ایسے تری لکھی ہوئی تحریر کھو گئی
جیسے جبیں کی لوح سے تقدیر کھو گئی
پلکوں پہ آنسوؤں کے دئیے ڈھونڈتے رہے
آنکھوں سے پھر بھی خواب کی تعبیر کھو گئی
کیا تھا شکوۂ قصر پتہ ہی نہ چل سکا
ملبے کے ڈھیر میں کہیں تعمیر کھو گئی
دن رات کی تہوں میں خد و خال دب گئے
اوراق وقت میں تیری تصویر کھو گئی
زندان تعلقات کا قائم نہ رہ سکا
قیدی ملا تو پاؤں کی زنجیر کھو گئی
یہ غم نہیں جبین شکن در شکن ہے کیوں
شکنوں کے بیچ میں میری تقدیر کھو گئی
حالانکہ یہ دعا تھی مگر مانگتے ہوئے
ایسے لگا کے ہاتھ کی توقیر کھو گئی
بندھن بندھے ہوئے تھے سبھی کھل گئے عدیمؔ
مجھ سے تعلقات کی زنجیر کھو گئی
عدیم ہاشمی