- Advertisement -

فلسفہ استقبالِ ربیع الاول

اویس خالد کا ایک اردو کالم

فلسفہ استقبالِ ربیع الاول

عالم با عمل،عظیم مذہبی سکالر عابد علی عائذ الحجازی آف شیخوپورہ کے بیان پر مغز و پر صفا سے ماخوذآج کی تحریر یقینا کئی دلوں پر لگے قفل کھولنے والی کنجی ثابت ہو گی۔فلسفی دنیا کو سمجھانے کی خاطر عالَم کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ رب کے سوا سب عالَم ہے۔اب جو ارشاد باری تعالی ہے جس کا مفہوم ہے کہ” بے شک ہم نے آپؐ کو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا”تو اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رب رحمٰن کے سوا ہر چیز اس عالَم میں داخل ہے اور آپؐ ان سب کے لیے رحمت ہیں۔یعنی عالمین آپؐ کے لیے رحمت نہیں بل کہ آپؐ عالمین کے لیے باعث رحمت ہیں۔جیسے انعام اللہ یا اکرام اللہ کے نام پر غور کریں تو اللہ پر انعام نہیں بل کہ اللہ کا اس شخص پرانعام کیا گیا اس کا معنی ہو گا۔اسی طرح رحمت بھی مصدر ہے اور اس کا معنی ہے کہ عالمین کے لیے رحمت۔اب بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں۔بعض خوشیوں کا تعلق ہمارے دل سے ہے کہ ہم نے خوشی کر لی کسی کو پتہ چلے یا نہ چلے اس سے کسی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بعض خوشیوں کا تعلق باقاعدہ اظہار کرنے سے ہے ورنہ خوشی خوشی نہیں لگے گی بلکہ الٹا اس کا غلط مطلب بھی لیا جا سکتا ہے۔

جیسے دل میں کسی بزرگ یا بڑے کی بہت عزت اور احترام ہو لیکن ان کے آنے پر ہم اپنی جگہ سے بھی نہ اٹھیں اور خوشی کا اظہار بھی نہ کریں تو کون مانے گا کہ ہم ان کی آمد پر دل سے خوش ہوئے ہیں۔بلکہ اگر ہم اپنے رویے سے خوشی کا اظہار نہیں کرتے تو ہمارے لفظ بھی جھوٹے سمجھے جائیں گے اور ہم اپنی محبت کے دعوے میں بھی مشکوک سمجھے جائیں گے۔ لفظ” استقبال” کا مطلب ہے کہ خوشی کرنا،اٹھ کے کھڑے ہونا،آگے بڑھنا،آمنے سامنے ہونا۔مد مقابل ہونا۔ اب اس کا تعلق ہے ہی اظہار کرنے سے۔بغیر کسی عذر کے بیٹھے بیٹھے منھ بسورے تو خاموشی سے کسی کا استقبال نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے تو عام معمول سے ہٹ کر خوشی کرنا ہو گی تبھی تو پتہ چلے گا کہ آنے والے کی میزبان کے دل میں قدر کتنی ہے۔ اظہار والی بات کی تائید میں ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں۔ترمذی شریف 3499: میں ہے کہ آقا کریمؐ سے پوچھا گیا کہ اَ یُّ الدُّعَاءِ اَسمَعُ ؟ کون سی دعا ذیادہ سنی جاتی ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جَوفُ اللَّیلِ الآخِرِ،وَدُبُرَالصَّلَوَاتِ المَکتُوبَاتِ۔ آدھی رات کے آخر کی دعا(یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض نماز کے اخیر میں۔اب غور کریں آدھی رات کی دعا تو مکمل تنہائی میں ہے اور ریاکاری کا ذرا سا بھی گمان نہیں نہ ہی دکھاوے کا کوئی احتمال ہے اور اس وقت کی دعا کی مقبولیت کا جو معیار ہے مقبولیت کا وہی معیار فرض نماز کے بعد کا بھی ہے جو سب کے سامنے کی جا رہی ہے،علی الاعلان کی جا رہی ہے۔سب کے سامنے سب کی جا رہی ہے۔

