- Advertisement -

مذاق کرنا یا مذاق اڑانا

محمد یوسف برکاتی کا کالم

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اکثر و بیشتر دوستوں کی محفل ہو رشتہ داروں کی گیدرنگ ہو یا گھر والے جمع ہوں تو ایک دوسرے سے مذاق کا سلسلہ رہتا ہے اور اگر کسی کی کوئی بات یا کسی پرانی حرکت کا ذکر نکل آئے تو اس کی شامت آجاتی ہے اور وہاں موجود تمام لوگ اپنی مذاق کا نشانا اس کی طرف موڑ دیتےہیں اور اس کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے آج کی اس تحریر میں ہم یہ دیکھیں گے کہ شریعت میں مذاق کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اور مذاق اڑانے کا کیا حکم ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کسی نے ایک مولانا صاحب سے سوال کیا کہ اگر نماز کی حالت میں میرے سامنے شیر آ جائے تو میں اپنی نماز مکمل کروں یا توڑ دوں ؟ مولانا نے جواب دیا اگر تمہارا وضو باقی رہ جائے تو نماز مکمل کر سکتے ہو کیا اس قسم‌کا مذاق کر سکتے ہیں ؟
ایسا مزاح اگر ایسے آدمی سے کیا جائے جو عمر میں بڑا نہ ہو اور جو ایسی بات کو اپنی توہین نہ سمجھے یعنی بالعموم جس سے ہلکا پھلکا مذاق و مزاح چلتا ہو تو ایسی صورت میں ایسا کہنا جائز ہے لیکن اگر حساس آدمی ہو یا بزرگ ہو تو ایسی بات کہنا ہرگز جائز نہ ہوگا.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مذاق اڑانے سے تنبیح کرتے ہوئے اللہ تعالی نے قران مجید کی سورہ الحجرات کی آیت نمبر 11 میں فرمایا کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ۔
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔ اے ایمان والون نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجیب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کرے تو وہی ظالم ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اب سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ مزاق کرنا اور مذاق اڑانا میں کیا فرق ہے اور ان میں کس کی کہاں تک اجازت ہے اور کہاں تک نہیں اگر کسی فرد واحد کی طرف اس طرح کی بات کرنا کہ اسے برا نہ لگے اور دوسرے بھی لطف اندوز ہوں اسے مذاق کہتے ہیں اور مذاق اڑانے کا مفہوم امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ
تمسخر کرنے یا مذاق اڑانےکے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔ ( امام غزالی۔احیاءالعلوم ،جلد سوم صفحہ ۲۰۷)
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” یاد رکھو جب تک اپنی نجات کا یقین نہ ہو تب تک کسی گنہھگار کا مذاق نہ اڑائو ” ایک مسلمان کے لئے جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور مال کو نقصان پہنچانا حرام قرار دیا گیا ہے بلکل اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی ناجائز ہے عزت اور آبرو پر حملہ کرنے کے کئی طریقے ہیں ان میں ایک طریقہ کسی کی مذاق اڑانا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اگر مذاق اس طرح کیا جائے کہ اس کا نشانہ کوئی فرد گروہ یا ادارہ نہیں ہے تو پھر یہ مذاق اڑانے کے زمرے میں نہیں آتا مثال کے طور پر یہ لطیفہ لے لیجیئے کہ
” ایک دوست اپنے دوسرے دوست سے بولا کہ یار آج تو صبح سے قسمت میرے ساتھ عجب کھیل کھیل رہی ہے وہ کیسے ؟ دوست نے ہوچھا تو کہنے لگا کہ یار صبح آنکھ دیر سے کھلی اس بات پر بیوی سے جھگڑا ہوگیا بات اتنی بڑھ گئی کہ وہ اپنے میکے چلی گئی دفتر پہنچا تو باس سے توتو میں میں ہوگئی جس پر باس نے نوکری سے فارغ کردیا۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں وہ کہنے لگا کہ دفتر سے گھر آرہا تھا تو پریشانی میں گاڑی کو ایک جگہ ماردیا اور گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا آخر زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرنے کے لئے پیپسی میں زہر ملایا تو وہ تو پی گیا ” یہاں کسی شخص یا قوم کی تذلیل کرنا مقصود نہیں تھا لہذہ یہ مذاق اڑانا نہیں بلکہ مذاق کرنا کہلائے گا لیکن اگر کوئی ایسی بات ہو جس کی وجہ سے سامنے والے کو برا محسوس ہو اور بات کا محور بھی وہی شخص ہو تو یہ مذاق اڑانے کے زمرے میں آتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں گویا یہ بات واضح ہوگئی کہ ” اگر وہ بات جس میں کسی مخصوص شخص یا قوم کی طرف اشارہ نہ ہو سامنے والے کی تذلیل یا بے عزتی کرنا مقصود نہ ہو کسی بدگوئی گالی گلوچ یا جھوٹ کی آمیزش نہ ہو غیر اخلاقی یا غیر شرعی عنصر نہ ہو وہ مذاق جائز ہے اور اگر ایسا مذاق جس میں جھوٹ شامل ہو جیسے ریحانہ نے اپنی بہن کا موبائیل مذاق میں کہیں چھپا کر رکھدیا اور پوچھنے پر کہا کہ مجھے نہیں معلوم تو یہ جھوٹ ہے لہذہ ایسا مذاق ناجائز ہے اور اس کی شرعیت میں ممانعت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔( جہنم کے خطرات،ص۱۷۳)
