بس اک نگاہ کو یوں تیر کرنا چاہتی ھوں
اک اجنبی کو میں تسخیر کرنا چاہتی ھوں
ہر ایک رنج سے خود کو گزارنا ھے مجھے
تمام درد میں تحریر کرنا چاہتی ھوں
میں چاہتی ھوں مرے لفظ دل پہ وار کریں
ھر ایک شعر کو شمشیر کرنا چاہتی ھوں
وہ اس لیے بھی ضروری ھے میں اُسے پا کر
ادھورے خواب کی تعبیر کرنا چاہتی ھوں
اُسے کہو کہ مرے شہر میں قیام کرے
کہ ہمسفر نہیں تقدیر کرنا چاہتی ھوں
میں اُسکے ھاتھ پہ بیعت کروں گی اب تسلیم
اُسے میں اپنے لیے پیر کرنا چاہتی ھوں
تسلیم اکرام