سب کو سنا کر کی جا رہی ہے تو پتہ چلا کہ بعض امور میں اظہار کرنا بھی قطعی مقبول ہے۔ اب ایک پہلو اور بھی قابل غور ہے کہ دین کے معاملے میں عُسر(پابندی،مشقت،سختی) بھی ہے اور یُسر(آسائش،سہولت،آسانی اور رخصت) بھی ہے۔اور دونوں ہی دین ہیں۔جہاں دین نے کہا کہ پابندی ہے تو بس اس کی تعمیل ہے اور ہر صورت میں پاسداری ہے، اب کوئی اس میں رخصت دے نہیں سکتا سوائے اس کے جو دین میں موجود ہو۔مثلا نماز پابندی سے ادا کرنی ہے بیمار ہیں تو رخصت کے مطابق بیٹھ کر،لیٹ کر،اشارے سے پڑھ لیں لیکن کوئی فقیہہ یا مفتی یا محدث یا پیر نماز معاف ہونے کا فتوی نہیں دے سکتا۔اسی طرح جن کاموں میں رخصت ہے ان میں کوئی پابند کرنا چاہے تو دین اسلام کے خلاف بغاوت ہو گی۔ایک مثال سے سمجھیے،ظہر کی فرض رکعات چار ہی ہیں اب قصرکے سوا اسے کوئی کم نہیں کر سکتا اور بڑھا تو کسی صورت نہیں سکتا کہ کوئی کہے کہ میرا دل کر رہا ہے کہ میں چھ رکعات پڑھ لوں۔ممکن نہیں لیکن نفل کی کوئی قید نہیں کہ وہ رخصت میں آتے ہیں۔جتنی جس کی روحانی قوت ہے وہ اس قدر پڑھے۔حضرت امام زین العابدینؓ ایک دن رات میں ہزار رکعت نفل پڑھتے تھے۔اب کوئی یہ نہ پوچھے کہ کہاں لکھا ہے کہ اتنے نفل پڑھو؟اسے مسئلہ ہے تو وہ دکھائے کہ کہاں لکھا ہے کہ اتنے نفل نہیں پڑھنے چاہییں۔اسی طرح قرآن کی تلاوت آتے جاتے سفر میں،اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے جب مرضی پڑھیں رخصت ہے،کوئی پابندی نہیں۔لہذا ایک بات تو طے ہے کہ رخصت کے معاملے میں فتوے لگانا نابلد افراد کا کام ہے۔اسی طرح آقا کریمؐ کی آمد کی خوشی کرنا رخصت میں داخل ہے کوئی جتنی چاہے کرے ہاں بس شریعت جن کاموں سے منع کرتی ہے ان سے مکمل اجتناب کریں۔آقا کریمؐ نے ربیع الاول میں اپنا عقیقہ مبارک کیا۔حالانکہ وہ پہلے ہی ساتویں روز ہو چکا تھا۔اب عقیقہ تو خوشی سے ہی کرتے ہیں۔اور دہرانے کا بھی کوئی حکم نہیں۔پھر آپؐ نے اس روز روزہ بھی رکھا اور شکر ادا کیا۔حضرت محدث دہلوی ؒ کی کتاب "دارلثمین” میں آپ وہ احادیث لائے ہیں جو کہ مختلف محدثین نے خواب میں آقا کریمؐ سے سنیں۔بائیسویں نمبر پراپنے والد صاحب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ربیع الاول میں تنگدستی کے باعث ایک دفعہ صرف بھنے ہوئے چنے تھے جو تقسیم کیے اور وہ آقاکریمؐ کی بارگاہ ناز میں مقبول دیکھے۔ سُبُل الھُدَی والرَّشَادِ فی سیرۃ الخَیرِالعِباد میں الامام محمد بن یوسف الصالحی الشامی لکھتے ہیں کہ فقالﷺ من فرح بنا فرحنا بہ، جو ہماری خوشی کرے ہم اس سے خوش ہوتے ہیں۔دعا کہ پروردگار ہمیں سمجھ دے اور کائینات کی سب سے عظیم ترین نعمت کی آمد پر خوشی منانے کی توفیق دے اور اسے قبول بھی فرمائے۔آمین

اویس خالد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از سید محمد زاہد