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اسی طرح ترمزی کی ایک حدیث میں حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو، نہ اس کا مذاق اڑائو، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو یعنی مذاق اگر پیٹھ پیچھے اڑایا جائے یا کیا جائے تو غیبت اور سامنے کیا جائے تو تمسخر کہلائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ” قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ،پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا: آؤ یہاں آؤ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا،اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکارپڑے گی تو وہ ناامیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا)۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں سورہ الحجرات کی آیت 11 میں جہاں مردوں کو دوسروں پر ہنسنے یعنی مذاق اڑانے کی تنبیح کی گئی ہے وہاں عورتوں کا بھی ذکر ہے اور انہیں بھی اس عمل سے رکنے کی تنبیح کی گئی ہے کیوں کہ
عورتوں میں ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اوراپنے آپ کوبڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ شریعت کا پاس رکھتے ہوئے بغیر گالی گلوچ اور حقارت سے بھرپور جملوں سے دور ہوکر ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ کا وہ حصہ جہاں عورتوں کا ذکر آیا ہے وہ ام المومنین حضرت صفیہ بنت حبی رضی اللہ تعالی عنہما کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ایک زوجئہ مطہرہ نے یہودی کی بیٹی کہا۔
(خازن ، الحجرات ، تحت الایتہ11 ، 129/4 )
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس واقعہ کی تفصیل میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں یہودی کی بیٹی کہا ہے تو اس پر انہیں رنج ہوا اور آپ رونے لگیں جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کو روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایا کہ تم کیوں رہ رہی ہو ؟ عرض کی کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مجھے یہودی کی لڑکی کہا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم نبی زادی ہو ، تمہارے چچا نبی ہیں ، اور تم نبی کی بیوی ہو تو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ اے حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا اللہ سے ڈرو ۔
( ترمزی ، کتاب المناقب ،حدیث 3920)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک آدمی کی نقل اتاری تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اللہ کی قسم میں میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ مجھے اس کے بدلے بہت سا مال ملے ”
(ابودائود حدیث نمبر 4875 )
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مصیبت زدہ آدمی کچھ عورتوں کے پاس سے گزرا، وہ اس پر ہنسیں اور اس کا مذاق اڑایا تو ان میں سے بعض عورتیں اسی مصیبت کا شکار ہو گئیں گویا وہ حرکت یا وہ بات جو مذاق میں کہی جائے اور دوسرے کو اس سے ایذا یعنی تکلیف پہنچے اسے برا لگے تو ایسا مذاق حرام و ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس آیت مبارکہ میں طعنہ زنی سے رکنے کی بھی تلقین کی گئی ہے کیوں ہمارے یہاں ایک دوسروں کو کسی نہ کسی بات پر طعنہ دینے کا سسٹم عام دکھائی دیتا ہے خاص طور پر یہ عمل بھی عورتوں میں زیادہ نظر آتا ہے لہذہ یہ عمل بھی جہنم کی طرف لیجانے والا عمل ہے گویا اس سے بچنے کی بھی تلقین کی گئی ہے اس کے علاوہ اس آیت مبارکہ میں برے القاب سے پکارنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے