- Advertisement -

تنہائی

ایک اردو افسانہ از سمیع اللہ خان

تنہائی

کس کاپتہ کرناہے؟مرغوب کا۔اس کانمبر دیجئے ۔لیجئے،لکھئے۔وہ گھرہے ۔نہیں ۔شاید ہو۔پتہ کیجئے ۔میں گھرگیاگھرپرتالاتھا۔معلوم کیاپتہ چلا۔بچی شادی شدہ ہے۔بیٹاباہراوربیوی ساتھ چھوڑکرابدی نیندسوگئی اب مرغوب آزادامیدوارہے۔حیران ہواکہ مرغوب نے تنہائی کاٹنے کیلئے سوجتن کئے،دیواروں پر پھیلی اداسی مٹانے کیلئے شادی کی ۔مشکلات کے پہاڑکاٹے ،شادی کی پھر بچے ہوئے۔میاں بیوی نے سوچاکہ ابھی اداسی ہے پوتے ہوں ،نواسے ہوں ۔نواسے ہوئے ،پوتے ہوئے پھر بیوی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔مرغوب پھر تنہا۔میں نے سنا اورسوچا جب بالاآخر تنہاہی ہوناہے ،تنہاہی جاناہے پھر تنہائی سے فرارکیوں ؟کائنات تھی آدم نہ تھا۔آدم آیا،کائنات بستی چلی گئی،ہجوم اژدہام میں بدلالیکن تنہائی نہ گئی۔تنہاوجودمل کرکنبے بنتے ہیں اورپھرکنبے ہی تنہائی کاباعث بنتے ہیں ۔کوئی دائیں طرف سے چھوڑ جاتاہے کوئی بائیں طرف سے ۔کسی کوآسمان اچک لیتاہے کسی کوزمین کھاجاتی ہے ۔حصے میں تنہائی آتی ہے محض تنہائی۔

