- Advertisement -

سقوطِ ڈھاکہ کا مقدمہ

ایک اردو کالم از علی عبد اللہ ہاشمی

سقوطِ ڈھاکہ کا مقدمہ

سقوطِ ڈھاکہ پر ایک سیمینار میں بات کرتے ہوئے آغا شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ

"سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ دار ان گنت ہیں، لیکن ان میں انگور کا پانی اور جنرل رانی نمایاں ہیں”

چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان جنرل یحی خان ایک بدکردار اور بلانوش شخص تھا جس نے صدارتی محل کو شراب و کباب اور جنرل رانی جیسی پیشہ ور عورتوں کا اڈہ بنا رکھا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ان دنوں بالترتیب شیخ مجیب الرحمٰن (مشرقی پاکستان) اور ذوالفقار علی بھٹو (مغربی پاکستان) کیساتھ ہم آواز تھے جبکہ یحیٰ خان اور اسکے ادارے کے مفادات عوامی لیڈران کی سوچ سے متصادم تھے۔

یحیٰ خان نے بندوق کی نالی پر ایوب خان سے 1962 کا آئین معطل کرایا اور مارشل لاء لگا کر مطلق العنانی کے مزے لُوٹ رہا تھا جبکہ مجیب الرحمن اور بھٹو کے ساتھ کھڑے لوگ عوامی حکمرانی (سیاسی نظام) کیلئے جدوجہد تیز کرتے چلے جا رہے تھے۔ حالات قابو سے باہر نہ نکل جائیں لہذا بہ امرِ مجبوری یحیٰ نے 30 مارچ 1970 کو لیگل فریم ورک آرڈر ملک میں نافذ کر دیا اور بددیانتی پر مبنی اس قانون کے تحت آئین ساز اسمبلی کیلئے انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔ یہ LFO حقیقت میں یحیٰ خان کے حتمی کے تسلط کا منصوبہ تھا جسکی شرمناک شرائط کی مثال دنیا بھر میں دوسری نہیں ملتی۔ دستاویز کے مطابق LFO میں تبدیلی کا حق صرف یحیٰ خان کو حاصل تھا اور جمہوری طور پر منتخب ہوئی حکومت اسکے احکامات کی نہ صرف پابند تھی بلکہ آمر کے حکم کو چیلنج بھی نہیں کر سکتی تھی۔ بددیانتی کی حد تھی کہ متصادم تہذیبوں اور باہمی نفرت پر مشتمل اکائیوں کو صرف 120 دن میں آئین بنانے کا پابند کیا گیا جس میں ناکامی پر اسمبلی خودبخود تحلیل ہو جاتی۔ بالفرض اگر یہ اسمبلی باہمی تفرقات اور من و تُو سے اوپر اٹھ کر آئین بنا بھی لیتی تو حتمی اطلاق کیلئے وہ صدر کے اپروول کی پابند تھی۔ نامنظوری کی صورت میں اسمبلی آئین کو آمر کی منشاء مطابق ترامیم (نظر ثانی) کر کے دوبارہ اسکے آگے پیش کرتی جسے دوبارہ نامنظور کر کے وہ اسمبلیاں تحلیل کر سکتا تھا۔

بھُٹو صاحب نے سوشلسٹ منشور جبکہ شیخ مجیب نے 1970 کا الیکشن (قراردادِ لاہور 1966 کے منظور کردہ) 6 نکات پر لڑا جو درج ذیل تھے۔

