وعدہ بھی اُس نے سوچ کے کرنے نہیں دیا
اور اُس کے بعد مُجھ کو مُکرنے نہیں دیا
منزل تمام عمر مرے سامنے رہی
اک راستے نے مجھ کو گزرنے نہیں دیا
بے خوف کر دیا ہمیں تعویزِ عشق نے
رُسوائی کی بلاؤں سے ڈرنے نہیں دیا
ایسا عبور تھا کسی پتھر کو ٹھیس پر
آئینہ توڑ کر بھی بکھرنے نہیں دیا
مہماں کیا تھا دل نے محبت کو ایک بار
بارِ دگر کسی کو ٹھہرنے نہیں دیا
وہ چاہتے تھے ، کُوچ یہاں سے کریں مگر
اِذنِ سفر غموں کو ، جگر نے نہیں دیا
جس سرزمیں کے حسن پہ نازاں رہے سبھی
اُس سرزمیں کا حسن سنورنے نہیں دیا
ناصرہ زبیری