دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم
سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کئے تو دیکھا کہ پگڈنڈیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں۔ میں اک ذرا رکا اور ان پر نظر ڈالی جو بوجھل سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ میں بے پناہ اپنائیت کے احساس سے لبریز ہو گیا۔۔۔ تب علیحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک کسک کی صورت اختیا کی اور میں انتہائی غم زدہ، سر جھکائے وادی میں اتر گیا۔
جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سب تھوتھنیاں اٹھائے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ بار بار سر ہلا کر وہ اپنی رفاقت کا اظہار کرتے، ان کی گردنوں میں بندھی ہوئی دھات کی گھنٹیاں ’’الوداع، الوداع‘‘ پکار رہی تھیں۔ اور ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کے کونوں پر آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
میرے ہونٹ شدت سے کانپے، آنکھیں مند گئیں، پاؤں رک گئے مگر پھر بھی میں بھاری قدموں سے آگے بڑھا، حتی کہ میں ان کے لئے اور وہ میرے لئے دور افق پر لرزاں نکتے کی صورت اختیار کرگئے۔
وادی میں اونچے اونچے بے ترتیب درخت جابجا پھیلے ہوئے تھے، جن کے جسموں کی خوشبو فضاء میں گھُل گئی تھی۔ نئے راستوں پر چلنے سے دل میں رہ رہ کے امنگ سی پیدا ہوتی۔ سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی سیڑھی چڑھ رہا تھا کہ میں گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھو ڑ کر صاف شفاف، چکنی سڑکوں پر آ گیا۔ پختہ سڑکوں پر صرف میرے پاؤں سے جھڑتی ہوئی گرد تھی، جو میں پگڈنڈیوں سے لے کر آیا تھا۔۔۔ یا پھر میرے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔
چکنی سڑکوں کی سیاہی دھیرے دھیرے ابھر کر فضا میں تحلیل ہونے لگی اور افق پر سورج کمزوری سے لڑھکنے لگا۔
ابھی جھٹپٹا ہی تھا کہ میں ایک گول کشادہ مکان کے بڑے سے پھاٹک پر آرکا۔ نئے خوبصورت پھولوں سے لدی جھاڑیوں اور کنجوں میں سے ہوتی ہوئی ایک روش اونچے اونچے ستونوں والے برآمدے تک چلی گئی جس پر بکھرے ہوئے پتھر دن کی آخری زرد دھوپ میں چمچمارہے تھے۔ میں نپے تُلے قدم رکھتا ہوا یوں آگے بڑھا جیسے پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکا ہوں۔
خاموش، ویران برآمدے میں میری آواز گونجی۔ مجھے تعجب سا ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی مجھے پکار رہا ہے۔ میں آپ ہی آپ مسکرادیا۔ کوئی جواب نہ پا کر آگے بڑھا اور بڑے سے ولندیزی دروازے نے مجھے باہیں پھیلا کر خوش آمدید کہا۔
ولندیزی دروازوں کے ساتھ ہی قدیم آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیاں تھیں اور ان سب پر گہرے کتھئی رنگ کے بھاری پردے لٹک رہے تھے، جن کی سجاوٹ سے سارے کمرے میں گہرے دھندلکے کا احساس ہورہا تھا۔ ماحول کی اس ایکا ایکی تبدیلی نے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دی اور میں سہما سہما کھڑا ہو گیا۔
