اختر شیرانیاردو افسانےاردو تحاریر

مولسری کے پھول

ایک افسانہ از اختر شیرانی

مولسری کے پھول

اُس دن کے بعد کتنی بہاریں آئیں اور چلی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
اُس وقت سے اب تک ہر بہار میں، جب بھی پھولوں کاموسم قریب آتا ہے اُس دن کے تاثّرات میری نگاہوں میں مجسّم ہو جاتے اور آنکھوں میں بے اختیار آنسوبھر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ !
بہار یا، برسات کا آغاز تھا۔ ہم حسبِ معمول اپنے مخصوص ساحلی ٹیلے پر بیٹھے ہوئے، غروب آفتاب کاسہاناسماں دیکھ رہے تھے۔ دریا کی ہلکی ہلکی دھیمی دھیمی لہریں آپس میں ٹکراتی اور چُہلیں کرتی ہمارے سامنے گزر رہی تھیں۔ کامل سکوت کا عالم تھا۔ جسے کبھی کبھی موجوں کی ٹکّریں، چرواہوں کی صدائیں یا دُور دراز کی راہوں سے آنے جانے والے چھکڑوں کی آوازیں چھیڑ دیتی تھیں۔ اِس کے سواکوئی چیز ایسی نہ تھی جس سے خیالات اور افکار کی یکسوئی و خاموشی کوٹھیس لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی آنکھیں اُفق پر جمی ہوئی تھیں اور وہ بادلوں کی قرمزی رنگ قطاروں میں محو تھا۔۔۔۔ قریب کے کھیتوں سے آنے والی، عنفوانِ بہار کے ابتدائی سانسوں کی بھینی بھینی خوشبو، ہمارے دماغوں کو مست ومسرورکر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا کے اُس پار جہاں تک نظر کام کرتی تھی، کشت زاروں کے زمرّدیں مناظراورسبزے کی وہ ابتدائی مخملی صورتیں، جو ابھی سبزہ نہ بنی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کو طراوت بخش رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی آواز میں، ہمیشہ کی طرح حسرت و غم کی تاثیر موجود تھی۔۔۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ، رُکتے رُکتے، جھجکتے جھجکتے باتیں کرتا تھا۔۔۔۔دفعتاً اُس نے اپنی نگاہوں کو اُفق سے ہٹا کر دریا کی طرف متوجّہ کر دیا اور مقابل کے ساحل پر بچھے ہوئے سبزہ زاروں کو ایک نظر دیکھ کر مجھ سے پوچھا:۔
"درختوں میں پھول آنے لگے ہونگے، اب تو۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ”
"میرا خیال ہے آس پاس کے باغوں میں تو نہیں۔ ”
"مولسری میں کب تک آئیں گے ؟ ”
"شاید بیس روز تک ”
پھر میں نے دریافت کیا:۔
"مولسری کے پھُول بہت پسند ہیں آپ کو؟۔۔۔۔۔۔ آپ نے پچھلے چند دنوں میں دو تین مرتبہ یہی سوال دُہرایا ہے۔۔۔۔۔ ؟ ”
"صرف۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کومولسری کے پھول پسند نہیں؟ کیسے خوش نما معلوم ہوتے ہیں؟
"کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔ بڑے خوبصورت۔۔۔۔۔۔ مگردوسرے پھول بھی تو کچھ کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً بیلا، ہزارہ، جوہی اور چنبیلی کے پھولوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ”
"ہاں۔۔۔۔۔۔ مگرمولسری کے پھُول۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے کچھ اسرارآلودسے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اُن کی سفیدی۔۔۔۔۔۔۔ "اور وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اصرار کیا کہ اپنی بات تو پوری کیجئے۔
"مولسری کے پھولوں سے میری زندگی کی ایک تلخ یاد وابستہ ہے۔۔۔۔۔ اجازت ہو تو عرض کروں۔۔۔۔۔۔۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔ اُس کا لہجہ پہلے سے زیادہ گہرا اور غم انگیز ہو گیا۔
