سماجی فاصلہ
نیند سونے لگی
رات رونے لگی
اپنے دامن کو پھیلائے اور بال کھولے ہوئے
ایک اک لمحہ
اور ایک اک ساعت بے اماں
گویا دیوار جاں سے گذرنے لگی۔
کاسہ شب تو اشکوں سے بھرنے لگا۔
رات یوں روئی تو خود پہ ہم ہنس دیے
اور ہنسی بھی کچھ ایسی
کہ اک خواہش قرب آنکھوں سے بہتی رہی
رات جھونکوں کی سرگوشیوں میں جو کہتی رہی
ہم وہ دانستہ سنتے نہ تھے۔
رات کی تتلیوں کے وہ پر
جن پہ پرواز کرتے رہے تھے، بھسم ہو گئے۔
ایک غمگیں سحر کی گلابی اگی۔
دن کی بھٹی کا ایندھن بھڑکنے لگا
ہم پہ ہنسنے لگا۔
بے بسی سے وہی دن نبھانے لگے۔
سب یقیں، واہمے اور خدشے پس پشت ڈالے ہوئے
اور بجھے وقت کی خاک کو اوڑھ کر
رات کے آنسوؤں
اور دن کے مچلتے ہوئے قہقہوں کو بھلانے کی اندھی تگ و دو میں
جاں کو لگانے لگے
اور کہیں دور دور
ایک دوجے کو ہم
ایک دوجے کی صورت دکھانے لگے۔
مومنہ وحید