١۔ 1940 کی قرار دادِ لاہور کیمطابق فیڈریشن کا قیام جس میں تمام صوبوں کی شمولیت رضاکارانہ ہوگی یعنی وہ جب چاہیں وفاق سے علیحدگی اختیار کر سکتے تھے۔
٢۔ وفاقی حکومت دفاع اور امورِ خارجہ کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کو تفویض کرے گی۔
٣۔ دونوں صوبوں میں الگ الگ کرنسی ہوگی اور ایک کرنسی کی صورت میں ایک صوبے کی آمدن دوسرے صوبے کو منتقل نہیں ہوگی۔
۴۔ ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس رہے گا اور وہ وفاق کو امور مملکت چلانے کیلئے صرف مخصوص رقم فراہم کریں گے۔
۵۔ غیر ممالک کیساتھ تجارت کرنے میں صوبے خود مختار ہوں گے۔
٦۔ دفاع کیلئے اپنی صوبوں کو علیحدہ سے ملیشیاء اور پیرا ملٹری فورسز بنانے کا اختیار ہوگا۔

یحیٰ نے اس LFO میں 1956 کے آئین سے قائم شدہ Parity یعنی دونوں حصوں کیلئے برابر نمائیندگی کو ختم کر کے بنگالیوں کے دیرینہ مطالبے تئیں 313 کے ایوان میں متناسب نمائیندگی کا اصول یعنی حصہ بالحاظ آبادی متعارف کروایا جس کے مطابق قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کو 169 جبکہ مغربی(موجودہ)

پاکستان کو 144 سیٹیں ملیں۔ مختلف وجوہات کی بناء پر صرف 300 نشستوں پر انتخابات عمل میں آئے جن میں مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 166 نشستیں جیت کر ڈالے گئے ووٹوں کا %39.2 اپنے نام کیا اور ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ مشرقی پاکستان کی 310 صوبائی نشستوں میں سے 298 سیٹوں پر کامیابی بھی عوامی لیگ کے نام رہی۔ دوسری جانب بھُٹو صاحب مغربی پاکستان میں سخت مقابلے کے بعد قومی اسمبلی کی 81 سیٹیں جیت کر دوسرے نمبر پر رہے اور کُل ووٹوں کا %18.6 فیصد حاصل کیا۔ صوبائی انتخابات میں پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی جبکہ سرحد (موجودہ کےپی) اور بلوچستان میں مارکسسٹ پارٹی ANP نے فتح حاصل کی۔

مجیب الرحمٰن نے چونکہ الیکشن ہی قراردادِ لاہور 1966 کے چھ نکات پر لڑا تھا اور ملک کی تین چوتھائی نشستوں پر کامیاب ہوا تھا لہذا وہ اس پوزیشن میں تھا کہ انہی چھ نقات کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی سے آئین منظور کروا لے جبکہ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ مجیب کے چھ نکات کو مغربی پاکستان میں ایک بھی نشست نہیں ملی لہذا آئین بناتے ہوئے مغربی پاکستان کے لوگوں کے موقف کو بھی سنا جائے۔ دونوں لیڈران میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے مگر شیخ مجیب چھ نکات سے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بھٹو صاحب چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر آمادہ تھے کہ پیرا ملٹری کی حد تک صوبائی اختیار میں کوئی مذائقہ نہیں تھا مگر الگ فوج بنانے پر انکو اعتراض تھا کیونکہ انکے بقول ایک مملکت میں دو فوجیں کیسے ہو سکتی تھیں؟ مگر مجیب الرحمٰن جو بنگالی عوام کے مسلسل استحصال کی پیداوار تھا نہ مانا۔ (وجہ یہ تھی کہ (1947 سے 1970 تک دوسرے اداروں کی طرح فوج میں بھی بنگالیوں کو پروموٹ نہیں کیا جاتا تھا اور ایوب دور تک اس بات کو یقینی بنا دیا گیا تھا کہ کوئی بنگالی فوج کے اعلی عہدوں تک نہ پہنچنے پائے)۔

