- Advertisement -

شہ نشین پر

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

شہ نشین پر

وہ سفید سلمہ لگی ساڑھی میں شہ نشین پر آئی اور ایسا معلوم ہُوا کہ کسی نے نقرئی تاروں والا انار چھوڑ دیا ہے۔ ساڑھی کے تھرکتے ہُوئے ریشمی کپڑے پر جب جگہ جگہ سلمہ کا کام ٹمٹمانے لگتا تو مجھے جسم پر وہ تمام ٹمٹماہٹیں گدگدی کرتی محسوس ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود ایک عرصہ سے میرے لیے گدگدی بنی ہوئی تھی۔ میں اس کو تقریباً دو سو مرتبہ دیکھ چکا ہوں۔ اور ان تمام درشنوں کے نقوش علیحدہ علیحدہ میرے دل و دماغ پر مرتسم ہیں۔ ایک بار میں نے اسے صحن میں تیتری کے پیچھے دوڑتے دیکھا تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ میری نگاہوں کے سامنے آئی اور گزر گئی۔ اور جب کبھی میں اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے اپنے دل میں ایک ایسے پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ جو ڈر کر ایکا ایکی اُڑجائے۔ اسی طرح ایک روز میں نے اسے شہ نشین پر دھوپ میں اپنے گیلے بال جھٹکتے دیکھا تھا۔ اور اب میں جس وقت اس تصویر کو اپنے ذہن کے پردے پر کھینچتا ہوں تو مجھے کبھی سیاہی نظر آتی ہے اور کبھی اُجالا۔ میں اس کو اتنا دیکھ چکا ہوں کہ اب میں اس کے سامنے آئے بغیر اسے جب چاہوں دیکھ سکتا ہوں۔ پہلے پہل مجھے اس کام میں دقّت محسوس ہوئی تھی مگر اب کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ ابھی کل شام کو جب مجھے ایک دوست کے یہاں بیٹھے بیٹھے اُسے دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ تو میں نے آنکھیں بند کیے بغیر اسے اپنے سامنے لا کھڑا کیا۔ وہ ہوبہو ویسی تھی جیسی کہ وہ ہے اور اس بات کا نہ میرے دوست کو پتہ چلا اور نہ اس کی بہن کو جو میرے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لیے اسے اپنے ذہن کی ڈبیا میں سے نکال کر دیکھا۔ اور فوراً ہی وہیں بند کر دیا۔ کسی کو معلوم تک نہ ہوا۔ کہ میں نے کیا کر دیا ہے۔ اس کو دیکھنے کے بعد میں نے یوں سلسلہ کلام شروع کیا۔ گویا میرا ذہن ایک لمحے کے لیے بھی غیر حاضر نہ ہوا تھا۔۔۔۔

’’جی ہاں سوکھی ہوئی مچھلیوں سے سخت بُو آتی ہے۔ نہ جانے یہ لوگ انھیں کھاتے کس طرح ہیں۔ میری تو ناک۔۔۔۔۔۔‘‘

