”وقت کا دیوتا کرونس مر گیا ہے۔ وہی کرونس جس نے اپنا مادہ منویہ دھرتی کے تنگ دروں میں ڈالا تو تمام دیوی دیوتا پیدا ہوئے۔“
”دیوی دیوتا تو لافانی ہوتے ہیں۔ وہ کسے مر سکتا ہے؟“
”میں نے اس کا وجود ہی مٹا دیا ہے۔“
”کیوں؟“
یہ دیوی دیوتا کائنات کے بنیادی اصول علت و معلول پر پورا نہیں اترتے۔ اس لیے میں نے اسے مار دیا۔ مندروں کی گھنٹیاں جو زور زور سے مسلسل بج رہی تھیں یہ وقت کے دیوتا کی ہچکیاں تھیں، کرونس کی آخری ہچکیاں۔ میں نے ان دیوتاوں کے باپ کو قتل کر کے یہ ڈرامہ ہی ختم کر دیا۔ ”
”لوگ تمہارے اس عمل سے خوش نہیں۔“
”ہاں! عمل کا ردعمل تو آنا ہی تھا۔“
یاد کرو، یہ دیوتا ہمارے ساتھ کیسا کھیل کھیلتا تھا۔ بھولی بسری باتوں کی ایک ہلکی سے جھلک دیکھا کر غائب کر دیتا اور بندہ سوچتا ہی رہ جاتا کہ یہ کب ہوا تھا؟
یا
شاید کبھی ہوا ہی نہیں تھا؟
تمہاری متفکر مسکراہٹ بتا رہی ہے کہ تم میری باتوں پر غور کر رہی ہو لیکن اس کشمکش میں ہو کہ میں اسے کیوں مار دیا؟
٭٭٭
ہم دونوں بھول بھلیوں میں کھو گئے ہیں۔ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس گنجلگ کے باہر کیا ہے یہ بھی پتا نہیں۔ یہ وقت کی بجھارت ہے جس کا کوئی سرا نہیں۔ ہم راستوں پر بھاگتے پھرتے ہیں۔ سارے راستے آگے جا کر بند ہو جاتے ہیں۔ کوئی آواز بھی نہیں سوائے ہمارے جوتوں کی آواز کے جو لکڑی کے فرش سے ٹکرا کر شور مچا رہے ہیں۔ تمہارے جوتوں کی اونچی ایڑی ٹک ٹک بج رہی ہے، مندر کے مقدس گھنٹے کی طرح۔
یہ آواز وہی ہے جو میرے کمرے کے فرش سے آتی تھی جب والدین نے میرے کمرے سے قالین اٹھا کے لکڑی کا فرش لگا دیا کیونکہ اس سے مجھے الرجی تھی۔ میں فرش پر بھاگا پھرتا تھا، زور زور سے ایڑیاں ٹکراتا کیونکہ مجھے یہ آواز بہت پسند تھی۔ بچپن کی وہ یاد میرے کانوں میں بج رہی ہے، میری کھوئی ہوئی یاد: وہ قالین، وہ الرجی، وہ علالت جو علت بنی تھی اس معلول کی۔
ہم ان گھمن گھیریوں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ان راہداریوں سے متصل چھوٹے چھوٹے حجروں میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔
ان میں عجیب عجیب یادیں ہیں۔
لوری کے وہ الفاظ جو ماں ہمک ہمک کر گایا کرتی تھی، جنہیں میں تقریباً بھول چکا تھا۔
چھن چھن چھنانن چھن
چھن چھن چھنانن چھن
چندا کے ہنڈولے میں
اڑن کھٹولے میں
امی کا دلارا
ابو جی کا پیارا
سوئے
میرے بچپن کا وہ بستہ جس پر میری ماں نے کروشیے سے میرا نام کاڑھا تھا، جو کھو گیا تو میں بہت رویا تھا۔
وہ جیولری بکس جس میں سونے کے زیورات اور موتیوں کے ہار کے ساتھ دادی اماں نے میرے موتیوں جیسے دانت سنبھال رکھے تھے۔
گہری جامنی رنگ کے لولی پاپ جو مجھے بہت پسند تھے۔
میری سند باد کی کہانیوں کی کتاب جو تم چرا کر لے گئی تھیں
تمہارا دوسرا بوسہ
یادیں ہی یادیں ہیں لیکن ان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ ہر راستہ آگے جا کر بند ہو جاتا ہے۔ لوٹ کر ایک اور اندھے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ ان راہداریوں میں کئی دروازے ہیں لیکن سب بند۔ پھر اچانک ایک دروازہ کھل جاتا ہے،
خود بخود۔
خالی کمرہ!