’’ نیند کی جھپکی تھی شاید؟‘‘
نیم تاریک کمرے میں سہماسہما سا صوفے کے گد گدے پن میں دھنستا ہوا پاتال میں اترا جا رہا ہوں۔ آتش دان میں آگ بجھ گئی ہے پھر بھی راکھ میں چھپی بیٹھی چنگاریوں کی چمک گہرے سبز ریشمی قالین پر ابھی موجود ہے۔ کارنر ٹیبل پر رکھے دھات کے گل دان کو میرے بڑے سے ہاتھ نے چھو کر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے جسم کی خنکی ابھی تک انگلیوں پر محسوس ہو رہی ہے۔ گل دان کا اپنا ایک الگ وجود میں نے قبول کر لیا ہے۔ ہاتھ میرا ہے اسی لئے احساس بھی میرا ہے۔ لیکن گل دان نے میرے احساس کو قبول نہیں کیا ہے۔
مجھے ’اس کا‘ انتظار ہے۔ ’وہ‘ اندر کا ریڈار میں کھلنے والے دروازے سے پردہ سرکا کر مسکراتا ہوا نکلے گا۔ اور میں بوکھلاہٹ میں اٹھ کر اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور پھر ہم دونوں بڑی گرم جوشی سے ملیں گے۔ وہ بڑا خوش سلیقہ آدمی ہے۔ ڈرائینگ روم کی سجاوٹ، رنگوں کا انتخاب، آرائشی چیزوں کی سج دھج۔۔۔ سب میں ایک’ گریس‘ ہے۔ نہ جانے وہ کب سے ان کے بارے میں سوچ رہا تھا، ان کے لئے بھٹک رہا تھا۔۔۔ اور تب کہیں جاکر وہ سب کرپایاہے۔
آتش دان بلیک ماربل کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جس پر جا بجا غیر مسلسل سفید دھاریاں ہیں۔ میں کچھ دیر تک ان دھاریوں کو غور سے دیکھتا رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ دھاریاں طویل و عریض صحرا کے ’لینڈ اسکیپ‘ سے مشابہ ہیں۔ بالکل خالی صحرا، اداس، خاموش۔ اور میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس صحرا میں کھو گیا اور ریت کے جھکڑ نے مجھے اپنے اندر گم کر لیا۔ اور میں ویسے ہی سہما سہما خوف زدہ سا اپنے آپ کو ڈھونڈنے کے لئے اس صحرا کی طرف بڑھا۔
میں آتش دان پر بنی کارنس پر ہاتھ جما کر، جھک کر اپنے آپ کو تلاش کرنے لگا۔ کارنس پر ایک تصویر رکھی تھی جو بے دھیانی میں میرا ہاتھ لگنے سےگر گئی۔ میں نے اس تصویر کو اٹھا کر دیکھا، ایک خوش پوش آدمی گود میں ایک ننھی سی بچی کو اٹھائے بیٹھا ہے اور اس کے بائیں کندھے سے بھڑائے ایک عورت بیٹھی ہے۔ دونوں مسکرا رہے ہیں اور بچی ان کی طرف مڑ کر دیکھ رہی ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ کبھی ایسی ہی تصویر کھنچوانے کے لئے میں بھی بیٹھا تھا اور فوٹو گرافر نے کہا تھا، ’’ذرا مسکرائیے!‘‘
ہم تینوں مسکرائے اور فوٹوگرافر نے کہا، ’’تھینک یو،‘‘ اور ہم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ہم ابھی تک بکھرے ہوئے ہیں۔ اگر اکٹھے بھی ہو جائیں تو مسکرا نہیں سکتے۔ باقی تصویر ویسی کی ویسی کھنچ جائے گی۔