اور اس کے بعد مختلف قسم کی ناکوں پر گفتگو شروع ہو گئی تھی۔ اس کی ناک مجھے بہت پسند ہے۔ میرے پاس ہلکے گلابی رنگ کاٹی سیٹ ہے جو مجھے صرف اس لیے عزیز ہے کہ اس کی پیالیوں کی دستی اس کی ناک سے ملتی جلتی ہے۔ آپ ہنسیں گے۔ مگر۔۔۔۔۔ ایک روز صبح کو جب میں نے اسے قریب سے دیکھا تو میرے دل میں عجیب و غریب خواہش پیدا ہُوئی کہ اس کی ناک پکڑ کر اس کے ہونٹوں کا رس پی لُوں۔ اس کے ہونٹ مجھے پیارے لگتے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ ہر وقت نم آلود رہتے تھے۔ یہ نمی ان میں سنگترے کی لڑیوں کی مانند چمک پیدا کر دیتی تھی۔ ان کے چومنے کی خواہش اگر میرے دل میں پیدا ہوتی تھی تو اس کا باعث یہ نہ تھا۔ کہ میں نے کتابوں میں پڑھا تھا۔ اور لوگوں سے سُنا تھا کے عورتوں کے ہونٹ چومے جاتے ہیں۔۔۔۔۔اگر مجھے یہ علم نہ ہوتا تو بھی میرے دل میں ان کو چومنے کی خواہش پیدا ہوتی اس کے ہونٹ ہی کچھ اس قسم کے تھے کہ وہ ایک نامکمل بوسہ معلوم ہوتے تھے۔ وہ میرے ہمسائے ڈاکٹر کی اکلوتی لڑکی تھی۔ سارا دن وہ نیچے اپنے باپ کی ڈسپنسری میں بیٹھی رہتی۔ کبھی کبھی جب میں اُسے بازار سے گزرتے ہوئے شیشوں میں سے دوائیوں کی الماری کے پاس کھڑی دیکھتا۔ تو مجھے وہ ایک لمبی گردن والی بوتل دکھائی دیتی جس میں کوئی خوش رنگ سیال مادہ اُبل رہا ہو۔ ایک روز میں ڈسپنسری میں ڈاکٹر صاحب سے دوا لینے کے لیے گیا۔ مجھے زکام کی شکایت تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اُس سے کہا۔

’’بیٹا! ان کے رومال پر یو کلپٹس آئیل کے چند قطرے ٹپکا دو۔ ‘‘

اُس نے میرا رومال لیا۔ اور الماری میں سے ایک چھوٹی سی بوتل نکال کر دوا کے قطرے ٹپکانے لگی۔ اس وقت میرے جی میں آئی کہ اٹھ کر اس کا ہاتھ تھام لوں اور کہوں۔ اس شیشی کو بند کر دیجیے اگر آپ اپنی آنکھوں کا ایک آنسو مجھے عنایت فرما دیں۔ تو میری بہت سی بیماریاں دُور ہو جائیں۔ ‘‘

لیکن میں خاموش بیٹھا دوا کے ان کے سفید قطروں کی طرف دیکھتا رہا۔ جو میرے رومال میں جذب ہو رہے تھے۔ جب سے میں نے اُسے دیکھنا شروع کیا ہے۔ میری دلی خواہش رہی ہے کہ وہ روئے اور میں اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے دیکھوں۔ میں نے تصّور میں کئی مرتبہ اس کی آنکھوں کو نمناک دیکھا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ میں اُسے سچ مچ روتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کی گھنی پلکوں میں پھنسے ہوئے آنسو بہت اچھے معلوم ہوں گے۔ چق پر سے جب بارش کے قطرے رُک رُک کر نیچے پھسل رہے ہوں تو کتنے دلفریب دکھائی دیا کرتے ہیں۔ ممکن ہے عورت کی آنکھوں میں آپ آنسو ضروری خیال نہ کریں۔ پر میں آنسوؤں کو ہٹا کر عورت کی آنکھوں کا تصّور ہی نہیں کر سکتا۔ آنسو آنکھوں کا پسینہ ہے اور مزدور کی پیشانی صرف اسی صورت میں مزدور کی پیشانی ہو سکتی ہے۔ جب اس پر پسینے کے قطرے چمک رہے ہوں۔ اور عورت کی آنکھیں صرف اسی صورت میں عورت کی آنکھیں ہو سکتی ہیں۔ جب آنسوؤں سے ڈبڈبائی رہتی ہوں۔ وہ سفید سلمہ لگی ساڑی میں شہ نشین پر آئی اور ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے نقرئی تاروں والا انار چھوڑ دیا ہے۔ ساڑی کے تھرکتے ہُوئے ریشمی کپڑے پر جگہ جگہ سلمے کا کام ٹمٹما رہا تھا۔ اور مجھے اپنے جسم پر گدگدی ہو رہی تھی۔ اس نے ایکا ایکی پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ گویا اس کو فوراً ہی اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے علاوہ رات کی خاموشی میں کوٹھے پر کوئی اور متنفس بھی ہے۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں دو موتی رول رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔۔۔۔ میرے دیکھتے دیکھتے اور قبل اس کے کہ میں کچھ کر سکوں۔ اس کی آنکھوں سے اس کے شباب کے پہلے پسینے کے قطرے چھلکے اور۔۔۔۔۔۔ سنگین فرش پر پھسل گئے۔ وہ میری خلل انداز نگاہوں کی تاب نہ لا سکے۔ وہ دراصل چپ چاپ دوسروں کو خبر کیے بغیر نوزائیدہ بچوں کے مانند تھوڑی دیر ان دو نرم و نازک پنگوڑوں میں لیٹے رہنا چاہتے تھے۔ مگر میری نگاہوں کے شور سے مچل گئے۔ وہ رو رہی تھی۔ پر میں خوش تھا۔ اس کی نم آلود آنکھیں کہرے میں لپٹی ہوئی جھیلیں معلوم ہوتی تھیں۔ بڑی پُر اسرار بڑی فکر خیز، پانی کی پتلی سی تہ کے نیچے اس کی آنکھوں کی سفیدی اور سیاہی۔ ان ننھی ننھی مچھلیوں کی مانند جھلملا رہی تھیں۔ جو پانی کے اوپر آنے سے ڈرتی ہوں۔ میں نے اس کو دیکھنا چھوڑ کر اس کی آنکھوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ جس طرح دسمبر کی سرد اور گیلی رات میں کھلی فضا کے اندر دودئیے جل رہے ہوں۔ اس کی آنکھیں دُور سے بہت دور سے مجھے دیکھتی رہیں۔ میں نے ان کی طرف بڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔ دو آنسو بنے، گھنی پلکوں میں تھوڑی دیر پھنسے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے زرد گالوں پر ڈھلک گئے۔ داہنی آنکھ میں ایک اور آنسو بنا، باہر نکلا۔۔۔۔۔ گال کی ہڈی پر تھوڑ ی دیر کے لیے اس مسافر کی طرح جس کی منزل قریب ہو، ایک لحظے کے لیے سستایا اور پھسل کر تیزی سے اس کے لبوں کے ایک گوشے کے قریب سے ہو کر آگے دوڑنے والا ہی تھا کہ ہونٹوں کی نمی نے اُسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اور وہ ایک پتلی سی دھار بن کر پھسل گیا۔ دُھلی ہُوئی آنکھوں سے اس نے میری طرف غور سے دیکھا۔ اور پوچھا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

