اِس نامراد عشق نے کیا کر دیا مجھے
تو مل گیا تو خود سے جدا کر دیا مجھے
کچھ دن اسیرِ خواہشِ نان و نمک رکھا
پھر بے نیازِ ارض و سما کر دیا مجھے
دو گام ساتھ چل کے مرا مان رکھ لیا
تو نے تو میرے قد سے بڑا کر دیا مجھے
دورِخزاں کے زرد روئیے کے باوجود
اندر کے موسموں نے ہرا کر دیا مجھے
کیسے کہوں کہ وہ مرے احساں بھلا چکا
اس نے صلہ تو زہر پلا کر دیا مجھے
پھر وہ گھڑی بھی آئی کہ اعمال نیک نے
مخلوق کی نظر میں برا کر دیا مجھے
پہلے تو سر جھکا کے ادب سے کیا سلام
پھر تھال سے گلاب اٹھا کر دیا مجھے
تجھ بن کوئی نہیں جو ازل تا ابد چلے
تیری اسی ادا نے ترا کر دیا مجھے
انصر میں اس کی ذات میں گم ہو کے رہ گیا
شوقِ بقا نے ایسا فنا کر دیا مجھے
سید انصر