وبا اور پہلی محبت
دھیرے دھیرے رات ڈھل رہی ہے برسوں کے بعد آسمان صاف نظر آ رہا ہے۔ بچپن میں ایسی چمک دیکھا کرتے تھے پھر فیکٹر یوں، مشینوں اور گاڑیوں کے دھویں نے آسمان کی اصل شکل ہی گم کردی۔ وبا پھیلی، سب اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تو فضا بھی گم صم اور مردے کے کفن کی طرح صاف ہو گئی۔ میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑ ا بے چین و بے قرار ستاروں کی بادلوں کی ساتھ آنکھ مچولی دیکھ رہا ہوں۔ بادلوں کو ان کے چہروں پر رونق اچھی نہیں لگتی۔ جب بھی کالے بادل ان کی روشنی چھیننے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ میرے دل کی نگری میں بھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ پورے ملک پر اداسی چھائی ہوئی ہے۔ کسی پیارے کو مشکل میں دیکھ کر اپنی جان سے گزر جانے کو دل کرتا ہے۔
وہ میری پہلی محبت ہے۔
میڈیکل کے تیسرے سال میں جب ہم نے ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام کرنا شروع کیا تو میری اور اس کی دوستی ہوئی۔ پہلے دو سال اس کے بارے میں کافی کچھ سن چکا تھا۔ پوری کلاس اس کے حسن کی دیوانی تھی۔ کلاس کی عام لڑکیوں کی نسبت قد لمبا اور رنگ گورا تھا۔ کٹے ہوئے کالے سیاہ بال اس کے سر پر ہمیشہ پریشان رہتے۔ ہلکے ہلکے بھورے بال غنمہ کے سامنے رخسار نازنین پر لہک کر اس کے حسن کو دوبالا کرتے تھے۔ تیکھی ناک اورکچے ہونٹ جن پر ہمیشہ ادھوری لپ سٹک لگی ہوتی۔ ہمیشہ سکن ٹائٹ کپڑے پہنتی۔ کھلے گلے سے نوکیلی اٹھی ہوئی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں جن پرمکھن کی تہیں چڑھنے کو ترستی تھیں، جھانکتی نظر آتیں۔ چکنا بدن اور پتلے پتلے نقش بتاتے تھے کہ حسن ابھی نامکمل ہے۔
لیکن اس کا لہجہ اور اعتماد اس کی ذہنی پختگی کی چغلی کھاتا تھا۔ ہر کسی کے ساتھ فوراً کھل جاتی۔ لیکن کسی بھی لڑکے سے الجھنے سے بھی گریز نہ کرتی۔ ذرا سی بات پر بے دھڑک پھڈا ڈال کر بیٹھ جاتی۔
میں منع کرتا تو کہتی ”تم جاہل ہو، تمہیں ان لوگوں کو ڈیل کرنا نہیں آتا؟ “ میرے اور اس کے بیچ کوئی مشترک عادت نہیں تھی۔ میں دوستی میں بھی وحدانیت کا قائل اور وہ تعلقات میں بھی کفر و الحاد کی حامی۔ کسی قسم کی کوئی پابندی قبول کرنے سے منکر۔ کبھی وہ مجھ خوفناک حد تک دیوانی محسوس ہو تی اور اکثر مجھے ایسے دیکھتی جیسے پہلی بار ملے ہیں۔ راستہ چلتے چلتے ایک دم مجھے چھوڑ کر کسی اور کے سا تھ چل نکلتی اور پھر کئی کئی دن میری طرف دیکھتی بھی نہ۔
میں گلہ کر تا تو کہتی، ”میں تمہاری بیوی نہیں جو پابندیاں لگا رہے ہو۔ اور اگر کبھی ہو بھی گئی تو پھر بھی ایسی امید نہ رکھنا۔ تم گاؤں کے رہنے والے لوگوں میں یہی سب سے بڑی خامی ہے کہ ہر لڑکی کو گائے بھینس سمجھ کر ایک کھونٹے سے باندھنا چاہتے ہو۔ “ میرے دوست اکثر مجھے سمجھاتے کہ وہ تمہیں بے وقوف بنا رہی ہے۔
کالج میں ہمارا سیشن بہت تاریخی نوعیت کا تھا۔ فائنل ائیر کا پہلا پیپر دے کر ہاسٹل آئے تو خبر ملی کہ محمد خان جونیجو کی حکومت توڑ دی گئی ہے اور آخری زبانی امتحان کی تیاری کر رہے تھے، میڈیسن کا پیپر تھا، تین دن سے کمرے میں بند تھے، شام کو لنک ماڈل ٹاؤن روڈ پر دہی بھلے کھانے گئے تو پتا چلا کہ جنرل ضیا کا طیارہ تباہ ہو گیا ہے۔ میڈیکل کالج کے تمام سال افغانستان کی لڑائی جو کہ پاکستان کے اندر بھی لڑی جا رہی تھی، کے بارے میں ہم سنتے آئے تھے۔