مطلب ہمارے یہاں اکثر مذاق میں کسی صحت مند آدمی کو موٹا یا کسی کو لنگڑا کہنا ایک عام سی بات ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اور ہم انہیں ان ناموں سے بلاتے بھی ہیں اور کبھی کبھارمذاق میں چھیڑتے بھی ہیں اب اگر اس شخص کو ہماری بات کا برا لگتا ہے تو ہم اللہ تعالی کے نزدیک گناہگار ہوگئے گویا ایسے القاب سے بلانے سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے اس آیت مبارکہ میں یہ بھی خبردار کیا گیاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے کسی گناہ کے عمل سے اللہ تعالی ہم سے ناراض ہوجائے اور اس کی نظر میں ہم فاسق ہوجائیں تو ہمارا کیا بنےگا ؟
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مطلب یہ کہ مومن ہوکر فاسق کہلانا کتنا برا لگتا ہے اور یہ ہی اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے ہمارے یہاں یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کوئی گناہ کیا اور بعد میں اسے احساس ہوا تو اپنے رب تعالی سے معافی بھی مانگی اور آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کی توفیق بھی مانگی لیکن اس کے ارد گرد کے لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں کہ گناہ کرکے مولانا بن گیا ہے ایک حدیث جس کے راوی ہیں حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جو شخص اپنے بھائی کو اس گناہ کا عیب لگائےجس سے اس نے توبہ کرلی ہو تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اس گناہ میں مبتلہ نہ ہوجائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں
باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ، بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ہے، اپنی نیکیاں گنوابیٹھتا ہے اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے اسی لئے کسی کو اپنے سے کمتر جان کر اس ما تمسخر اڑانا بند کردیجئے کہ یہ جہنم میں جانے کا راستہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں بدقسمتی کی بات تو یہ کہ کئی لوگ ایک دوسرے کی مذاق اڑاتے اڑاتے دین کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور یہ معاملہ فی زمانہ نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے زمانے میں بھی عام تھا جیسے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر کسی مجلس میں ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حفاظ صحابہ رضوان اللہ علیہم سے متعلق کہا : ہم نے اپنے ان قاریوں اور حافظوں سے بڑا پیٹو ، ان سے بڑا جھوٹا اور ان سے زیادہ بزدل کسی اور کو نہیں پایا ، اس مجلس میں موجود ایک صحابی نے کہا تو جھوٹ بول رہا ہے ، بلکہ تو منافق ہے ،میں اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ضرور پہنچا­وں گا ، چنانچہ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آیت نازل ہوئی سورہ التوبہ ایت 65
ولئن سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
ترجنعہ کنزالعرفان۔۔۔ اور اے محبوب! اگرآپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے کہ ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔تم فرماؤ: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے ہو۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص جس نے یہ بات کہی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی پکڑ کر دوڑ رہا تھا ، پتھر اس کے پاوں کو زخمی کررہے تھے اور وہ معذرت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا : اے اللہ کے رسول : ہم تو صرف مذاق کی باتیں کررہے تھے تو آپ علیہ وسلم وہی فرماتے جو سورہ توبہ کی آیت 65 میں آیا کہ ” کیا اللہ کی آیتیں اور اس کے رسول ہی تمہارے مذاق کے لئے رہ گئے تھے ” اور آگے آیت 66 میں فرمایا کہ ” اب بہانے نہ بنائو تم لوگ ایمان لانے کے بعد اب کافر ہوگئے ہو ” ۔( تفسیر الطبری : 6/409)