اس سیاسی ابتری کا مرکزی آرکیٹیک وہی LFO تھا جس نے برابر نمائندگی ختم کر کے حصہ بقدرِ جُثہ کے نظام کے تحت 1970 کے انتخابات کروائے تھے کیونکہ بنانے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ بنگالی پاکستان بننے کے کچھ ہی مہینوں کے اندر اپنے سیاسی نمائیندوں کو ذلیل کرنے پر تلملانے لگے، اور انکے آزاد پاکستان کے خواب سے دھواں اٹھنے لگا تھا۔مثلاً 1948 میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو پورا مشرقی پاکستان انگارہ بن گیا اور مطالبہ کرنے لگا کہ اردو بنگلہ دونوں کو قومی زبان قرار دیا جائے پر ہزاروں مظاہروں کے باوجود ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ یہاں تک کہ 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالبِ علموں کے (مادری زبان کے حق میں) ایک احتجاجی مظاہرے پر گولی چلا کر ہمارے شیر جوانوں نے عبدالسلام، رفیق الدین احمد، صوفی الرحمن، عبدالبرکت اور عبدالجبار کو قتل کیا اور سینکڑوں دیگر کو زخمی کیا۔ ایسے ہزاروں زخموں کی موجودگی میں برابر نمائیندگی کے اصول کو ختم کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ بنگالی الیکشن جیت کر ایسا آئین بنائیں کہ جسے ریجیکٹ کر کے فوجی اسمبلیاں تحلیل کر دے تا کہ راوی فوج کی مُخلص کوشش اور سیاستدانوں کی نالائقی پر تا قیامت چین کی بنسی بجاتا رہے اور یہی LFO کا درپردہ مقصد تھا۔ افسوس ملک کے دو مقبول ترین لیڈروں سے طالع آزما جرنیلوں کی بچھائی ہوئی رسیاں نہ کٹ سکیں اور وہ آئین سازی کے معاملے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

دوسری طرف بدماشیہ کو یہ گمان تھا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کی طرح وہ عوام کو پیروں تلے کچل کر سدا اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہیں گے۔ انہیں اللہ کی لاٹھی اُس وقت دکھائی دی جب وہ سر میں آن پڑی۔ مظلوموں کی آہ و بکا سنی گئی اور تاریخ کا پہیہ چل گیا اور ایسا چلا کہ دونوں اکائیوں کے درمیان ہمیشہ ہمیش کیلئے تفریق کی لکیر کھینچ گیا۔ دسمبر 3 سنہ 1971 کو بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجیں گھسا دیں اور بنگالی عوام کی معیت میں محض بارہ دنوں میں ڈھاکے پہنچ گئی۔ یحیٰ خان نے سرنڈر کا حکم جاری کیا اور بے شرم جرنیل امیر عبداللہ خان نیازی نے ہنستے مسکراتے پلٹن کے میدان میں 93 ہزار سپاہیوں کیساتھ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ آوارہ و بدچلن جنرل یحیٰ خان کی ڈھٹائی اور فریب کاری کا عالم یہ تھا کہ ہماری فوج 16 دسمبر 1971 کو اسکے اپنے حکم پر بھارت کے سامنے سرنڈر چکی تھی لیکن اگلے دن مغربی پاکستان کی اخبارات کی شہہ سرخی یہ تھی کہ۔۔۔

"ہم آخری سپاہی، آخری گولی تک لڑیں گے”

یہی نہیں جب بی بی سی نے ہمارے جرنیلوں کے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کیا اور لوگ جی ایچ کیو کے باہر ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے لگے اور قریب تھا کہ اس قتنہ گھر کو آگ لگا دیں تو کہیں سے بھٹو صاحب نکل آئے اور چار گھنٹے ایک پھٹے پر کھڑے ہو کر مشتعل مظاہرین کو ٹھنڈا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ بجائے اسکے کہ بدماشیہ تا عمر بھٹو کے پاوں دھو دھو کر پیتی الٹا احسان فراموشوں نے سقوطِ ڈھاکہ کا الزم بھٹو پر ہی دھر دیا حالانکہ یحیٰ جیسا مقتدر آمر اگر انتقالِ اقتدار کی بابت مُخلص ہوتا اور شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار سونپ دیتا تو بھٹو صاحب کیا کر سکتے تھے؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
حسرت موہانی کی ایک اردو غزل