بس اس کے اندر درمیان میں پڑی اکلوتی کرسی پر براجمان ایک شخص ہماری طرف ہی دیکھ رہا ہے۔ ہم اس کے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
طویل عمری کی وجہ سے جھریوں سے بھرا کرخت چہرہ، لمبے گھنے سفید بال جو اس کے کندھوں پر الجھے پڑے تھے۔ ہونٹوں پر کڑی مسکراہٹ تھی یا بڑھاپے کی وجہ سے منہ ویسے ہی کھلا رہتا تھا جو اس کے درشت لہجے کا باعث بن رہا تھا۔
”تم واپس آ گئے ہو؟“
”کیا میں اس سے پہلے بھی ادھر آیا تھا؟“
”بھول گئے! انسان ہو نا۔ تم پہلے بھی آئے تھے۔“
”تم کون ہو؟“
”جادوگر۔ وہی جادوگر جو تمہیں ٹوپی سے کبوتر نکال کر دکھاتا تھا۔“
”اب تمہاری پٹاری میں کیا ہے؟“
”یادیں۔“
وہ کچھ لمحے کے لیے خاموش ہو جاتا ہے، اپنی بات میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے۔
”یہ کون سی جگہ ہے؟“
مجھے اس سے اچھے جواب کی کوئی امید نہیں کیونکہ اس جیسے شعبدہ باز انسان کو سیدھا راستہ بتانے کی بجائے مزید الجھا دیتے ہیں، عجیب و غریب دیومالائی داستانوں میں، ایسی باتوں میں جنہیں وہ کرشمہ و کرامات کہتے ہیں۔ پھر بھی پوچھ لیتا ہوں۔ جواب ویسا ہی الجھا ہوا ملتا ہے،
”یہ انوکھی دنیا ہے۔ یہاں سب حقیقت ہے اور سب مجاز۔ یہاں جسے بھی چھونا چاہو وہ موجود ہی نہیں لیکن سب نظر آتا ہے۔“
”کیا میں اسے صرف خیال ہی نہ سمجھ لوں؟“
وہ کیا کہہ رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتی۔ بے سر و پا باتیں، لیکن ہم اسے سننے اور ماننے پر مجبور ہیں۔
میں اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ حقیقت، جیسا کہ تم جانتی ہو صرف دماغ کے اندر موجود ایک خاکے پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ یہ ایک سوچ ہے، ایک تصور ہے۔ بار بار ایک ہی چیز کے بارے میں سوچنے، ورد کرنے سے خیال حقیقت جیسا لگنے لگتا ہے۔ جیسے اوپر صرف خلا ہے لیکن کہا جاتا ہے اس میں دیوتا بستے ہیں اور حقیقت لگتے ہیں۔ ”
”تم ہمیں یہاں سے باہر جانے کا راستہ بتا سکتے ہو؟“
”یقیناً۔ لیکن تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔“
”کیا؟“
”بس ایک یاد داشت ادھر چھوڑ جاؤ تو باہر جا سکتے ہو۔“
”کون سی؟“
”کوئی اچھی سی لیکن فضول جو تمہارے کسی کام کی نہیں۔“
”مثلاً“
”پہلی محبت۔“
میرا سر گھوم جاتا ہے میں اسے کیا جواب دوں؟
میں وہ چیز کیسے چھوڑ دوں جسے میں نے پایا ہی نہیں؟
تم بھی پریشانی سے میری طرف دیکھنا شروع کر دیتی ہو۔
”تو پھر بات پکی۔“
وہ کمینہ زہریلی مسکراہت منہ پر سجائے میری طرف دیکھتا جاتا ہے۔ دروازے کی طرف اشارہ کر کے بات جاری رکھتا ہے،
”میرا خیال ہے سودا کوئی برا نہیں۔ تو پھر تمہیں باہر کا راستہ دیکھاؤں۔“
٭٭٭
تم واپسی کی فکر چھوڑ کر مجھے گھورے جا رہی ہو؟
وہ کون تھی؟
مجھے تو یاد بھی نہیں۔ بہت سوچتا ہوں تو کچھ گڈمڈ سی صورت نظر آتی ہے۔ بالکل تمہاری جیسی ہی، شاید تم ہی ہو۔
لیکن نہیں، تمہارے بارے میں تو مجھے سب یاد ہے۔
وہ پہلی ملاقات۔
سکول کے بس سٹاپ پر کھڑے، ہم چھوٹی چھوٹی بوندوں کی بارش میں بھیگ رہے تھے۔ آسمان پر تمہاری زلفوں جیسے سیاہ بادلوں کے پرے کے پرے قافلہ انداز تھے۔ سبزہ زار اور ہرے بھرے درخت بوندوں کے بوجھ سے سر جھکائے کھڑے تھے۔ حسین یوتیوں کے دیدار کے لیے دیوتا آکاش سے اتر آئے تھے۔ اس بھیگی بھیگی ہریالی میں تمہارا بھیگا حسن دنیا کے سب حسینوں کو مات کر رہا تھا۔ حسن و رعنائی کی ساری سامگری اس ایک نازک بدن میں سمٹ آئی تھی۔ تم ایک اچھوتی کونپل، ایک بن کھلا پھول، نظریں جھکائے سڑک پر گرتی بوندیں گن رہی تھیں۔
