- Advertisement -

گہرے پانیوں والی آنکھیں !

میمونہ احمد کا اردو افسانہ

گہرے پانیوں والی آنکھیں !

یتیمی بھی کیسی عجیب سی احساس محرومی ہے، یہ محرومی بھی اپنے آپ میں بہت بڑی ہے، بڑا فرق ہوتا ہے یتیم ہونے میں اور یتیم کر دئیے جانے میں، یتیم ہو جانے میں ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی کے سرسے اچانک چھت سرک جائے اور سایہ نہ رہے، دھوپ کا کڑا احساس ہونے لگتا ہے،پاوں جلنے لگتے ہیں ایسا لگتا ہے آبلے پڑ گئے ہوں پاوں میں اور ان کی تکلیف روح کو محسوس ہو رہی ہو۔
آہ! بڑی تکلیف ہوتی ہے جب اس احساس محرومی کو بیان کرنا نہ آتا ہو اور کو ئی منتخب لفظ ذہن میں نہ آ رہا ہو، لیکن یہ احساس محسوس کراتے ہیں کہ،کچھ بکھر رہا ہوتا ہے،ٹوٹ رہا ہوتا ہے،آواز کہیں نہیں سنا ئی دیتی لیکن شور پوری روح میں مچا ہوتا ہے۔ یہی وہ شخصیات ہوتی ہیں جن سے سایہ زبردستی چھین لیا جائے۔!
مُنے کی آنکھیں یہ سب احسا س بو ل رہی ہیں اور میں ان احساسات کو الفاظ دینے کی کو شش کر رہی ہوں مجھے معلوم ہے یہ بڑا کٹھن کام ہے لیکن وہ آنکھیں مجھے مجبور کر رہی ہے اس محروم کر دینے والے زمانے اور اس سایہ فراہم کرنے والے زمانے کو یکجا کروں فرق بتاؤں جوڑنے اور توڑنے کا۔ توڑنا کتناآسان ہے، لیکن توڑنے سے روح گھائل ہو جا یا کرتی ہیں،اور جوڑنا جسم کا روح سے رشتہ بنا جاتا ہے جس میں زندگی راستے پر چلتی رہتی ہے۔
یتیم خانے بھی ان زندگیوں سے بھرے ہوئے ہیں جہاں ٹوٹے ہوئے لو گ پہنچ جاتے ہیں اور ساری عمر اپنے آپ کو جوڑنے میں لگ جا تے ہیں، ہائے توڑنے والے کیسا عجیب زخم دیتے ہیں کہ ساری عمر جوڑنے میں گزر جاتی ہے۔ اس یتیم خانے میں منا بھی انھی لوگوں میں سے ہے جس کے پاس کو ئی لفظ نہیں ہے لیکن آنکھیں سب بیان کر رہی ہیں۔ منا وہی ہے جو اپنی مر ضی سے اس یتیم خانے کی دہلیز کو پار کر کے آیا تھا۔ منا چپ چاپ ان بچوں میں جا بیٹھا اور اس کی یتیم خانے کے بچوں میں رجسٹرڈ ہو گیا۔ وہ کبھی یہ سوال نہیں کر تا کہ اس کے گھر والے کہاں ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے اس کے ماں باپ کا سہارا جب قدرت نے چھین لیا تو اس کے باقی گھر والے اس کو بوجھ نہیں اُ ٹھا سکتے،تو وہ اپنے گھر جہاں اس کے لیے کو ئی جگہ نہیں تھی یا پھر اس گھر کے مکینوں کے لیے ہی جگہ نہیں تھی تو وہ کیا خاک رہتا،ننگے پاوں وہ ایک اور شجر کی کی تلاش میں چل پڑا تھا اور اس کی منزل وہ یتیم خانہ تھا جہاں وہ اب رہنے لگا تھا۔
یتیم خانے میں جب کو ئی نیا بچہ آتا ہے تو سارے بچے اس کے ارد گر د جمع ہو جا تے ہیں شا ئد یہ ہمیں باہر کی کو ئی خبر سنائے جو ان کے کانوں کو اچھی لگے لیکن منا تو اس روز چپ تھا،بس اس کی آنکھیں گہرے پانیوں سے بھری سے تھی۔
یہ سارے یتیم تھے جن کو دنیا کے رشتوں نے اپنا نے سے انکار کر دیا تھا، دنیا کا یہ دستور بڑا ہی نرالا ہے کہ وہ بے سہاروں کو سہارا نہیں دیتی اور یہ دنیا مانتی نہیں ہے کیونکہ سچ سے آنکھیں بند کر لینا بھی اس کا دستور پرانا ہے۔ ان یتیموں نے آپس میں ہی رشتے جوڑ لیے ہیں اور وہ ایک دوسرے کا سہارا ہیں کچھ ایسے ہی
منا آ جا کھیل لیتے ہیں، بلونے آواز دی تو منا اس کے سا تھ چل پڑا اور کھیلنے میں مصروف ہو گیا، منے کی ہنسی کی آواز پورے باغیچے میں سنا ئی دینے لگی۔ دور کھڑے ہوئے میں سوچنے لگی شائد نئے مسافر نے راستہ اپنا لیا ہے اس نے اپنا سہارا چن لیا ہے۔ گہرے پانیوں والی آنکھیں آج پہلی بار مسکرا رہی تھیں۔
ان یتیم بچو ں کے خواب کو ئی بڑے نہیں چھوٹے چھوٹے خوابوں کے ساتھ یہ جی لیتے ہیں۔ اور اپنے ان سہاروں کی قدر کرتے ہیں،اور کچھ اس طرح کرتے ہیں جیسے کسی قیمتی چیز کو باہر کی دنیا سنبھال کر رکھتی ہے۔سہارے تو وہ اکیلی ذات بناتی ہیں اور ان یتیموں کا سہارا بھی آپس میں ہی اس ذات پاک نے بنا دیا تھا۔ باہر کی دنیا بہت مصروف صیح لیکن جانتی وہ بھی ہے کہ وہ جس کے پیچھے بھا گ رہی ہے وہ سراب ہے اور سراب کے پیچھے بھاگنے سے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ ہماری دنیا میں ہماری تربیت بہت ضروری ہو گئی ہے اور مثبت طریقے سے اس تربیت کو آگے دینا چاہیے۔ جانے ہم جو جمع کرنے میں لگے ہیں وہ ہمیں کیا فائدہ دے گا۔
اور یہ فائدہ بہت ساری آنکھیں جو گہرے پانیوں والی ہیں ان کو مسکراہٹ کا تحفہ دے جائے گی۔ ان کو شجر ملے گے جو بڑے سایہ دار ہوں گے۔

میمونہ احمد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از احمد آشنا