لیکن’وہ‘ تصویر میں مسکرا رہا ہے، اس کی بیوی بھی مسکرا رہی ہے اور بچی بھی شاید، کیوں کہ اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے ہی مسکراتا ہوا وہ پچھلے دروازے سے وارد ہو گا۔ اور اس کی بیوی پچھلے کمروں میں کسی بیڈروم میں بیٹھی مسکرا رہی ہو گی۔ اور بچی شاید مکان کے پچھواڑے خوب صورت، پُر سکون کنجوں میں تتلیاں پکڑ رہی ہو گی۔
صوفے کے سائیڈ ٹیبل پر پینے کے لئے کچھ رکھ دیا گیا ہے۔ جب میں اس تصویر کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور اپنے آپ کو صحرا میں کھوج رہا تھا تو کوئی چپکے سے نارنگی کے رنگ کی کسی چیز کا گلاس رکھ گیا تھا۔
’’ٹھک۔۔۔ ٹھک۔۔۔ ٹھک،‘‘ برآمدے سے کسی کے زمین پر لاٹھی ٹیک کر چلنے کی آواز آرہی ہے۔بڑی مسلسل، بڑی متوازن، بڑی باقاعدہ۔ میں دروازے کا پردہ سرکاکر سر باہر نکال کر دیکھتا ہوں۔ کوئی آہستہ آہستہ چلتا ہوا برآمدے کے خم سے مڑ گیا اور اب اس کی پشت بھی غائب ہو گئی ہے اور لاٹھی ٹیکنے کی آواز ہر لحظہ دور ہوتی جارہی ہے۔
’’سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے؟’’
’’ہاں ہاں، سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے!‘‘ میں واپس کمرے میں آتے ہوئے سوچتا ہوں۔ نمکین ہواؤں کا جھونکا سب چیزوں کو چھیڑتا ہوا، سب چیزوں پر سے گزرگیا۔
’’سمندر سے میرا تعلق ہے؟میں سمندر کے بارے میں اتنا فکر مند کیوں ہوں ؟‘‘ میرے ذہن میں سمندر اپنی بے کرانی، اپنی گہرائی اور اپنے مد و جزر کے ساتھ پھیلتا چلا گیا اور میں محسوس کرنے لگا کہ یہ واقعی سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے اور میں ایک کمزور سی، نحیف سی چھوٹی سی کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا ہوا، ڈولتا ہوا کھڑکی تک پہنچا اور جھٹ سے پردہ ہٹا دیا۔
’’باہر شاید برف گر رہی ہے۔‘‘
’’ایک ایک گالا، ایک ایک گالا۔‘‘ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میرا ہاتھ کھڑکی سے باہر فضاء میں دھیرے دھیرے کبھی سیدھا کبھی الٹا حرکت کرنے لگا مگر ایک گالا بھی اس پر نہ گرا، ایک ذرا سی خنکی بھی اس پر محسوس نہ ہوئی۔
’’قدیم آریائی جھروکوں ایسی کھڑکی!‘‘ میں بٹر بٹر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’برف کہاں ہے؟‘‘
’’نہیں، کہیں نہیں!‘‘ میں خود ہی سوال کرتا ہوں اور پھر خود ہی جواب دیتا ہوں، مگر اس سوال اور جواب کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی، صرف محسوس ہوتی ہے، ایک اداس، پراسرار سرگوشی۔۔۔ اور میں اس احساس سے خوف زدہ ہو کر پھر اس گل دان کی طرف پلٹتا ہوں جس نے سب سے پہلے اس کمرے میں میرے احساس کو بیدار کیا تھا۔
