اختر شیرانیاردو افسانےاردو تحاریر

نپولین کی محبوبہ

ایک افسانہ از اختر شیرانی

نپولین کی محبوبہ

نپولین ملک پر ملک مسخّر کرتا اور فتح کے پرچم اُڑاتا مصر پہنچ چکا تھا کہ یکایک برطانوی بیڑے نے فرانسیسی جہازوں کا محاصرہ کر کے اُنھیں بے کار کر ڈالا اور یورپ کا فاتحِ اعظم کچھ عرصہ کے لیے مصر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہنے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن نپولین نے جیسی بے قرار طبعیت پائی تھی ویسے ہی قدرت کی طرف سے اُس کے لیے سامان ہو جاتے تھے۔ اگر جنگ کا دیوتا تھوڑے دنوں کے لیے مہلت دیتا تو کام دیو آن موجود ہوتا اور نپولین ملکی فتوحات کی جگہ نسوانی دلوں کی تسخیر میں مشغول ہو جاتا۔
بیکاری کے دنوں میں نپولین قدرتی طور پر بہت بے قرار تھا۔ مصر کے ایک عرب سردار نے شہنشاہ کی خوشنودی کے لیے چند حسین کنیزیں منتخب کر کے اُس کی خدمت میں تحفہ بھیجیں۔ لیکن اُن میں سے کوئی نپولین کو پسند نہ آئی۔ اِس لیے سب کی سب واپس کر دی گئیں۔ اُن کا حسنِ ملیح۔ گدرایا ہوا جوبن، ناز اور کرشمے بے شک بہت دل کش تھے۔ لیکن اُن کی کمر کی لچک مغربی تتلیوں کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی اور یہ عیب نفاست پسند شہنشاہ کی نظر میں بہت بڑا تھا۔
آخر قدرت نے نپولین کے دل کی تسکین کا سامان کر دیا۔ ایک دن قاہرہ کے بازار میں ایک نوجوان فرانسیسی حسینہ نظر پڑی جسے دیکھتے ہی شہنشاہ کا صبر و قرار جاتا رہا۔ حسینہ گھوڑے پر سوار تھی۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو نپولین نے اپنے جرنیل سے پوچھا۔ "یہ عورت قاہرہ کیسے آ گئی؟ ”
جرنیل سب کچھ سمجھ چکا تھا۔ عرض کی کہ یہ ایک لفٹنٹ کی بیوی ہے اگرچہ حضور نے حکم دے رکھا تھا کہ کوئی سپاہی اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جائے مگر یہ مردانہ لباس میں یہاں آ پہنچی۔ اِس کی پوشیدہ آمد کا راز آج سے چند روز پہلے کسی کو معلوم نہ تھا۔
نپولین کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ "اتنی دلیری۔ اُف کتنی خوبصورت ہے یہ! ”
دوسرے ہی دن میڈم فورے حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک دعوتی کارڈ پڑھ رہی تھی۔ جو اُسے جرنیل کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ شام کو خاوند سے ذکر کیا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ کہنے لگا:۔
میں تمہیں ہر گز اِس دعوت میں شریک ہونے کی اجازت نہ دوں گا۔ اگر بلانا تھا۔ دونوں کو بُلاتے۔ تمہیں بُلا لینا اور مجھے نظر انداز کر دینا میری کھلی ہوئی توہین ہے۔ ”
لیکن میڈم فورے خاوند کی ہم خیال نہ تھی۔ اُس کے نزدیک یہ ایک غیر معمولی عزّت تھی۔ اِس لیے وہ اِس موقع کو ہاتھ سے کھو دینے کے لیے تیار نہ تھی۔ اُس کے علاوہ نا جائز اولاد اور خوب صورت عورت عام طور پر چنچل اور ضدی ہوتی ہے میڈم فورے بھی ایک کنواری ماں کی بیٹی تھی۔ اِس لیے اُسے اپنے خاوند کا یہ رویّہ بہت برا معلوم ہوا اور وہ منع کے باوجود دعوت میں چلی گئی۔