وہ جانتی تھی کہ میں کون ہُوں۔ اور یہ پوچھتے ہُوئے کہ میں کون ہُوں۔ وہ میرے بارے میں کچھ دریافت نہ کر رہی تھی۔ بلکہ وہ یہ پوچھ رہی تھی کہ وہ خود کون ہے۔ میں نے جواب دیا۔

’’تم شیلا ہو۔ ‘‘

اُس کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک خفیف ارتعاش کے ساتھ کھلے اور وہ سسکیوں میں کہنے لگی۔

’’شیلا۔۔۔۔ شیلا۔۔۔۔۔ شی۔ ‘‘

وہ شہ نشین پر بیٹھ گئی۔ وہ تھکی ہُوئی معلوم ہوتی تھی۔ لیکن ایکا ایکی اُسے کچھ خیال آیا اور جو خواب وہ دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنے دماغ سے جھٹک کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور گھبرائے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔ مَیں ۔۔۔۔۔ مَیں۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہی تھی؟ ۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔۔ میں اچھی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں یہاں کیسے چلی آئی؟‘‘

میں نے اسے بڑے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔

’’گھبراؤ نہیں شیلا۔۔۔۔۔ تم نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔۔ ایسی باتیں نہ کہی جاتی ہیں اور نہ سُنی جاتی ہیں۔ ‘‘

