بَھگَت نے پاٹ پڑھایا جو بدحواسی میں
حُلول کر گئے بھگوان دیوداسی میں
تمھارے خواب کسی اور کو نہ ڈس لیں کہیں
جگہ بدل کے نہ سویا کرو اداسی میں
اسے بھی شاخ نے پتوں سے ڈھانپ رکھا ہے
جو پھول خوش ہے بہت اپنی بے لباسی میں
پرانے حرف بھی لَو دیتے ہیں مگر ایسی
یہی تو فرق ہے تازہ میں اور باسی میں
جو معنیٰ ہیں ہی نہیں وہ بھی ڈھونڈ لیتا ہے
ترا جواب نہیں ہے سخن شناسی میں
مَیں اک صحیفے کی صورت زمیں پہ آیا تھا
مجھے اُتارا گیا تھا سِنِ چوراسی میں
مشامِ جاں میں لہو رک گیا ہے اور اس پر
یہ اشک کام نہیں آ رہے نِکاسی میں
مجھی سے پوچھ یہاں کون کیا بنا ہوا ہے
کہ زیبؔ گھاگ ہوں مَیں فنِ روشناسی میں
اورنگ زیبؔ