بڑا سا گول گل دان جس پر بڑی ترتیب سے نقش و نگار بنائے گئے تھے بالکل بے حرکت پڑا ہے اور اس میں شروع جاڑوں کے پھول سجے ہوئے ہیں۔ یہ پھول کس ہاتھ نے سجائے ہیں ؟ گل دان سے ہٹ کر میرا ذہن کچھ ہاتھوں کے بارے میں سوچتا ہے جن میں پھول ہیں۔ پھر ہوا کھڑکی کے پردوں کو چھیڑتی ہے، دروازے کا پردہ بھی سرسراتاہے اور میں بالکل تنہا ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں اور پھر غم زدہ ہو جاتا ہوں۔ بے وجہ کا غم، بے بنیاد اکیلا پن۔
ایک سانپ میرے ذہن میں پھن پھیلا کر اپنی تیز تڑپتی ہوئی سرخ زبان نکال کر ادھر ادھر دیکھتا ہے، پھر آہستہ سے نیچے قالین پر اتر جاتا ہے اور تیزی سے چلتا ہوا پیچھے والے دروازے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ میں خوف زدگی کی انتہائی کیفیت میں چیخ اٹھتا ہوں اور میری نظروں کے سامنے بیڈروم میں بیٹھی ہوئی، مسکراتی ہوئی ایک عورت انگڑائی لیتی ہے اور تتلیاں پکڑتی ہوئی ایک بچی زقند بھرتی ہے اور میں صوفے کی پشت کو مضبوطی سے تھام لیتا ہوں اور آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ سارا منظر کہیں دور اندھیرے میں آہستہ آہستہ گم ہو جاتا ہے۔
’’وہ ابھی نہیں آیا۔ رات باہر لان میں اتر آئی ہو گی۔‘‘ لاٹھی ٹیکنے کی آواز پھر قریب آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میں تیزی سے بڑھ کر دروازے کا پردہ ہٹا دیتا ہوں۔ ایک اندھا، ادھیڑ عمر آدمی لاٹھی کے سہارے بڑھ رہا ہے۔۔۔ نپے تُلے قدموں کے ساتھ لاٹھی کی باقاعدگی سے ابھرتی ہوئی آواز کے ساتھ۔ اس سے پیشتر کہ میں اسے بڑھ کر روکوں، وہ آگے بڑھ جاتا ہے اور خاموشی سے برآمدے کے خم سے مڑ جاتا ہے۔ ایکا ایکی پلٹ کر میں کمرے کے خالی پن کو گھورتا ہوں۔ بڑا خوبصورت کمرہ ہے۔ دیوار پر بارہ سنگے کا ایک سر ٹنگا ہوا ہے اور اس کے نیچے ایک بڑا ہی مرصع تیر کمان آرائش کے لئے لٹکا ہوا ہے۔ کھڑکی اور دروازے کے درمیان والی دیوار کے خالی پن کو بھرنے کے لئے چوڑے سنہری چوکھٹ والی ایک بڑی سی تصویر ٹنگی ہے جس میں ہزار رنگوں والی ان گنت جنگلی چڑیاں پھدکتی ہوئی محسوس ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
’’سب خوب ہے! ہر چیز جاذب ہے! تمام کچھ اپنانے کو جی چاہتا ہے۔ کاش! اے کاش! یہ سب کچھ میرا ہوتا۔ یہ صوفہ، کارنر ٹیبل پر پڑا ہوا گل دان، بک کیس میں پڑی ہوئی کتابیں، کارنس پر رکھی ہوئی تصویر، گہرے سبز قالین کا گدگداپن، آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیاں، ولندیزی دروازے پر سرسراتے ہوئے پردے، بیڈروم میں مسکراتی عورت، تتلیاں پکڑتی ہوئی بچی اور ان تمام چیزوں کے اپنا ہونے کا ہمہ گیر، بھرپور احساس۔‘‘
’’مگر نہیں۔۔۔ یں۔ یں۔ ں!‘‘ اف! میری آواز اس قدر بلند کیوں ہے؟‘‘ مجھے اپنے چِلانے پر ندامت محسوس ہوتی ہے۔ ندامت، خوف اور اجنبیت کے احساس سے میں گزر جاتا ہوں اور پھر مجھے اپنا وجود گہرے سبز قالین پر اوندھا پڑا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی آدمی قالین کو اپنی انگلیوں میں بھر لینے کی کوشش میں تڑپ رہا ہے، رو رہا ہے اور پھر اس کی ہچکی بندھ جاتی ہے۔
