نظر نظر بے قرار سی ہے، نفس نفس میں شرار سا ہے
ایک اردو غزل از ساغر صدیقی
نظر نظر بے قرار سی ہے، نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جانتا ہوں کہ تم نہ آؤ گے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
مرے عزیزو، مرے رفیقو، کوئی نئی داستان چھیڑو
غم ِ زمانہ کی بات چھوڑو، یہ غم تو اب سازگار سا ہے
کبھی تو آؤ، کبھی تو بیٹھو، کبھی تو دیکھو، کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
چلو کہ جشن ِ بہار دیکھیں، چلو کہ ظرف ِ بہار جانچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے، کلی کلی پر نکھار سا ہے
یہ زلف بر دوش کون آیا، یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی، تمام عالم بہار سا ہے
ساغر صدیقی