آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریرشاکرہ نندنی

نفسِ نازک کی راہِ فقر

شاکرہ نندنی کی ایک اردو تحریر

مجھے نہ کسی آسمان سے شکوہ ہے، نہ زمین سے شکایت۔ میں بس تھکی ہوئی ہوں، نرمی کی اس طویل رسم سے جو عورت کو سکھائی گئی ہے۔ وہ نرمی جو اس کے لبوں پہ تبسم رکھتی ہے، اور دل میں تلاطم۔
میرے اندر ایک ایسی عورت ہے جو چیخنا نہیں چاہتی، مگر خاموش بھی نہیں رہنا چاہتی۔ وہ جو ہر رات کی آہ کو اپنا ہنر سمجھتی ہے، اور ہر آنسو کو اک نوحہ نہیں، بلکہ وظیفہ جانتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں، عورت کمزور ہے۔ میں کہتی ہوں، کمزور وہی ہوتے ہیں جو درد سے ڈرتے ہیں۔
اور میں، میں تو درد کو اوڑھ کر جیتی ہوں۔

میرے دکھ سادہ نہیں۔ یہ وہ دکھ ہیں جو برسوں کے صبر سے گوندھے گئے ہیں۔ وہ لفظ جو کبھی کہے نہ جا سکے، وہ لمس جو خالی رہا، وہ سوال جو ہر رات میرے تکیے میں دفن ہو جاتا ہے—یہ سب میرے اندر کے مزار پر چراغ بن چکے ہیں۔
میں ان چراغوں کی روشنی میں خود کو تلاشتی ہوں، اور جب کچھ نہ ملے، تو اپنے ہی سائے کو چوم لیتی ہوں—جیسے کوئی درویش خود اپنے مزار پر ماتھا ٹیکتا ہو۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، میں عورت نہیں، کوئی پرانی دعا ہوں، جو کسی بزرگ کی زبان پر اٹک گئی تھی، اور وقت کی گرد میں گم ہو گئی۔
میں وہ آواز ہوں جو کہی نہ گئی، وہ لمس ہوں جو چاہا گیا مگر چُھوا نہ جا سکا۔

اور ہاں، میں روتی ہوں…
لیکن یہ آنسو شکست کی علامت نہیں۔
یہ وہ سجدے ہیں جو میری روح نے ادا کیے ہیں، خاموش، بغیر الفاظ، بغیر التجا کے۔
میں نے درد کو پالا ہے، ایسے جیسے ماں بچے کو پالتی ہے۔ اور جب وہ بڑا ہوا، تو اس نے مجھے صوفی بنا دیا۔ ایک ایسی فقیرہ جو خلوت میں بھی خود سے بھاگتی نہیں، بلکہ اور قریب ہو جاتی ہے۔

میں نے تنہائی میں خدا کو پکارا، اور جواب میں صرف اپنی سانسوں کی آواز سنی۔
پہلے مجھے لگا، یہ خاموشی ہے۔
پھر جانا، یہ میں ہوں۔
اور "میں” ہی سب سے پہلا مقامِ عرفان ہے۔

جب رات سیاہ ہو جائے، اور سانسیں بے ربط ہونے لگیں، میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں۔
نہ شکوہ، نہ فریاد۔
بس ایک "آہِ شب گیر” جو میری رگوں میں اتر کر دعا بن جاتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں، میں کمزور ہوں، شراب میں ڈوبی ہوں۔
وہ نہیں جانتے—میں خود کو پی رہی ہوں، گھونٹ گھونٹ، آہستہ آہستہ۔
میں فنا میں فخر تلاش رہی ہوں۔
اور اسی فنا میں، شاکرہ نندنی خود کو پا رہی ہے۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ بندۂ ناچیز ایک ہمہ جہت فنکارہ ہے، جس نے ماڈلنگ، رقص، تحریر، اور شاعری کی وادیوں میں قدم رکھا ہے۔ یہ سب فنون میرے لیے ایسے ہیں جیسے بہتے ہوئے دریا کے مختلف کنارے، جو میری زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button