’’خاموش ہو جاؤ۔۔۔ خاموش!‘‘ میں گہرے غم میں ڈوب کر اسے کہتا ہوں اور میرے اپنے آنسو ڈھلک کر میرے رخساروں تک آ جاتے ہیں اور میں اسے ویسے ہی خاموشی سے تڑپتا ہوا دیکھتا ہوں۔
’’ ٹھک۔۔۔ ٹھک۔۔۔ ٹھک،‘‘ میں تیزی سے دروازے کی طرف بڑھتا ہوں۔ ’’رُک جاؤ۔۔۔ و۔۔۔ و۔۔۔ و !‘‘ میں دھاڑتا ہوں۔ اندھا بالکل میرے قریب سے گزر گیا ہے۔ اس پر میری آواز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میں لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ناکام رہتا ہوں۔ (یہ میری زندگی کی بہت سی ناکامیوں میں سے ایک ناکامی ہے۔ میں اسے پہلے دن سے ہی پکڑنے میں ناکام رہا ہوں ) وہ برآمدے کے موڑسے اوجھل ہو گیا ہے۔
اندر وہ قالین پر اوندھا پڑا ابھی تک بسور رہا ہے۔ پیچھے کھلنے والے دروازوں پر ذرا بھی جنبش نہیں ہوتی۔ سانپ کے مکان میں گھس جانے سے ذرا بھی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔ (’’اُف کتنے بے حس لوگ ہیں!‘‘)
اسی دروازے کے قریب تپائی پر کانسے میں ڈھلا ایک بوڑھا بیٹھا بڑی بے فکری سے ناریل پی رہا ہے۔
’’اچھا تو میں چلتا ہوں۔‘‘
’’چلتا ہوں ؟ مگر کہاں ؟‘‘ سوال اور جواب دونوں ہاتھ پھیلائے نظریں ایک دوسرے پر گاڑے کھڑے ہیں اور میں آہستہ سے سرک کر اس مجمعے کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔
’’پانی تو پی لیجئے،‘‘ ایک بڑی ہی میٹھی آواز کمرے میں گونجی۔
’’نہیں، بس اب میں چلتا ہوں، بہت دیر ہو گئی،‘‘ میں پلٹے بغیر، اس عورت کو دیکھے بغیر ہی جواب دیتا ہوں۔
’’لیکن کہاں ؟‘‘ آواز پھر ابھری اور پھیل گئی۔ (سوال اور جواب نے مل کر شرارت کی ہے شاید! اور اب میں ان کے درمیان کھڑا ہوں اور میرے لئے ان کی فتح مند نظروں کی تاب لانا مشکل ہو رہا ہے اور میں سر جھکا کر خاموش ہو جاتا ہوں)
’’یہ سب اگر نہ ہو سکے تو بھی کوئی بات نہیں۔ مگر اتنا تو ہو ہی سکتاہے کہ میں اس بوڑھے کی طرح بے فکری سے بیٹھا تمباکو پیتا رہوں ؟‘‘
’’پہلے کانسے میں ڈھلنا پڑے گا!‘‘ قالین پر اوندھے پڑے آدمی نے کہا اور اٹھ کر آتش دان پر بنے صحرا میں گم ہو گیا۔
’’کیا کوئی مجھے کانسے میں ڈھالے گا؟‘‘ میں نے مجسمے کو مخاطب کر کے کہا۔ بوڑھے نے تمباکو کا ایک لمبا کَش لگایا اور مسکراتے ہوئے دھواں میرے چہرے پر چھوڑ دیا۔ قدیم آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیوں کے پردے سرسرائے اور بڑی سی تصویر میں ہزار رنگوں والی جنگلی چڑیوں نے پھدک کر اپنی اپنی جگہیں بدل لیں۔ میں خوف زدگی کے انتہائی احساس سے لڑکھڑاتا ہوا سائیڈ ٹیبل تک پہنچا اور غٹا غٹ سارا گلاس چڑھا گیا۔
’’ابھی اسے صحرا میں کھوجنا ہے۔ شاید اس شدید برف باری میں بھاگ کر جانا پڑے۔ یا پھر سمندر کنارے کے شہر میں۔‘‘ (کشتی بہرحال ساحل تک پہنچنی چاہیئے)