سردی کی وجہ سے تم کانپ رہی تھیں۔ میں نے اپنی جیکٹ اتار کر تمہیں پہنا دی۔ اس وقت تمہاری آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ تم کچھ کہنا چاہتی ہو لیکن شرما کر تمہارا نظریں چرا لینا پیغام دے رہا تھا کہ میں ہی پہل کروں۔
”لگتا ہے کہ ہم پہلے بھی کہیں ملے ہیں؟“
”شاید؟“
دوسری ملاقات میں تم نے میری ہتھیلی پر اپنا فون نمبر لکھ دیا۔ وہ ساری رات ہم فون پر باتیں کرتے رہے۔ تم نے اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا اور میں نے وہ سب کچھ بتا دیا جو ضروری بھی نہیں تھا۔ ہم روزانہ ملتے رہے۔ پھر تم نے مجھے ایک پرفیوم لا کر دیا۔ یہ تمہاری طرف سے محبت کا پہلا اقرار تھا۔ اس دن جب تم نے مسکراتے ہوئے خدا حافظ کہا تو میری ہڈیوں سے ٹوٹنے کی آواز ابھری تھی۔
٭٭٭
پہلی بار تم میرے گھر آئیں، میری کتابیں دیکھیں تو حیران رہ گئیں۔
تم نے یہ سب پڑھی ہوئی ہیں؟
ہاں! دیومالائی داستانیں : ان کے کردار لافانی ہوتے ہیں لیکن وہ اس دنیا کے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں جسے وہ خود فانی کہتے ہیں۔
تم نے اس لڑکے کی کہانی سنی ہو گی جس نے آسمان کی دیوی سے عشق کیا تھا۔
بے بس انسان دیوتاؤں کا پجاری لیکن استقرار قوت کے لیے برابر کوشاں، اس جستجو محبت نے ان میں حسد پیدا کر دیا۔ دیوتاؤں کو اس کی ہمسری قبول نہیں تھی۔
وقت کا دیوتا ’کرونس‘ آسمانی دیوی کو اپنے جال میں پھنسانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس کہانی کا انجام بھی تمام پریم کتھاؤں کی طرح المیہ ہی ہے۔
وقت کا دیوتا بڑا ظالم ہے۔ کرونس، رات کو آسمان پر جب اندھیرا چھا جاتا ہے، اسے قتل کر دیتا ہے۔ دیوی کے زرد خون سے برق و آتش کا فوارہ پھوٹ نکلا۔ موتیوں کی پھوار گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ چمکدار سفید اور رنگ برنگے موتی۔ جلتے ہوئے الماس و عقیق، لعل و یاقوت زمین کے آنگن میں اتر آتے ہیں۔ ان کی روشنی سے زمیں پر قوس قزح بن گئی۔ ایک ’در نجف‘ اڑتا ہوا چاند بن کر زمین کے گرد گھومنے لگتا ہے۔ امرت کے جھاگ کی طرح کی سفید چاندنی پھیلی تو وقت کا دیوتا کرونس اندھیروں کے دیوتا اریبس کے پاس پناہ گزین ہو گیا۔
”ایسا کیوں ہوتا ہے؟“
”کائنات میں ہر چیز کی ایک علت ہے اور معلول بھی۔ چاند اس لیے بنایا گیا تھا کہ لاکھوں کروڑوں سال بعد ایک دیوانہ لڑکا اس کی طرف دیکھتا رہے۔“
”وہ اس داغ دار چاند کو کیوں دیکھنا پسند کرتا ہے؟“
شاید وہ کائنات کا اکلوتا عاشق ہے اور وہ یہی بات اپنی محبوبہ کو بتاتا ہے۔ اگر وہ لڑکی اجازت دے تو چنچل ہوائیں لہرا کر اس کی زلفوں کی کوروں سے چاند کے داغ کو مٹا دیں۔ وہ محبوبہ مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانک کر اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے۔
تمہیں کہانی بہت پسند آئی تھی گرچہ تمہارا چہرہ بتا رہا تھا کہ تم اسے پوری طرح سمجھی بھی نہیں تھیں۔
٭٭٭
ایک مرتبہ تم نے لولی پاپ کے متعلق پوچھا تھا۔
”ہر وقت تم لولی پاپ کیوں چوستے رہتے ہو؟ ان سے تمہاری زبان بھی رنگی جاتی ہے۔“
”کیا یہ رنگ برا لگتا ہے؟“
”نہیں! بلکہ تمہارے ہونٹ اور دہن مزید پیارا ہو جاتے ہیں۔“ تم میرے قریب آ کر بولیں۔
