں نے اور کچھ نہیں سوچا اور سرعت سے گیلری میں جاکر برساتی پہنی اور چھتری لے کر باہر نکل گئی۔ تیز ہوائیں کپڑوںکو مخالف سمت میںاڑائے لیے جارہی تھیں۔ اندھیرے میں دیوداروں میں سے گزرتے ہوئے جھکّڑ اور پانی کی بوچھار کے شور سے دل بیٹھا جارہا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کرکے خدا سے دعا مانگی اور ہمت کر کے لیباریٹری کی طرف بے انتہا تیزی سے بھاگنے لگی ۔ چکنے پتھر پیروں کے نیچے سے پھسلے جارہے تھے۔ دور پہاڑی پر عمارت کی دھندلی روشنی چمک رہی تھی۔ نالے کے پل پر پہنچ کر دہشت و خوف کے نامعلوم جذبے سے پیر آپ سے آپ رک گئے لیکن خالدہ کا زرد چہرہ آنکھوں کے آگے آگیا۔ میں نے تیزی سے پل کو عبور کیا اور پہاڑی پر چڑھنے لگی۔ ہوا کے تھپیڑے نیچے کو دھکیل رہے تھے۔ عمارت کی سفید چوڑی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے میں جاوید کے دار العمل کی طرف بڑھی۔ برآمدوں اور کمروں میں تیز روشنی ہو رہی تھی۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ میں نے شیشے پر دستک دی۔ جاوید دروازے کی طرف سے پشت کیے بلوری میز پرجھکا ہوا کچھ لکھ رہا تھا۔ دستک کی مدھم آواز طوفان کی گرج میں ڈوب کر رہ گئی۔ میں نے دوبارہ زور سے دروازہ کھٹ کھٹایا۔ جاوید نے پیچھے مڑ کر دیکھا: ’’ کون ___ ارے بے بی___ تم کیا___ کیا بات ہے۔‘‘ ’’ جاوید ___ خالدہ ___‘‘ آواز میرے حلق میںاٹک گئی۔ وہ ششدر کھڑا تھا۔ میں نے اسے کچھ سوچنے کا موقع نہ دیا اور جلدی سے اس کا ہینڈ بیگ اٹھا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹی ہوئی باہر لے آئی۔ ہم دونوں تیزی سے نیچے اترنے لگے۔ ’’ میری برساتی لے لو۔ میرے پاس چھتری کافی ہے۔‘‘ اور میں نے اپنی برساتی اتار کراس کے کندھوں پر ڈال دی۔ اس وقت وہ مجھے خالدہ کی وجہ سے عزیز معلوم ہو رہا تھا۔ وہ بالکل خاموش تھا۔ پہاڑ سے اترنے میںکئی دفعہ میرا پیر رپٹتے رپٹتے بچا۔ اس نے مضبوطی سے میرا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ اس قدر سردی میں بھی اس کی ہتھیلیاں گرم ہو رہی تھی۔ ہوا کے ایک پرشور تھپیڑے نے مجھے اس کے اوپر دھکیل دیا۔ ’’ جاوید اور تیزی سے چلو۔‘‘ میں نے سنبھل کر اپنے پیر جماتے ہوئے کہا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی تیر کی طرح خالدہ کے پاس پہنچی۔ وہ اسی طرح کروٹ لیے پڑی تھی۔ اس کی نبض کی رفتار اور بھی مدھم ہوچکی تھی۔ ’’ جان۔ جاوید آگیا۔‘‘ میں نے اس پر جھک کرکہا۔ جاوید تواب تک دوسرے کمرے میں کھڑا تھا۔ میں نے اسے خالدہ کے کمرے میں دھکیل دیا، اور خود ڈرائنگ روم میں آکر دیو ان پر گر گئی۔ ’’ یا اللہ میری مدد کر ۔‘‘ میں کُشنوں میں منہ چھپا کر بہت دیر تک دعائیں مانگتی رہی۔ ’’ بے بی پیاری کہاں گئیں؟‘‘ برابر والے کمرے سے خالدہ کی کمزور آواز آئی۔ ’’ ابھی آرہی ہوں گڑیا۔ تم دونوں کے لیے قہوہ بنا رہی تھی۔‘‘ ’’ ہم دونوں کے لیے۔ ‘‘ خالدہ کے زرد چہرے پر سرخی کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔ جاوید میری طرف سے پشت کیے انجکشن کا سامان بند کر رہا تھا۔ ’’ خالدہ پیاری، امی ابّا آرہے ہیں۔‘‘ ’’ واقعی؟ کب؟‘‘ خالدہ کا چہرہ جگمگا اٹھا اور جاویدنے ہینڈ بیگ سے سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے مجھے دیکھا۔ کاش اس کی اس وقت کی سفید رنگت اور پیشانی پر چمکتے ہوئے قطروں کو کسی طرح بھول سکتی! اور طوفان کے بعد، دوسرے روز شام کو، ہر طرف دیوداروں کے ٹوٹے ہوئے تنے بکھرے پڑے تھے۔ چنار کے مغرور درختوں نے سر جھکا لیا تھا اور رنگ برنگے سنگریزے بارش میں دھل کر شیشے کی طرح چمک رہے تھے۔ میں برآمدے میں کھڑی حفیظ کا انتظار کر رہی تھی جسے میں نے جاوید کو بلانے کے لیے بھیجا تھا۔ امی اورابّا آچکے تھے اور خالدہ ایک بیمار ضدّی بچے کی طرح ان کے پاس بیٹھی سنترہ کھا رہی تھی۔ حفیظ کو پھاٹک میں داخل ہوتے دیکھ کر میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچی۔ ’’ بی بی! بڑے ڈاکٹر صاحب تو صبح ہی چلے گئے۔‘‘ ’’ کہاں ؟‘‘ میرا دل ڈوبنے سا لگا۔‘‘ ’’ اجیت بابو نے سلام بولا ہے اور کہا ہے کہ بڑے صاحب نے اپنا تبادلہ کروا لیا تھا اور اینٹی ملیریا یونٹ کے ساتھ لڑائی پر جانے سے پہلے ہی چھٹی لے چکے تھے۔ انجکشن کا سامان لے کر میں خود حاضر ہوتا ہوں۔‘‘ ___ اور دیوداروں کے سائے میں جس چھوٹے سے افسانے نے جنم لیا تھا وہ ہمیشہ کے لیے ادھورا رہ گیا۔

قرةالعین حیدر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از واجدہ تبسم