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں بلکل اسی طرح ایک ملک کے کسی مشہور وزیر سے متعلق وسائل اعلام جیسے اخبارات ، انٹرنیٹ ، ٹویٹر اور فیس بک وغیرہ میں ایک خبر چھپی کہ اس نے گذشتہ رمضان میں کسی دن وقت سے قبل مرغے کی اذان یعنی آواز پر روزہ افطار کردیا ، تو لوگوں نے ان عالیجناب وزیر سے کہا : حضرت ابھی تو اذان نہیں ہوئی آپ نے کیسے افطار کردیا ؟ اس پر وزیر صاحب کا جواب تھا : ” اذان اذان ہوتی ہے چاہے مرغے کی ہو یا مولوی کی ” ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اب یہ بات الگ ہے کہ یہ محض ایک لطیفہ ہے یا کوئی صحیح خبر لیکن ایک مسلم معاشرے کے لئے انتہائی خطرناک ہے کیوں کہ یہ مذاق کی وہ صورت ہے جس میں علمائے کرام کی متفقہ رائے کے مطابق دین سے ارتداد کی معنی میں آتا ہے کیوں کہ اگر وزیر صاحب نے فعلا یہ بات کہی ہے تو یہ ان کے بد دینی کی دلیل ہے جس سے صرف تو بہ ہی نہیں بلکہ ا ن کے لئے تجدید ایمان کی بھی ضرورت ہے، اور اگر کسی نے ان کی ظرافت طبعی اور مزاحیہ اسلوب کا استغلال کرکے ان کے نام پر یہ لطیفہ گھڑا ہے تو ایسا شخص دہرا مجرم ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ایک تو دینی امور سے استہزاء جیسے دین سے خارج کردینے والے عمل کا ارتکاب کیا ہے اور دوسرے یہ کہ وزیر مذکور کی غیبت اور ان پر اتہام کا گھناونا جرم اس سے صادر ہوا ہے جبھی تو فرمایا گیا ہے کہ
” اب بہانے نہ بناو ، یقینا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے حلانکہ لوگ وہ سارے مومن تھے اور یہ ساری باتیں انہوں نے بطور مذاق ، ہنسی اور صرف دلچسپی کے لئے کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کا عذر قبول نہ ہوا، بلکہ ان کے اس موقف پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی دیکھئے کہ یہ بات کہنے والا شخص معذرت بھی کررہا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوہ کا پٹہ پکڑے ہوئے دوڑ رہا ہے ، ننگے پیر ہونے کی وجہ سے اس کے پیر پتھروں سے زخمی ہو رہے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ کے رسول ہمارا مقصد صرف اور صرف ہنسی مذاق تھا ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی اس حدتک ہے کہ آپ صرف یہ جواب دے رہے ہیں کیا اللہ ، اس کے احکام اور اس کا رسول ہی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں” ۔ ۔۔امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں ثابت ہے کہ اللہ تعالی اور اس کی آیتوں اور حکموں اور اس کے رسول کا مذاق اڑانا کفر ہے۔
(مجموع الفتاوی : 15/48)
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مذاق دل کو گناہ پر اس طرح ابھارتا ہے جیسے پانی کھیتی کو معزز یاروں اج کی تحریر میں ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ مذاق کرنے اور مذاق اڑانے میں کیا فرق ہے ؟ یعنی شرعیت کے دائرے میں رہکر اگر ہم کسی سے ایسی مذاق کرتے ہیں کہ جس میں غیر اخلاقی ، سامنے والے کی تضخیک ، گالی گلوچ ، غیبت ، چغلی یا کوئی ایسی بات جس سے اسے برا لگے ایسا عنصر نہ ہو تو ایسا مذاق جائز ہے لیکن اگر اس کے برخلاف ہو تو وہ ناجائز و حرام کے زمرے میں آجاتا ہے لہذہ ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ ہم شریعت کے کھینچے ہوئے دائرے سے باہر نہ نکلے اور خوش طبعی سے مذاق کرتے رہیں تاکہ اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بھی نہ بنیں اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب بھی نہ بنیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ہم نے دیکھا کہ ہمیں ایک دوسرے کو طعنہ دینے سے رکنے کی بھی تلقین کی گئی ہے ایک دوسرے کو برے نام سے پکارنے کے عمل سے رکنے کی بھی تلقین کی گئی لہذہ ہمیں ان کاموں سے رکنا ہوگا اور اگر ہم سے ان میں سے کوئی گناہ سرزرد ہوگیا تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ استغفار کرنا ہوگا کیوں کہ اس آیت مبارکہ کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ جو توبہ نہیں کرتے تو وہ بڑے ظالم ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اگلی تحریر میں ان شاء اللہ ہم مزاح یعنی خوش طبعی کے مطعلق پڑھیں گے لوگوں کے ساتھ مزاح کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالی مجھے حق بات لکھنے اور اس ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

محمد یوسف برکاتی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
محمد یوسف برکاتی کا کالم