(ایک بپھرا ہوا سمندر، ایک ریت اڑاتا صحرا اور ایک برف کا طوفان اور میں اکیلا آدمی! میں کیا کچھ کر لوں گا؟)میں دل ہی دل میں اس چیز کو گالی دیتا ہوں۔ جو یہ سب کچھ سوچتی ہے مگر نظر نہیں آتی اور مجھ نحیف، کمزور، بے سہارا۔۔۔ کو بھٹکاتی پھرتی ہے۔
’’ٹھک۔۔۔ ٹھک۔۔۔ ٹھک۔‘‘ وہ پھر گزر گیا ہے۔ میں اسے پکڑ نہیں سکتا، اس سے بات نہیں کر سکتا۔ وہ گونگا، بہرہ، اندھا۔ ذہن میں سوراخ کرتی ہوئی اس کی لاٹھی کی آواز۔
’’چلو بھائی چلو،‘‘ دروازے پر کسی نے دستک دی ہے۔
’’مگر وہ تو ابھی آیا نہیں،‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’اب نہیں پھر سہی، دیکھو دیر ہو رہی ہے،‘‘ آواز باہر لان میں سے گونج کر آ رہی ہے۔
’’ذرا سنو!پھر کب آنا ہو گا؟‘‘ میں نے پلٹ کر ڈرائینگ روم میں چاروں طرف نظریں گھمائیں جو مجھے انتہائی پسند تھا۔۔۔ پُرسکون، آرام دہ، کوزی۔
جواب میں وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔ شاید وہ میری حریص نگاہوں کا مطلب سمجھ گیا تھا۔
لاٹھی ٹیکنے کی آواز بڑی جلدی جلدی دروازے پر سنائی دی۔ شاید اسے بھی جلدی ہے۔ باہر صرف آواز تھی۔ ایک اس کے قہقہے کی آواز، دوسری اندھے کی لاٹھی کی آواز۔ اور رات باہر لان میں اتر کر سارے میں پھیل گئی تھی۔۔۔ شروع جاڑوں کی اندھیری رات۔
’’یہ سب تمہارا ہی تو تھا۔ مگر اب اس سے زیادہ نہیں۔ بہت دیر ہو رہی ہے،‘‘ اس کی آواز پھر گونجی، پھیلی اور سمٹ کر پھر باہر واپس چلی گئی۔
میں کسی انجانی چیز کے کھو جانے کے غم سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ’’مجھے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا،‘‘ میں چیخا۔ ’’کم از کم میں پچھلے دروازے سے اندر جا کر ان میں ایک لمحے کے لئے بیٹھ تو جاتا۔ ان کی چاہت، ان کی اپنائیت کی گرمی سے اپنی آغوش کے خالی پن کو آسودہ کر لیتا۔ یہ ظلم ہے۔۔۔ سراسر ظلم!‘‘
’’ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔‘‘
میں نے خالی قالین کو ایک نظر دیکھا اور پھر بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں بھر لینے کے لئے اس پر اوندھا لیٹ گیا۔ اور میری پشیمانی کے آنسوؤں سے اس کا دامن بھیگنے لگا۔ اور پھر صحرا میں بھٹکا ہوا آدمی آہستہ سے چل کر میرے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ کانسے میں ڈھلے ہوئے بوڑھے نے ایک اور گہرا کَش لیا اور تمباکو کا دھواں میری طرف اگل دیا۔
میں نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا اور پوچھنا چاہا، ’’دیکھ رہے ہو؟ یہ سب دیکھ رہے ہو نا؟‘‘ ایکا ایکی میں نے اپنی بے چارگی پر قابو پایا اور بازو لہرا کر کہنا چاہا، ’’ سنو! تم سب سن لو۔ سمندر کنارے کے شہر کا پتہ ہے نا؟اگر کبھی کوئی کمزور، نحیف، بے سہاراکشتی ساحل سے آ کر لگے تو سمجھ جانا کہ وہ میں ہوں!‘‘
سریندر پرکاش