"ہماری شادی کو ایک سال گزرا تھا ہمارے ازدواجی تعلّقات نہایت صمیمانہ اور بے تکلّفانہ تھے۔۔۔۔۔ بدقسمتی سے شادی کے چھ ماہ بعد ا اُسے ایک موذی مرض نے آ گھیرا۔ اُس کے قویٰ روز بروز تحلیل ہونے لگے۔۔۔۔۔ جاڑوں کاساراموسم بیماری میں کٹا۔۔۔۔۔۔ اخیر دنوں میں کسی قدر افاقہ ہوا اور وہ سہارے کے بغیر اپنی جگہ سے ہلنے جُلنے اور چلنے پھرنے کے قابل ہو گئی۔ ہم نے اُس کا چھپرکھٹ کمرے سے نکال کر دالان میں اُس دروازے کے پاس رکھا جو پائیں باغ میں کھُلتا تھا۔ جب کبھی دروازہ کھُلا ہوتا۔ وہ پائیں باغ کی طرف دیکھتی رہتی۔ کبھی دروازے میں جا کھڑی ہوتی اور اُس کی نظریں درختوں کے ہجوم کا جائزہ لینے میں محو ہو جاتیں۔ اُن درختوں کے درمیان اور دروازے کے بالکل سامنے مولسری کا ایک شاندار درخت تھا۔ جس کی بعض شاخیں دروازے تک سایہ زن تھیں اور اِسی لیے یہی درخت دیکھنے والوں کی نگاہوں کو، سب سے پہلے اپنی طرف متوجّہ کر لیتا تھا۔ وہ مولسری کے پھولوں کو خصوصیت کے ساتھ بہت پسند کرتی تھی اور اُس کی دلی آرزوؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جب مولسری کے پھُول کھلنے لگیں تو وہ اپنی ماں اور بہنوں کو بلائے اورسب مل جل کراِس درخت کی گھنیری چھاؤں میں برسات کی رنگ رلیاں منائیں۔ جھولا جھولیں اور ملہار گائیں۔۔۔۔۔ جب کبھی دروازہ کھُلا ہوتا وہ مولسری کے درخت کی طرف ٹکٹکی باندھ لیتی اور بار بار مجھ سے دریافت کرتی:۔
"مولسری میں پھول کب آئیں گے ؟ ”
میں جواب دیتا۔ "چند رو ز تک۔۔۔۔۔۔۔ ”
اور وہ حسرت بھرے لہجے میں دریافت کرتی۔ "کیا میں اُس وقت تک زندہ رہوں گی؟ "یہ کہتے ہوئے اُس کی غزالی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے اور اُس کے بیماری زدہ مگر ماہتابی رُخساروں پر بہہ نکلتے۔ اِس پروہ اپنے تاثّرات کو مجھ سے چھُپانے کے لیے آنچل سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیتی۔۔۔۔۔۔۔ راتوں کو اکثر جب میں اُس کابخارسے جلتا ہوا ہات اپنے ہات میں لیے اُس کی پائنتی پر بیٹھا ہوتا، بخار کے ہذیانی عالم میں بے اختیاراُس کی زبان سے بار بار یہی جملہ نکلتا۔
ہوش کی حالت میں بھی، مایوسی کی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے، اپنی لرزتی ہوئی کمزور آواز میں مجھ سے پوچھا کرتی۔
"مولسری میں پھُول کب آئیں گے "؟
اُس وقت اُس کی آواز میں ایسا تاثّر اتنا درد اور اِس درجہ حُزن ہوتا کہ میں اپنے سینے کو شق اور دل کو پارہ پارہ ہوتامحسوس کرتا۔۔۔۔۔۔ اُس کی نوجوانی اور ناتوانی سے ہر اپنے پرائے کا جگر خون تھا۔۔۔۔۔۔
آفتاب طلوع ہونے والا تھا کہ میں اُس کے چھپرکھٹ کے قریب گیا۔ وہ جاگ رہی تھی۔ میں نے اُس کی نبض دیکھی۔ بڑی آہستہ رفتار سے چل رہی تھی۔ تنفّس میں بھی ایک خاص قسم کی تنگی اور گرفتگی موجود تھی۔ اُس کی آنکھیں گھبرائی ہوئی سی اِدھر اُدھر نگراں تھیں۔
میں آہستہ سے اُس کے پاس بیٹھ گیا۔ اُس نے اپنے کمزور لرزتے ہاتھوں سے میرا ہات تھام لیا اور اپنے ہونٹوں سے چھوتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ کسی قدر غیر مفہوم اور شکستہ و بے ربط الفاظ میں۔۔۔۔۔۔ مولسری کے پھولوں والا۔۔۔۔۔۔۔ فقرہ دُہرایا۔ اُس نے دُہرایا یا شاید غیر ارادی طور پر ادا ہوا۔ اُس کی آنکھوں میں غیر معمولی اور غیر قدرتی چمک تھی اُس کی پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کے قطرے اُبھر آئے تھے۔ ایک رقّت انگیز اور فریاد آمیز اندازسے اُس نے اپنے کانپتے ہوئے ہات میری گردن میں ڈال دیے۔ سیاہ درخشاں آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے اُبل پڑے۔ نازک و ناتواں ہونٹ ہلے۔۔۔۔۔ اور تھرتھراتے ہوئے کچھ یونہی سے کھُلے۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ "ماں ‘‘۔۔۔۔۔ "بہن ‘‘۔۔۔۔۔ اور کچھ ایسے لفظ جیسے "مولسری ‘‘۔۔۔۔۔ درخت اور "پھول "اُسکی بانہیں ڈھیلی پڑ گئیں۔۔۔۔۔ اور آہستہ آہستہ میری گردن سے جدا ہو کربسترپرجاگریں۔۔۔۔۔۔آخری لفظ جواُس کے ہونٹوں سے نکلا "اللہ "کا غیر فانی نام تھا۔۔۔۔۔ اُس کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔ ایک حرف تک نہیں۔۔۔۔۔ کچھ کہے سنے بغیر۔۔۔۔ کوئی اشارہ کیے بغیر۔۔۔۔۔ نہ تشنّج کی علامتیں۔۔۔۔۔۔ نہ جانکنی کی زحمتیں۔۔۔۔۔۔ اور وہ رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ قیامت تک کے لیے !
_____________________
عصر کے قریب اُس کو سپردِخاک کر کے گھر پہنچا۔ آہستہ سے اُس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ در و دیوار پراداسی طاری تھی۔۔۔۔۔۔۔ دالان میں آیا۔ گزرے ہوئے دنوں کی طرح، آج بھی چاروں طرف ایک غم انگیزسکوت طاری تھا۔۔۔۔۔ غم انگیز اور ماتم آمیز!۔۔۔۔۔ پائیں باغ کا دروازہ کھولا۔ درختوں پر نظر پڑی۔ اُن شاخوں پر۔۔۔۔۔۔۔ مولسری کی اُن شاخوں پر، جو دروازے تک پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔ اور دیکھا۔۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ مولسری کی شاخوں کے عین وسط میں، ایک تازہ پھول کھِلا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ برسات کی پہلی بوند کی طرح۔۔۔۔۔۔ سورج کی اولّین کرن کی طرح۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ بہار کی آنکھ کے آنسو کی طرح۔۔۔۔۔۔۔ ! ”
میراساتھی خاموش ہو گیا۔۔۔۔۔ وفورِ جذبات نے اُسے زیادہ کچھ کہنے نہ دیا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے تھے۔۔۔۔۔۔ آفتاب غروب ہو چکا تھا۔ اُفق پر تاریکی پھیل رہی تھی۔ درختوں کے تنے دیو قامت راز آلوداورپُراسرارسے دکھائی دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ہوا میں سردی یا اول سردی محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔۔ ہم اپنی جگہ سے اُٹھے اور جب اپنے گھر جانے لگے تواُس نے دریافت کیا۔
کیا اِس سال مولسری کے پھولوں کی بہار دیکھ دسکوں گا؟ ”
۔۔۔۔۔۔ چند روز بعد مجھے ایک ضرورت سے پردیس جانا پڑا۔ ایک ہفتے کے بعد جب میں لوٹا تو میں نے دیکھا کہ مولسری کے درختوں پر پھولوں نے چھاؤنی چھا رکھی ہے۔ کوئی چھوٹا بڑا درخت ایسا نہ تھا جو پھولوں میں غرق نہ ہو۔۔۔۔۔۔ مگر میرے ساتھی کا کہیں پتہ نشان نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ کہاں چلا گیا؟ !۔۔۔۔۔۔۔ نہیں معلوم۔۔۔۔۔۔ زمین کھا گئی یا آسمان!
اِس واقعے کو گزرے کئی سال ہو چکے۔ مگرہرسال، جب بھی برسات آتی اور مولسری کے درختوں میں پھول کھلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا وہ ساتھی اور اُس کا قصّۂ غم یاد آتا ہے اور کچھ دیر کے لیے مغموم کر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ !
آہ مجبور انسان۔۔۔۔۔۔۔۔ !
کون جانے، اب کے برس مولسری کے پھولوں کی بہار دیکھنی میری قسمت میں بھی لکھی ہے یا نہیں؟ ؟ ؟
(فارسی سے )

اختر شیرانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button