اس لڑائی میں ہمارے کالج کی دائیں بازو کی مضبوط طلبا تنظیم مجاہدین کی حامی تھی اورمیرا بھی اس سے ہی تعلق تھا۔ میرے اور اس کے درمیان اس با ت پر بھی اختلاف تھا۔ فائنل ائیر کے امتحان کے بعد میرے دوستوں نے پروگرام بنایا کہ ہم افغانستان چلیں گے۔ اس کو پتا چلا تو غصے سے چلانے لگی، ”تو تم جہاد کرنے جا رہے ہو؟ یہ جسے تم جہاد کہتے ہو یہ سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ہے اور ہمارا ملک امریکی ڈالروں کے عوض اپنے شہریوں کو مروا رہا ہے۔
” تین سال سے میرے اور اس کے درمیان اس بات پربحث جاری تھی۔ اس دن مجھے پتا چلا کہ اسے مجھ سے کتنی محبت ہے۔ پوری رات وہ میرے پاس بیٹھی رہی۔ جوانی میں انقلاب، اسلام اور جہاد و قتال کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ رگ رگ میں ابلتا ہوا خون دوڑتا ہے۔ میرے خیال تھا کہ اب نئی ابھرنے والی مملکت اسلامیہ کو ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہوگئی اس لئے ہمیں ادھر جا کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ وہ مسلسل بولتی جارہی تھی۔ اس کی باتیں مجھے آج تک یاد ہیں کہ کیسے اس نے مجھے مضبوط دلائل کے ساتھ رو رو کر منایا تھا اور بعد میں جو کچھ اس ملک میں ہوا وہ اس کے خیالات کے عین مطابق تھا۔
اس کے بعد وہ میرے بہت قریب ہو گئی۔ لیکن اس جیسی سیلانی روح کبھی ایک جگہ نہیں ٹکتی۔ پتا نہیں کیا ہوا کہ ایک دن اپنے جیسے آزاد خیال کچھ سابق کلاس فیلوز کے ساتھ ناران چلی گئی۔ وہ تمام اس کے بارے میں عجیب وغریب باتیں کرتے تھے اور میں اسے یہ سب بتا بھی چکا تھا۔ ہفتہ دس دن کے بعد واپس آئی تو میں بہت غصے میں تھا۔
”میں تم سے شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ “
” شادی اور تم جیسے مولوی سے، میں نے اپنی زندگی خراب کرنی ہے۔
یہ کوچی سی داڑھی منڈوا لو، پھر سوچا جا سکتا ہے۔ ”
”تمہیں داڑھی اتنی بری لگتی ہے؟ “
”یہ چند بال جو تم نے اپنے سوکھے سوکھے گالوں پر سجائے ہوئے ہیں، تم انہیں داڑھی کہتے ہو۔ “
اس کے بعد میں واپس اپنے شہر آ گیا اور اس نے انیستھیزیا میں سپیشیلائزیشن شروع کر دی۔
کئی سالوں کے بعد ایک کانفرنس میں میری اس سے ملاقات ہوئی۔ پہلی بار میں نے اسے ساڑھی میں دیکھا۔ آج اس کے بال نفاست سے ترشے ہوئے تھے۔ ہونٹ بھاری بھاری ہو چکے تھے اور ان پر لپ سٹک بھی انتہائی نفاست سے لگائی گئی تھی۔ اس کے پھولے پھولے گال اور بھرا بھرا دودھ جیسا سفید گداز جسم چست ہالف بلاؤز میں ابلا پڑ رہا تھا۔ لچکیلی کمر ناگن کو مات دے رہی تھی۔
وہ میرے ساتھ والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔ میں اس کی پتلی پتلی مخروطی انگلیوں کا لمس اپنے ہا تھ کی پشت پر محسوس کر رہا تھا۔ لیکن اس کا ننگا پیٹ اور کمر میری آنکھوں میں چبھ رہے تھے۔ جو بھی اس کی طرف دیکھتا مجھے یوں محسوس ہوتاکہ وہ آنکھوں کے تیروں سے اس کے بلاؤز کو اوپر کھسکا رہا ہے۔ میں نے اس کے کندھے سے پلو پکڑ کر نیچے کر دیا۔ اس نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر کچھ سمجھتے ہوئے ہنس پڑی۔ وقفہ کے دوران میں ہال سے باہرجانے لگا تو بولی، ”کہاں چلے؟ “
”نماز“ میں نے پیچھے مڑ کر جواب دیا
”اؤ ہاں! مولوی صاحب آپ کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ لیکن نماز کے دوران یہ بھول جانا کہ میں انتظار کر رہی ہوں۔ ورنہ آپ کی نمازنہیں ہو گی۔ “
رات وہ میرے ہی کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔ دس سال گزر چکے تھے۔ وہی شوخی، وہی چنچل پن، کچھ بھی نہیں بدلا تھا، بلکہ عمربڑھنے سے اس کے حسن کے ساتھ ہر چیز میں اضافہ ہوا تھا۔ کالج کی باتیں جاری تھیں۔ ہنستے ہنستے ایک دم اٹھ کر میرے پاس آ کر میرے بالوں میں انگلیں پھیرتے ہوئے بولی
”یہ کیا؟ تم نے بھی عورتوں کی طرح اپنے بال رنگنا شروع کر دیے ہیں۔ “
