اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
کواڑ گرچہ مقفّل تھے اُس حویلی کے
فقیر پھر بھی گُزرتے رہے صدا کرتے
ہمیں قرینہٕ رنجش کہاں میسّر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلہ کرتے
تری جفا کا فلک سے نہ تزکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے
تجھے نہیں ہے ابھی فرصتِ کرم،نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
چِقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سُو انور
نظر جُھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے
انور مسعود