جس طرح سوچتا تھا میں ویسا نہیں ہوا
یوں تو ہمارے شہر میں کیا کیا نہیں ہوا
مجنوں کو راس آگئی صحرا کی زندگی
لیلٰی کے حق میں گرچہ یہ اچھّا نہیں ہوا
فاقہ زدہ کے بچّوں نے پوچھا یہ باپ سے
کوئی خدا کو آج بھی پیارا نہیں ہوا ؟
اُس رات بھوکے سوگئے بچے ّ یتیم کے
جس رات ماں کے جسم کا سودا نہیں ہوا
شائد اسی لئے ہیں محلے میں نیک نام
"کیونکہ ہمارے پیار کا چرچا نہیں ہوا ”
اُس کے تو سارے خواب ہی تعبیر پا چکے
میرا تو کوئی خواب بھی سچا نہیں ہو ا
اِک لا علاج زخم سے گھائل تھا سوزؔ وہ
بستر پہ مر گیا مگر اچھّا نہیں ہوا
محمد علی سوزؔ