جب وہ اپنی شوخ نگاہوں سے دیکھنے والوں کے دلوں کو برماتی اور مُردہ دل زاہدوں کے سینوں میں ہلچل پیدا کرتی ہوئی جرنیل کے مکان پر پہنچی تو وہاں جرنیل۔ اُس کی بیوی اور تین دوسرے مہمانوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ میڈم فورے پردیس میں عیش و مسرّت کا یہ موقع پا کر بہت خوش تھی۔ اتنے میں یکایک دروازہ کھلا اور سب کے سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میڈم فورے نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو فرانس کا بادشاہ اور یورپ کا سب سے بڑا فاتح ایک بے ہنگم سا سبز کوٹ پہنے اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ تو جرنیل نے بہترین فواکہ کی طشتریاں اُٹھا کر اُس کے سامنے رکھ دیں۔ لیکن وہ کہنے لگا مجھے اِن کی ضرورت نہیں۔ البتہ تمھاری خاطر سے تھوڑا سا قہوہ پئے لیتا ہوں۔
مہمان کھانے میں مصروف ہو گئے مگر نپولین ٹکٹکی لگائے میڈم فورے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پالین یعنی میڈم فورے کو بھی اِس بات کا احساس تھا کہ وہ اتنی بڑی شخصیت کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اُس کا دل بلّیوں اُچھل رہا تھا۔ لیکن کچھ دیر کے بعد نپولین چپ چاپ وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ بظاہرسب لوگ نپولین کے اِس طرح چلے جانے پر حیران تھے۔ لیکن میڈم فورے کواِس سے بہت صدمہ ہوا کیونکہ اُس نے نپولین کی توجّہ سے بہت سی اُمیدیں قائم کر لی تھیں۔
لیکن سب سے زیادہ گھبراہٹ کا اظہار جرنیل کی طرف سے ہوا۔ اُس کے ہاتھ سے قہوہ کی پیالی چھوٹ کر زمین پر گر پڑی اور اُس کے چند چھینٹے میڈم فورے پربھی پڑ گئے۔ جن کے باعث اُس کا خوش نما فراک خراب ہو گیا۔ جرنیل نے اُس سے معذرت کی۔ لیکن جرنیل کی بیوی کہنے لگی۔ تم اندر چلو۔ یہ کپڑے اُتار ڈالو۔ میں تمھیں اپنا نیا فراک دیتی ہوں وہ پہن کر جانا۔
پالین اُٹھ کر اندر چلی گئی۔ لیکن ابھی وہ مناسب کپڑوں کے متعلق غور ہی کر رہی تھی کہ نپولین کمرہ میں داخل ہوا۔ دوسرے ہی لمحے۔ اُس کی کمر کے گرد بادشاہ کے طاقتور ہاتھ حمائل تھے اور لبوں پربوسوں کا تار بندھ رہا تھا۔ اُس رات پالین بڑی رات گئے نپولین کی خواب گاہ سے نکلی۔ اُس وقت اس کے ہونٹوں پر ایک خوب صورت گیت کھیل رہا تھا۔ اور دل کی گہرائیوں میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی محبوب راز پوشیدہ تھا۔
چند روز کے بعد لفٹنٹ فورے کے سپردایک بہت بڑی خدمت کی گئی۔ اُس کے پاس نپولین کے خفیہ کاغذات تھے اور وہ شاہی جہاز میں سوارہو کرفرانس جا رہا تھا۔ لیکن اُس کی بیوی میڈم فورے کوفرانس بھیجنامناسب نہ تھا۔ اُسے سمجھادیا گیا۔ بلکہ اُسے مصر ہی میں رہنے دیا گیا۔ کیونکہ اِس میں جان کا خطرہ تھا۔ لفٹنٹ فورے اپنی اِس عزّت افزائی پر بڑا خوش تھا۔ وہ پھولا نہ سماتا تھا کہ اِس قدر اہم کام اُس کے سپرد کیا گیا ہے۔ لیکن بحیرہ روم میں ایک برطانوی جہاز نے اُس کے جہاز پر حملہ کر دیا اور توپوں کے زورسے فرانس کے شاہی جہاز پر قبضہ کر لیا۔ ذرا سی دیر کے بعدانگریزافسراُس جہاز پر آ دھمکے۔ اُن میں برطانیہ کامشہورجاسوس بارنیٹ بھی تھا۔ وہ لفٹنٹ فورے کو اپنے کمرہ میں لے گیا۔ اور وہاں کچھ ایسی باتیں کیں کہ لفٹنٹ جوش میں آ کر کہنے لگا:۔
تم جھوٹ بکتے ہو مجھے نپولین اور اپنی بیوی پر اعتبار ہے۔ تم دشمن کے جاسوس ہو۔ میں دشمن کی بات کا اعتبار کیوں کروں ؟ ”
