معذوری
خلوت و جلوت میں تم مجھ سے ملی ہو بارہا
تم نے کیا دیکھا نہیں، میں مسکرا سکتا نہیں
میںکہ مایوسی مری فطرت میں داخل ہو چکی
جبر بھی خود پر کروںتو گنگنا سکتا نہیں
مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں
میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آ سکتا نہیں
روح افزا ہیں جنونِ عشق کے نغمے مگر
اب میں ان گائے ہوئے گیتوں کو گا سکتا نہیں
میں نے دیکھا ہے شکستِ سازِ الفت کا سماں
اب کسی تحریک پر بربط اٹھا سکتا نہیں
دل تمہاری شدتِ احساس سے واقف تو ہے
اپنے احساسات سے دامن چھڑا سکتا نہیں
تم مری ہو کر بھی بیگانہ ہی پاؤ گی مجھے
میں تمہارا ہو کے بھی تم میں سما سکتا نہیں
گائے ہیں میں نے خلوصِ دل سے بھی الفت کے گیت
اب ریا کاری سے بھی چاہوں تو گا سکتا نہیں
کس طرح تم کو بنا لوں میںشریکِ زندگی
میںتو اپنی زندگی کا بار اٹھا سکتا نہیں
یاس کی تاریکیوں میں ڈوب جانے دو مجھے
اب میںشمعِ آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں
ساحر لدھیانوی