اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے

میر تقی میر کی ایک غزل

بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے
ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے

یار بے پروا و مفتر اور میں بے اختیار
پیش کچھ جاتی نہیں منت سماجت ہائے رے

سختی کھینچی کوہکن نے قیس نے رنج و تعب
کیا گئی برباد ان یاروں کی محنت ہائے رے

شور اٹھتا ہے جو ہوتے جلوہ گر ہو ناز سے
کھینچنا قد کا بلا آفت قیامت ہائے رے

خانقہ والے ہی کچھ تنہا نہیں الفت میں خوار
کیسے کیسوں کی گئی ہے مفت عزت ہائے رے

عشق میں افسوس سا افسوس اپنا کرچکے
زیر لب کہتے رہے ہم ایک مدت ہائے رے

ریجھنے ہی کے ہے قابل یار کی ترکیب میر
واہ وا رے چشم و ابرو قد و قامت ہائے رے

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button