آج میں ایک بات پر بہت دل گرفتہ ہوں! میرا دل بے حد دکھی ہے… میں اس معاشرے کے مسلمانوں کی سوچ پر حیران اور ان کی بے حسی پر افسردہ ہوں!
ہمارے ایک ساتھی کا نوجوان بیٹا عمرہ کے لیے سعودی عرب گیا تھا… وہ اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے گیا تھا… اپنے دل میں محبت، عقیدت اور بخشش کی طلب لے کر گیا تھا… لیکن… افسوس!! وہ نوجوان حجرِ اسود کو چومنے کی خواہش میں رش کے دوران گر گیا… وہ کون تھا؟ اللہ کا مہمان… ایک مسلمان بھائی… ایک جیتا جاگتا انسان… لیکن…!! کوئی بھی اس کی مدد کے لیے نہ رکا… لوگ اللہ کو پانے کے لیے حجرِ اسود کی طرف بھاگتے رہے… مگر اللہ کا بندہ پیروں تلے روند دیا گیا…!!
یہ کیسا عجیب دین ہے…؟؟ جس میں نماز پڑھنے کے لیے بھی کہا گیا ہے کہ آرام سے جاؤ، کہیں کسی دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچے… اصل دین تو وہ ہے جو "رحمت اللعالمین ﷺ” لے کر آئے تھے… جنہوں نے فرمایا:
"مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔”
لیکن… آج کے مسلمان… اللہ کے گھر میں… اللہ کے مہمانوں کو… پیروں تلے روند کر… حجرِ اسود کے بوسے کو زیادہ مقدس سمجھتے ہیں… بجائے اس کے کہ وہ اللہ کے بندے کی جان بچا سکیں…!
میں نے سوچا… کیا اللہ صرف مکہ اور مدینہ میں ہے؟ کیا اللہ صرف حجرِ اسود میں ہے؟ کیا اللہ صرف کعبے کی دیواروں میں ہے؟ نہیں!!
اللہ ہر اس انسان کے دل میں ہے جو محبت اور خلوص کے ساتھ اسے پکارتا ہے… چاہے پاکستان میں ہو یا سعودی عرب میں… چاہے مسجد میں ہو یا کسی غریب کی جھونپڑی میں…
اصل عمرہ تو وہ ہے… جو کسی غریب کی بھوک مٹائے… جو کسی مسلمان بھائی کا دل نہ دکھائے… جو کسی مسکین کی آنکھوں سے آنسو پونچھے…
میں اس معاشرے کے مسلمانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں…
کعبے کو چومنا زیادہ اہم ہے؟ یا اللہ کے بندے کی جان بچانا زیادہ اہم ہے؟
میں کبھی عمرہ پر نہیں گیا… لیکن میں سمجھتا ہوں… اگر اللہ نے کبھی مجھے عمرہ کی سعادت دی، تو شاید میں حجرِ اسود کو نہ چوموں… بلکہ… کسی مسلمان بھائی کی آنکھوں سے آنسو پونچھ کر، اللہ کو تلاش کروں گا!!
اللہ تو صرف دلوں میں ملتا ہے…
مٹی کی عمارتیں تب پاک ہوتی ہیں… جب ان میں انسانیت کا تقدس ہوتا ہے…
یہ میرے دل کی آواز ہے… میں کسی پر تنقید نہیں کر رہا…
بس صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں…
کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟
یا ہم صرف رسومات کے غلام بن گئے ہیں؟
اقبال کا پیغام مجھے پکار رہا ہے…
اقبال کہتے ہیں:
"دل سوز سے خالی ہے، نگاہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا ہے، کہ تو بےدک نہیں ہے”
مفہوم:
اقبال فرماتے ہیں کہ اگر انسان کے دل میں محبت، رحم اور خلوص نہ ہو اور اس کی نظر محض رسومات اور ظاہری عبادات تک محدود ہو، تو پھر وہ کیوں شکوہ کرتا ہے کہ اللہ اس سے دور ہے؟ اللہ تو صرف سچائی، محبت اور انسانیت کے دلوں میں بستا ہے، نہ کہ ظاہری رسومات میں۔
انور علی