بارنیٹ نے جواب دیا: "اگر تم چاہو تو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو۔ میرے ساتھ مصر چلو۔ وہاں اگر ذرا سی ہمّت سے کام لو تو اپنی بیوی کو اپنے بادشاہ کی آغوش میں دیکھ لو گے۔ "قاہرہ پہنچ کر بارنیٹ نے لفٹنٹ کو ایک شخص کے ساتھ کر دیا اور کہا "جاؤ اور جو کچھ میں نے کہا تھا۔ اُس کا ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ بس ذرا سی ہمّت درکار ہے۔ "لفٹنٹ نپولین کی خواب گاہ کی طرف چلا۔ پہرہ دار اُونگھ رہا تھا۔ آگے بڑھاتوفرانسیسی سپاہی بھی خواب آلود آنکھوں سے اُس کی وردی دیکھ کر مطمئن ہو گئے اور وہ سیدھاخوابگاہ کی طرف بڑھتا گیا۔
دروازہ اندر سے بند تھا۔ لیکن ایک ہی دھکّے میں کھُل گیا۔ لفٹنٹ نے دیکھا کہ اُس کی بیوی ایک آراستہ اور مکلّف پلنگ پر لیٹی ہوئی ہے۔ غصّے اور انتقام کی آگ بھڑک اُٹھی۔ چاہتا تھا کہ پستول کی ایک ہی گولی سے اِس خوب صورت ناگن کا خاتمہ کر دے لیکن پھر ارادہ بدل لیا۔ وہ اُسے اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنا چاہتا تھا اور پستول سے مار ڈالنا گویا اُس بے وفا پر رحم کرنا تھا۔ اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو ایک ہنٹر دکھائی دیا۔ وہی اُٹھا لیا اور اندھا دھُند بیوی کے برہنہ جسم پربرسانے لگا۔
پالین پہلے تو دہشت کے مارے خوف زدہ تھی لیکن پھراُس کی چیخیں نکل گئیں۔ سنتری پہرے دار دوڑے آئے لیکن دروازہ اندرسے بند تھا۔ یکایک ایک اندرونی دروازہ کھلا اور ایک شخص شب خوابی کے لباس میں اندر داخل ہوا۔ لفٹنٹ نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو نپولین تھا۔ اُس کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔ دیوانہ وار نپولین کی طرف بڑھا۔ اُسوقت اُسکے ہاتھ میں پستول تھا۔ اور لبوں پر ایک وحشیانہ مسکراہٹ۔ یورپ کا فاتحِ اعظم اور یورپی اقوام کی قسمتوں کا مالک اُس وقت ایک معمولی لفٹنٹ کے ہاتھ میں تھا۔ دانت پیستے ہوئے اُس نے کہا "یہ کتاسمجھتا ہے کہ میری بیوی کو چُرا کراُس کی محبّت پر ڈاکہ ڈال کر اور میرا آرام وسکون برباد کر کے خود عیش اُڑائے گا۔ میں ابھی مزہ چکھائے دیتا ہوں۔ ”
وہ سوچنے لگا کہ سینکڑوں لڑائیوں کا فاتح آج میرے قابو میں ہے۔ اب دو زانو ہو کر مجھ سے رحم کی درخواست کرے گا اور کہے گا کہ بہادر لفٹنٹ میرا قصور معاف کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں اِسی پستول سے اِسے کتے کی موت مار ڈالوں گا۔ ”
لفٹنٹ یہ سوچ رہا تھا۔ اور نپولین اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وقارواستقلال کی تصویر بنا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ لفٹنٹ کی نگاہیں فاتح اعظم کی نگاہوں کی تاب نہ لاسکیں۔
یہ آنکھوں کی لڑائی دراصل جبروت، قوّتِ ارادی اور استقلال کی لڑائی تھی غریب سپاہی کو شہنشاہ کی مسحورکن نگاہوں نے بے دست و پا کر دیا۔ وہ پریشان نظر آنے لگا۔ اُسے شب خوابی کے لباس میں بھی نپولین ویساہی قاہر اور خوفناک معلوم ہونے لگا جیسا میدان جنگ میں۔ اُس کے ہاتھوں سے پستول گر پڑا۔ نپولین نے فوجی انداز میں حکم دیا۔ "دروازہ کھولو۔ "لفٹنٹ نے حکم کی تعمیل کی اور چپ چاپ باہر نکل گیا۔
لفٹنٹ فورے کو موت کی سزانہیں دی گئی۔ نپولین اپنی محبوبہ کے خاوند سے مزید انتقام نہیں لینا چاہتا تھا۔ اُسے آم کھانے سے غرض تھی۔ درخت کاٹنے سے کام نہ تھا۔ وہ تو صرف پالین کے حُسنِ جہاں سوز کی بہار لُوٹنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ اُس وقت تک جب تک کہ اُس کی طبیعت کسی اور طرف مائل نہ ہو جائے۔
نپولین (فاتح اعظم یورپ) کے عشق کا یہی انداز تھا۔
(انگریزی افسانہ)

اختر شیرانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button