آپ کا سلاماحمد خیالاردو شاعریاردو غزلیات

دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے

احمد خیال کی اردو غزل

دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے

اب وہی شخص ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے

میں یہ ایسے ہی نہیں چھان رہا ہوں اب تک

خاک میں کوئی ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے

عین ممکن ہے کہ بینائی مجھے دھوکہ دے

یہ جو شبنم ہے شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے

اس محبت میں ہر اک شے بھی تو لٹ سکتی ہے

اس محبت میں خسارہ بھی تو ہو سکتا ہے

گر ہے سانسوں کا تسلسل مری قسمت میں خیالؔ

پھر یہ گرداب کنارا بھی تو ہو سکتا ہے

احمد خیال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button