جہاں پر برف گرتی ہے
جہاں پتھر کے نیچے پھول کھلتے ہیں
جہاں چشمے ابلتے ہیں
جہاں بارش برستی ہے
برستی بارشوں میں بھی
جہاں کہسار جلتے ہیں
ہمیں اپنے پرانے خواب کی انگلی پکڑ کر
ایک وادی میں اترنا ہے
جہاں دشمن کا قبضہ ہے
یہ وہ قطعہ جس پر مصطفے نے فصل بوئی تھی
یہا ں دشمن کی چوکی ہے
ادھر وہ کنج جس میں فاطمہ نے گھر بنایا تھا
وہاں پر خانۂ ایذا رسانی ہے
وہ میداں جس میں ننھے
کھیل میں مصروف رہتے تھے
وہاں پر ٹینک چلتے ہیں
چلو دشمن سے ملتے ہیں
ہمیں اک بار پھر اس سے یہ کہنا ہے
” ستم ڈھاؤ
اجازت ہے تمہیں دنیا کے سارے منصفوں
انسانیت کے ٹھیکے داروں کی،
ستم ڈھاؤ مگر اتنا تو بتلاؤ
کہ تم یہ جان لے لو گے
تو کیا ایمان بھی لو گے؟
ہمارا خوں بہاؤ گے
تو کیا جو خون میں شامل ہے
وہ پیمان بھی لو گے؟
دیے جب تم بجھا دو گے
تو کیا پھر انجم و مہتاب لوٹو گے؟
ہماری نیند تو تم لوٹ سکتے ہو
مگر کیسے ہمارا خواب لوٹو گے؟
ثمینہ راجہ