شیلا نے اس انداز سے میری جانب دیکھا۔ گویا میں نے اس کی کوئی چوری پکڑ لی ہے کیسی باتیں؟ ۔۔۔۔۔ کیسی باتیں؟ ۔۔۔۔۔ کوئی بات بھی تو ہو!‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’پرسوں جب تم نیچے ڈسپنسری میں لال لال جِیب نکال کر طوطے سے کھیل رہی تھیں۔ اور تمہاری بلّوریں انگلیاں بوتلوں سے ٹکرا کر ایک عجیب قسم کی جھنکار پیدا کر رہی تھیں۔ اس وقت تم ایک نامکمل عورت تھیں۔ پر آج جبکہ تمہاری آنکھیں رور رہی ہیں۔ تم مکمل عورت بن گئی ہو۔ کیا تمہیں یہ فرق محسوس نہیں ہوتا؟ ہوتا ہے، ضرور ہوتا ہے۔ وہ چیز جو کل تھی آج تم میں نہیں ہے اور جو آج ہے کل نہ رہے گی۔ پر وہ داغ جو مسّرت کا گرم لوہا تمہارے دل پر لگا گیا ہے۔ ہمیشہ ویسے کا ویسا رہے گا۔۔۔۔۔ یہ کتنی اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ تمہاری زندگی میں ایک ایسی چیز تو ہو گی۔ جو ساری کی ساری تمہاری ہو گی۔۔۔۔۔۔ ایک ایسی چیز جس کی ملکیت پر کسی کو رشک نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔ کاش میرا دل تمہارا دل ہوتا۔۔۔۔۔ کسی عورت کا دل ہوتا۔۔۔۔۔۔ جو ایک ہی داغ کو کافی سمجھتا ہے۔۔۔۔۔ عورت کے دل کی آبادی میں کئی ویرانے سما سکتے ہیں۔۔۔۔۔ ویرانوں کا یہ ہجوم بجائے خود ایک آبادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خوش قسمت ہو۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن جس کے لیے تمہیں انتظار کرنا پڑتا۔ تم نے بہت جلد دیکھ لیا۔۔۔۔۔ تم خوش قسمت ہو۔ ‘‘

وہ میری طرف اس مرغی کی طرح حیرت سے دیکھنے لگی جس نے پہلی بار انڈا دیا ہو۔ وہ اپنے کو ٹٹولنے لگی۔

’’خوش قسمت!۔۔۔۔۔۔۔ میں خوش قسمت۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’جب پتنگ کٹ جائے اور کوٹھوں پر چڑھے ہُوئے لونڈے ڈور لُوٹنے کے لیے شور مچانا شروع کر دیں۔ تو کسی کے بتانے کی حاجت نہیں رہتی۔ کہ پتنگ کٹ گیا ہے۔۔۔۔ جو پتنگ تم نے ہوا کی بلندیوں میں اُڑایا تھا کہاں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ کل تک اس کی ڈور تمہارے ہاتھ میں تھی، پر آج نظر نہیں آتی‘‘

اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

’’۔۔۔۔۔۔۔ میں خوش قسمت ہوں‘‘

۔۔۔۔۔۔ آنسوؤں میں بھیگے ہُوئے لفظ اس کے مُنہ سے نکلے‘‘

میں خوش قسمت ہُوں۔۔۔۔۔ آپ ان لونڈوں سے جو ڈور لُوٹنے کے لیے کوٹھوں پر چڑھے رہتے ہیں، کم شور نہیں مچا رہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘

آنسو اتنی تیزی سے بہنے لگے۔ اس نے میری طرف اس بارش میں سے دیکھا اور کہا۔

’’میری آنکھوں سے آنسو نکال کر آپ کس کا حلق تر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ میں سب جانتی ہوں۔ یہ سوئیاں آپ مجھے کیوں چبھو رہے ہیں۔ ‘‘

اُس نے نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس کی عقل اس وقت اس چاقو کے پھل کی مانند تھی۔ جسے ضرورت سے زیادہ سان پر لگایا گیا ہو۔ میں نے اس سے بڑے اطمینان سے کہا۔