پھر میں نے لولی پاپ سمیت اپنے ہونٹ تمہارے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ آہستہ آہستہ لولی پاپ بھی پھسل کر تمہارے منہ میں چلا گیا۔
کرچ کرچ کی آواز کے ساتھ تم نے اسے چبا لیا اور مزے سے کھانے لگیں۔
یہ ہمارا دوسرا بوسہ تھا۔
پہلے سے بہت میٹھا۔
٭٭٭
یہ کیا؟ تم سارا دن میرے ساتھ رہتی ہو اور پورے سات بجے واپس چل پڑتی ہو۔ ایک سیکنڈ مزید نہیں ٹھہرتی ہو۔
”مزید ایک سیکنڈ میں کیا ہو جائے گا؟“
”یہ تم بتاؤ؟“
”مزید کچھ دیر رکنے سے کیا فائدہ ہو گا؟“
”ہمارے درمیان وقت کا حساب کیوں ہے؟ تم اس پابندی سے آزاد نہیں ہو سکتیں؟“
”وقت بہت اہم ہے۔“
ساری خرابی اس کی ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ وقت سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ کچھ شروع ہوتا تھا نہ ختم۔ پھر متلون مزاج، وقت کے دیوتا، کرونس کا ظہور ہوا۔ کہاں سے؟ کسی کو نہیں معلوم۔ یہ علت و معلول کے قانون سے بالا کام تھا۔
اس کے بعد کائنات کا آغاز ہوا۔ اب اس کائنات میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ ختم نہیں ہوتا ایک شکل سے دوسری شکل میں بدل جاتا ہے۔ ہر چیز لافانی ہے۔
٭٭٭
ہم جنہیں جدائی کا ایک ایک سیکنڈ بھاری لگتا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ ہم نے کرونس کی غیر مشروط فرمانبرداری کی، نذر و نیاز چڑھاتے رہے، خدا کا حق ادا کرتے رہے لیکن وقت پھر بھی بدل گیا اور تم مجھے چھوڑ کر چلی گئیں، میری پہلی محبت کی طرح۔ تمہیں پا کر میں نے اسے بھلا دیا تھا۔ اس کرونس نے وہ مجھے یاد دلائی۔ اب دوسری بھی کھو گئی۔ میں بھی خود کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔
تمام یاد داشتوں سمیت،
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
لیکن تمہاری یاد لافانی ہے۔
کرونس نے محبت کی دیوتا کیوپڈ کے پر کاٹے تھے کہ محبت ختم ہو جائے۔ وہ تو ختم نہیں ہو سکتی۔ محبت لافانی ہے، امر ہے۔ ہر لافانی چیز کی طرح ایک شکل سے دوسری شکل میں بدل جاتی ہے۔ شکلیں بدلتے بدلتے یہ بھی خدا بن جاتی ہے۔ لیکن اس کو کھونے کے بعد ، اس کی تلاش میں یا اس کی یاد دل میں بسائے، کسی نئی شکل کے ساتھ، جیا بھی نہیں جا سکتا۔
میں ان بھول بھلیوں سے نکلنا چاہتا ہوں۔
”تو پہلی محبت بھی ادھر چھوڑ جاؤ اور مجھے بھی۔“
”نہیں چھوڑ سکتا۔ کرونس مجھے بار بار تمہاری یاد دلائے گا۔“
”پھر تم بھی ادھر ہی رہ لو۔“
کیسے؟ ہم انسان، ایک بے بضاعت سی مخلوق، جن کے دامن میں تمہاری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم، جنہیں دیوتا فانی کہہ کر دھوکا دیتے ہیں کیسے ان کی دنیا میں، ان بھول بھلیوں میں، فنا کی تلاش میں بھٹکتے رہیں گے۔
وقت بے وقت، وقت کا دیوتا ہمارے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے۔ یادیں جو کرونس دیوتا نے قید کر رکھی ہیں ان میں سے کسی ایک بھولی بسری بات کی ایک جھلک دیکھا کر غائب کر دیتا ہے اور بندہ سوچوں میں الجھ جاتا ہے، یادوں کے عذاب میں جلنے لگتا ہے۔
عذاب دینا اس کی سرشت میں شامل ہے۔
ان لافانی یادوں کو فنا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اس عذاب سے جان چھڑانے، اس علت و معلول کے چکر سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ علت اولیٰ، وقت کے دیوتا کا وجود ہی ختم کر دیا جائے۔
سو میں نے کرونس کو مار دیا۔
سید محمد زاہد