حضرت سرمد قتل کے بعد اپنی گردن اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے ہیں
اعتبار،خلوص،درد،محبت،الفت،تکرار،پیار،انکار،اقرار،بیمار،ناہنجار،دربار،بیمار،انار،ستار،غفار،قہار،
بہار،نہار،اصرار،اسرار،سنگھار،آرپار،کار،بے کار،درکارسب کے سب بردباربس ہم بنجار۔دردکی مالا،سجوکی خالہ ،خوشی ہویانالہ سب کچھ دوبالا۔اشکبار،نرم زار،کوہسار،ریگزار،شرمسار،تربت کاگھربار،آشایانوں کی پچکار،سنگیت کاطومارسب کے سب عیار۔گلی میں آنے دے،اندرجانے دے،باہرآنے دے،نیچے چلاجا،اوپرآجا،بول پڑ،خاموش ہوجا،دفعہ ہوجا،سینے سے لگ جا،بانہوں میں سماجا،میری نظروں میں آجاکیوں کیوں تاکہ دھوکہ کھلادے ،شام وسحرکافرق مٹادے،بانسری بجادے ،طبلاہنسادے،اینٹ پکادے،بھٹہ بجھادے،آگ جلادے ،چولہابجھادے،بتی جلا،اندھیرآ،صبح کوجانا،شام کونہ آنا،دیر سے آیاکر،وقت سے جایاکر،کسی کو نہ بھایاکر،مجھ سے قربت نہ بڑھایاکر،من کوجلایاکر،خون سکایاکر،پوروں میں تیل جلایاکر،آنکھوں میں چراغ بجھایاکر،اشرف بغدادی کے دیپ جلایاکرپھر مسمایاکر،بن پر نہ جایاکر،یوں نہ آزمایاکر،پانی میں ڈوب جایاکرمگراوپرنہ آیاکر،ہرگھڑی ستایاکرپریادنہ آیاکر،دل میں بسایاکر،گلے لگایاکر،رلایاکر،ہنسایاکر،ہواکے دوش پربکھرجایاکر،ہرجاخاک اڑایاکر،زلف کوسینے پربکھرایاکر،دوپٹہ نہ اوڑھایاکر،سرمہ کم لگایاکر،کاجل سے لڑجایاکر،شہرسے گھوم آیاکر،مگرکچھ نہ چھپایاکرکچھ نہ چھپایاکر۔خون پلاتی رہ،آنسوکھلاتی رہ،پانی میں نہاتی رہ،دودھ بناتی رہ،جو جی میں آئے کماتی رہ مگرسن !یوں تونہ ستاتی رہ۔
تیرے آنے سے ،کسی کے جانے سے ،میرے بھول جانے سے،تیرے وقت سے سجانے سے،کسی کے دوش پر گنگنانے سے ،ساقی کے اندازپرلُٹ جانے ،جام کے بہک جانے سے،رند کے مسکرانے سے،شراب کے ہوش میں آنے سے،سوئس وائن کے عقل دلانے سے گزرے زمانے کی قیمت بڑھ جانے سے خاتون صحافی کے دیر سے آنے سے اس پر گالیاں بک جانے سے ،انانزنگاکے انگولامیں جنم کے فسانے سے پندرہ سوتراسی میں پیداہونے والی کے آزادی کی خاطرلڑکرسولہ سوتریسٹھ میں مرجانے سے ہزاروں مردوں سے پیارکرکے ان کو قتل کرانے سے پرتگیزیوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے دوہزاردومیں مجسمہ نصب ہوجانے سے صدرکے ستائیسویں آزادی کے برس خراج تحسین پیش کرجانے سے لوآنڈاسٹریٹ کے نجنگاسے منسوب ہوجانے سے قومی ریزروبینک کااس کے نام کے سکے نکالنے سے انگولاکی زنانیوں کاجمعرات جمعہ کو نجنگاکے مجسمہ کے قریب شادی رچانے سے،ازابیلاآف سپین کے زندگی میں دومرتبہ نہانے سے غسل خانے گرانے سے مسلمانوں کو قتل کرانے سے عیسائیت کوبدنام کرانے سے،زیوس کی دخترآرٹیمس کا شکاری اوریان کے عشق میں گرجانے سے اپولوکادھوکے سے آرٹیمس کے ہاتھوں اوریان کاقتل کرانے سے ایکٹیان کے اندھے ہوجانے سے دیوی کوبرہنہ نظروں سے تاک جانے سے ڈر،ڈر،مر،کر،گھر،نر،بر،شر،ٹر،دھر،دھر،دھر۔قیس کے مجنوں بن جانے سے،رانجھے کے بھینسیں چرانے سے،مہینوال کے مٹی کے برتن سجانے سے،سوہنی کے گھڑے پرترکے جانے سے،مرزاکے جسم کے بہانے سے،حُرکے لوٹ آنے سے،شمرکے بدنصیب زمانے سے سے،ابن زیادکی ناک میں سانپ گھس جانے سے،یزیدکے دندان مبارک سے گستاخی کرجانے سے ،نوارکے خاوندکے لڑجانے سے نوارکی چیخ کے آسمان تلک جانے سے سرمبارک پرآسمان کے نوربرسانے سے حسین ومنی وانامن الحسین کے ثابت ہوجانے سے،تلوارکی نوک سے پانی نکالنے سے،مشکیزے کے پھٹ جانے سے،غازی کے بازو کٹ جانے سے ،تین برس کی عمر میں ہم مذہبوں کی خون کی ندی دیکھ جانے سے سیدالحرہ کے ساحلی افریقہ کے سمندرمیں بھڑجانے سے ،غرناطہ کے سقوط میں مسلم کے مرجانے سے،عبداللہ کے چابی کھوجانے سے ،ہرسوتضادکے نقارکھڑکانے سے ،وہ ہوتاہے یہ نہیں ہوتا۔یہ ہوتاہے تو وہ نہیں ہوتا۔دایاں چلتاہے توبایاں نہیں ،بایاں چلتاہے تودایاں نہیں ۔تیری سمت سے نوہے میرے سمت سے چھ۔دیوانہ ہوگاتومستانہ ہوگامستانہ ہوگاتوکبھی نہ ہرجانہ ہوگا۔مریدوں سے پوچھاکون بولے مسلم راہ گیروں نے پیٹاکہ مسلم ہواوررمضان میں کھانے پھر وہ بلھے کے پاس لگے آنے بلھے سے پوچھے کہ تم کون ہوسیانے بلھے کے ہاتھ بلندہوئے اورگرگئے مریدوں کے بلھے سے احوال پوچھے جانے سے اپنی داستان غم سنانے سے بلھے کے نعرہ مستانہ بلندکرجانے سے کچھ نہ بن کرراہگیروں سے جان چھڑانے سے ہندومسلم عیسائی سکھ سب تفریق مٹانے سے واہ بلھیاتیری زبان کے حق کہہ جانے سے، ہائے شاہ حسین سے دیوانے سے قاضی سے لڑجانے سے دورانِ امامت مسیت چھوڑ جانے سے، سرمد کے سرِ درباربرہنہ آنے سے قاضی کافتوی لگانے سے جلادکے ہاتھ سے تلوارگرجانے سے بادشاہ کاخود تلواراٹھاکرعشق کی گردن اڑانے سے پھر ہندوستان کی زمین کا کانپ جانے سے سرمدکا ہاتھ میں اپنی گردن اٹھاکرٹھمک ٹھمک کرعشق کی داستان دہرانے سے پھرمرشدکے درپرجانے سے سیڑھیاں چڑھتے جانے سے غیب کی آواز آنے سے آگے نہ بڑھ مرشدکی شان کے تقاضے سے ڈر سرمدکادوسری سیڑھی پر اپنی لاش لے کرلیٹ جانے سے مرشدکی شان منانے سے تنہاکی خاطرتنہائی کوسینے لگانے سے، کچھ بھی نہیں ہوتامیرے ہمدم حقیقت کے مان جانے سے۔
رک جا،چل پڑ،اٹھ جا،گرجا،دردسہتارہ،ظلم ظلم کہتارہ،پہاڑوں سے ٹکرارے ،سارس کی صدارے،دھول چٹارے،یزیدکے ہرکارے،حق سچ نہ چھپارے میرے پیارے تیری آس پر سب کچھ وارے ۔

از۔ سمیع اللہ خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منزّہ سیّد کی ایک غزل