’’جو کچھ ہو چکا ہے۔ اس کا مجھے علم ہے۔ اور اگر اس وقت میں تم سے یہ سب بھول جانے کے لیے کہتا۔ تم سے مصنوعی الفاظ میں ہمدردی کرتا۔ مداریوں کے مانند ایک ہاتھ میں تمہارا درد، تمہارا سارا غم لے کر چھُو منتر کے ذریعے سے غائب کر دیتا۔ تو تم یقیناًمجھے اپنا دوست مانتیں، پر میں ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔ دل تمہارا ہے اور جو بھی اس پر گزرا ہے وہ تمہارا ہے۔ میں کیوں تمہارے دل کو اس نعمت سے محروم کروں، کیوں تمہیں اس درد کو بھول جانے کے لیے کہوں جو تمہارا سرمایہ ءِ حیات ہے۔ اسی درد پر اسی دُکھ دینے والے واقعہ پر جو بیت چکا ہے تمہیں اپنی زندگی کے آنے والے دنوں کی بنیادیں استوار کرنا ہوں گی۔۔۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولتا شیلا، پر اگر تم چاہتی ہو تو تمہاری تسکین کے لیے میں یہ بھی کر سکتا ہوں۔ بولو میں کیا کہوں؟‘‘

یہ سُن کر اس نے تیزی سے کہا۔

’’مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں‘‘

’’میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ایسے حالات میں کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہُوا کرتی۔۔۔۔۔۔ آگ کے اندر کودنے والے کھیل میں ہدایت دینے والے کی کیا ضرورت؟ ۔۔۔۔ پریم کی ارتھی کو دوسرے کے کاندھوں سے کیا سروکار، یہ لاش تو زندگی بھر ہمیں اپنے ہی کاندھوں پر اُٹھائے پھرنا ہو گی۔۔۔۔۔۔‘‘

وہ بیچ میں بول اُٹھی۔

’’اُٹھاؤں گی۔۔۔۔۔ آپ کو اس سے کیا۔۔۔۔۔۔ ایسی ایسی بھیانک باتیں سُنا کر آپ مجھے کس لیے ڈرانا چاہتے ہیں!۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے محبت کی۔۔۔۔۔ اور کیا میں اب بھی اُس سے محبت نہیں کرتی!۔۔۔۔۔۔ اُس نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ میرے ساتھ فریب کیا ہے، پر یہ فریب اور دھوکا بھی تو اُسی نے دیا ہے جس سے میں محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ اُس نے میری زندگی برباد کر دی ہے۔ مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔ لیکن پھر کیا ہُوا۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک بازی کھیلی اور ہار گئی۔۔۔۔۔ آپ مجھے ڈرانا چاہتے ہیں، مجھے طعنے دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے، جسے اب موت تک کی پروا نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ میں نے موت کا نام لیا ہے اور۔۔۔۔۔۔ دیکھیے آپ کے بدن پر کپکپی دوڑ گئی ہے، آپ موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر میری طرف دیکھیے میں موت سے نہیں ڈرتی!‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا، اُس کے لبوں پر ایک زبردستی کی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی پتلی تہ کے نیچے ایک عجیب قسم کی روشنی جل رہی تھی۔ اور وہ خود کانپ رہی تھی ہولے ہولے۔ میں نے دوبارہ اس کو غور سے دیکھا۔ اور کہا۔

’’موت سے ڈرتا ہُوں۔ اس لیے کہ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ تم موت سے نہیں ڈرتی، اس لیے کہ تمہیں زندہ رہنا نہیں آتا۔ جو شخص زندہ رہنے کا سلیقہ نہیں جانتے۔ اُن کے لیے زندہ رہنا بھی موت کے برابر ہے۔۔۔۔۔ اگر تم مرنا چاہتی ہو تو بڑے شوق سے مر جاؤ۔ ‘‘

وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگی۔ میں نے کہنا شروع کیا۔

’’تم مرنا چاہتی ہو۔ اس لیے کہ تم سمجھتی ہو کہ دُکھ کے اس پہاڑ کا بوجھ جو ایکا ایکی تم پر ٹوٹ پڑا ہے۔ تم سے اٹھایا نہ جائے گا۔۔۔۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔۔۔۔ جب تم محبت کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ تو اس کی شکست کے صدمے برداشت کرنے کی بھی قوت رکھتی ہو۔۔۔۔۔ وہ لذّت وہ حظ وہ مسّرت جو تم نے اس سے محبت کرکے حاصل کی، تمہاری زندگی کا عرق ہے اسے سنبھال کر رکھو۔ اور باقی تمام عمران چند گھونٹوں پر بسر کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مرد جس سے تم نے محبت کی، اتنا ضروری، اتنا اہم نہیں ہے، جتنی کہ تمہاری محبت ہے، جو اس سے تم کو ہے۔۔۔۔۔ اس مرد کو بھول جاؤ، لیکن اپنی محبت کو یاد رکھو، اس کی یاد پر جیو۔۔۔۔۔۔۔ ان لمحات کی یاد پر جن کو حاصل کرنے کے لیے تم نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی شے توڑ ڈالی۔۔۔۔۔۔ کیاتم ان لمحات کو بھول سکتی ہو، جس کی قیمت میں تم نے ایک بیش بہا موتی بہا دیا ہے۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مرد ایسے لمحات کو بھول سکتا ہے بھول جاتا ہے۔ اس لیے کہ اُسے کوئی قیمت ادا نہیں کرنا پڑتی۔۔۔۔۔۔ پر عورتیں نہیں بھول سکتیں۔ جنھیں چند گھڑیوں کی فرصت کے لیے اپنی ساری زندگی چکنا چُور کر دینا پڑتی ہے۔۔۔۔۔ تم مرنا چاہتی ہو!۔۔۔۔۔ کیا تم اس سرائے میں اتنے مہنگے داموں پر کمرہ اٹھا کر بھی اس کو چھوڑ دینا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔ زندہ رہو۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں اس زندگی کو استعمال کرو۔ ہمیں مرنا ضرور ہے۔ اسی لیے زندہ رہنا بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

میری باتوں نے اس پر تھکان سی طاری کر دی۔ وہ نڈھال ہو کر شہ نشین پر بیٹھ گئی اور کہنے لگ۔

’’میں تھک گئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’جاؤ، سو جاؤ۔۔۔۔۔ آرام کرو اور دوسری مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود میں ہمت پیدا کرو۔۔۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر میں چلنے ہی کو تھا۔ کہ مجھے دفعتاً ایک خیال آیا اور اس خیال کے آتے ہی تھوڑی دیر کے لیے میرا دل بیٹھ سا گیا۔ میں نے سوچا اگر اس نے اپنے آپ کو مار لیا تو۔۔۔۔۔ اور یہ سوچتے ہوئے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ مجھ میں ایک چیز کی کمی ہو جائے گی۔ چنانچہ میں پلٹا اور اس کے قریب جا کر اس سے التجائیہ لہجے میں کہا۔

’’شیلا! میں تم سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔‘‘

شیلا نے گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا۔

’’دیکھو شیلا، میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ خودکشی کے خیال سے باز آؤ۔۔۔۔۔ تم زندہ رہو، ضرور زندہ رہو۔ ‘‘

اُس نے میری بات سُنی اور پوچھا کیوں۔ ‘‘

’’کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تم مجھ سے کیوں پوچھتی ہو شیلا؟ تمہارا دل اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تم سے التجا کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اور نہ مجھے اپنے آپ سے کوئی شکایت ہے۔۔۔۔۔ بات یہ ہے۔ کہ میں نے جو بات شروع کی تھی۔ اب اُسے اختتام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ میں خود غرض ہوں۔۔۔۔۔ ہر انسان خود غرض ہے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے التجا کر رہا ہوں کہ تم نہ مرو، جؤ۔۔۔۔۔۔ یہ خود غرضی ہے۔۔۔۔۔۔ تم زندہ ہو گی تو میری محبت جوان رہے گی۔۔۔۔۔۔ تمہاری زندگی کے ہر دور کے ساتھ میں اپنی محبت کو وابستہ دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ پر تمہاری اجازت سے۔۔۔۔۔۔۔‘‘

وہ دیر تک سوچتی رہی۔ وہ اب زیادہ سنجیدہ ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد اُس نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔

’’مجھے زندہ رہنا ہو گا۔ ‘‘

اس کے اس دھیمے لہجے میں عزم کے آثار تھے۔ اس تھکی ہوئی جوانی کو اونگھتی ہوئی چاندنی میں چھوڑ کر میں نیچے اپنے فلیٹ پر چلا آیا اور سو گیا۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شہزاد نیّرؔ کی ایک اردو نظم