ایک پرانے
جانے مانے ریلوے اسٹیشن کے
ویراں
عقبی رقبی، بڑے تھڑے سے ٹیک لگائے
ماضی کی گمنام ریل کی ڈار سے بچھڑی
ہرے رنگ کی
روگی بوگی بھیگ رہی تھی۔
بوگی خلوت گاہ تھی جس کی شام کا موسم رومانی تھا۔
بھرے ہوئے اور بھری ہوئی کو کہاں خبر تھی
باہر آتے سرما کی بارش ہوتی تھی۔
مدہوشی اتری
تو بھری ہوئی نے اپنی کمر پہ الٹے ہاتھ دھرے
اور
لوہے کی پٹیوں کی کھری سیٹ کی آڑی دب سے بنے
گل رنگ نشانوں کو سہلایا۔
ذرا سا دور اک ٹیلے پر بادامی گھر تھا
آسودہ آواز میں اس کی سمت اشارہ کر کے بولی:
” کاش ہم اس کمرے میں ہوتے۔۔۔۔۔!
اس کمرے میں۔۔۔۔۔۔۔!! ”
رنگ برنگی چوڑیاں چھنکیں
اور کچھ ٹوٹا کانچ کلائی سے جھڑ کر کھڑکی کے گیلے زنگ پہ بکھرا۔
بھرے ہوئے نے باہر دیکھا:
"کس کمرے میں؟”
اس اثنا میں کسی نے اس کمرے میں دودھیا بلب جلایا۔
بھری ہوئی نے پھر کھڑکی سے ہاتھ نکالا:
"اس کمرے میں، جس میں کسی نے روشنی کی ہے”
رنگ برنگی چوڑیاں چھنکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیلے کے سر
بادامی گھر
جس کا چھلکا مگھر مہینے کی چھم دار جھڑی میں لپٹا ٹھٹھر رہا تھا
خلوت گاہ کا موسم رومانی تھا
لیکن
آتش دان میں انگارے کم، راکھ زیادہ دہک رہی تھی۔
بستر میں
دو ناآسودہ سانسوں کی تکرار سے شکنیں ٹوٹ رہی تھیں۔
گاون پہنا
اکتایا کھڑکی پر آیا اور پھر دودھیا بلب جلایا۔
ذرا سا دور
نشیب کی تازہ جھیل کے اوپر روگی بوگی بھیگ رہی تھی:
” کاش ہم اس ڈبے میں ہوتے۔۔۔۔۔! ”
اکتائی کھڑکی پر آئی
گاون کی کمخواب کمر پر رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔
اس نے اپنے الٹے ہاتھ کمر پر رکھے
خوابیدہ آواز میں پوچھا:
"کس ڈبے میں؟”
‘چوڑیوں والی عورت والے اس ڈبے میں ۔۔۔۔۔۔۔!! ‘
"لیکن وہاں تو کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔!!! ”
کھڑکی میں
کچھ ٹوٹی چوڑیوں کا چورا تھا
جس پر گیلا زنگ لگا تھا۔
وحید احمد