”ہاں! داڑھی کے کافی بال سفید ہو گئے تھے۔ “
کھلا کھلا کر ہنس پڑی، ”اؤ ہو! تو تم بوڑھے ہو گئے ہو۔ چلو خیر کوئی بات نہیں، اب کی بار جب اسے رنگوتو مجھے بتا دینا میں رنگ بناؤں گی اور اس میں اپنی چیز بھی ملا دوں گی، پھر تم دیکھنا اس کے رنگ۔ تمہاری داڑھی کا ایک بال بھی سلامت نہیں رہے گا۔ “
اس کی باتوں نے مجھے بھی کچھ حوصلہ دیا میں نے اسے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔ اس نے میرے بازوؤں کے حلقے میں کسمسانا شروع کر دیا۔ میں ہوش کھو چکا تھا۔ وہ میرے ساتھ لگی تو یوں محسوس ہوا کہ میری چھاتی ادھڑ گئی ہے اور وہ اس میں سما چکی ہے۔ میرے ہاتھ کی انگلیاں اس کی ناف سے نیچے کی طرف اکٹوپس کی ٹانگوں کی طرح بڑھتی جارہی تھیں۔ میرے لئے وہ پہلی عورت نہیں تھی۔ میں سات سال سے شادی شدہ زندگی گزار رہا تھا۔ کئی اورلڑکیاں، عورتیں میری راتوں کی ہم سفر رہی تھیں۔ اس میں کوئی عجیب سی بات تھی، کوئی انوکھی سی چیز تھی، جس کو میں کوئی نام نہیں دے سکتا تھا۔ جوں جوں وہ کھلتی جا رہی تھی میری الجھن میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ بات بڑھنے لگی تو وہ اپنا منہ میرے جسم کے نیچے چھپا کر بولی، ”آرام سے
It ’s my first time۔ ”
میرے چودہ طبق روشن ہو گئے اور میں جلدی سے خود کو سمیٹ کر کمرے سے با ہر چلا گیا۔
اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک میرا اس سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔ پھر معلوم ہوا کہ اس نے شادی کر لی ہے۔ میں نے اسے فون کرکے مبارک دی اور پوچھا، ”کس سے شادی کی ہے؟ “
بولی ”ایک تم سے بھی زیادہ جھڈو مل گیا تھا۔ “
ملک میں وبا پھیلی تو مجھے اس کی فکر ہوئی۔ وہ اب پروفیسر آف انیستھیزیا تھی۔ ہمارے علاقے میں بہت سے ڈاکٹر اپنے ہسپتال بند کر رہے تھے۔ کئی ڈاکٹر نوکری چھوڑنے کا بھی سوچ رہے تھے۔ میں بھی بہت خوفزدہ تھا۔ روزانہ سینکڑوں مریض دیکھنا اور وہ بھی حفاظتی وردی اور ماسک کے بغیر، خطرناک ہو سکتا تھا۔ اس وبا کے مریضوں کو دم آخریں وینٹیلیٹرز پر انہی بے ہوشی کے ماہرین نے سنبھالنا ہوتا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ اموات بھی انہیں ڈاکٹرز کی ہو رہی ہیں۔ میں نے اسے سمجھایا ”تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ جاب کی فکر مت کرو، ان کے بارے میں سوچو۔ “
کہنے لگی، ”مجھے کسی نے زبرد ستی اس شعبہ میں نہیں بھیجا۔ میں اپنی خوشی سے ادھر آئی ہوں۔ اب اگر میں چھوڑ جاؤں گی تو میرے وارڈ کو کون سنبھالے گا۔ “
مجھے غصہ آ گیا، ”اور اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو تمہار ے بچے کون سنبھالے گا۔ دیکھو! میں بھی اپنا ہسپتال بند کر رہا ہوں۔ “
وہ لاجواب ہو گئی۔ زندگی میں پہلی بار۔ کافی دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر بولی۔ ”میں اچھائی برائی، نیکی بدی کی قائل ہوں اور نہ ہی مجھے ثواب طاعت و زہد کی پروا ہے۔ میرے دو سوالوں کے جواب دے دو پھر میں بھی تمہاری طرح کام چھوڑ دوں گی۔
”اگر سب کام چھوڑ دیں گے تو مریض کدھر جائیں گے؟ وہ مریض جن کے ساتھ ہمارا تیس سالہ رشتہ ہے۔ ہماری پہلی محبت۔
اور ہم کب تک کام چھوڑے رکھیں گے؟ کیا ہم ہمیشہ کے لئے اس شعبہ کو چھوڑ سکتے ہیں؟
تم تو کسی کی جنگ میں کودنے جا رہے تھے۔ ایک ایسی جنگ جو سرمایہ داروں نے اپنے مفاد کے لئے جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس وقت تمہیں شہادت اور جہاد کا شوق چڑھا ہوا تھا۔ اب جس کام میں قوم کو تمہاری ضرورت پڑی ہے، وہ کام جس کا تم نے عہد کیا تھا، تو تم بھاگ اٹھے ہو۔ ”
سید محمد زاہد