شفق نے کوٹ اپنے گرد لپیٹا اور اردگرد نظر دوڑائی ،بہار کی آمد آمد تھی،ہوا میں ایک عجب تازگی سی تھی،سورج نے اپنے رخ زیبا سے نقاب اٹھا لیا تھا، غنچوں کے چٹکنے سے زندگی کا نیا احساس جنم لے رہا تھا۔ہوا میں پائن کونز ، ٹیولپس اور نرگس کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو رچی ہوئی تھی ۔ لوگ ہنستے مسکراتے اس کے پاس سے گزر رہے تھے ۔شفق کو ہوا ابھی بھی خنک سی لگ رہی تھی ۔اس نے اپنے اردگرد موجود خوش باش لوگوں کو دیکھا اور سوچا :۔
“شاید انسان کی اندرونی کیفیات بہت اہم ہوتیں ہیں۔۔۔۔۔ میرے جسم و جان پر یہ جمود میری روح کے مر جانے سے طاری ہوا ہے۔پتا نہیں میری بے کفن لاش کو یہ سب لوگ دفنا کیوں نہیں دیتے؟
میں اب زندہ کہاں ہوں؟
بھلا زندہ لوگ مجھ جیسے ہوتے ہیں؟”
اس کی سوچوں میں مدوجزر کی سی کیفیت تھی اور اس کی ہستی اس طوفان میں ڈوب ابھر رہی تھی ۔
گزشتہ کئی مہینوں سے اس کی ذات پر عجب سا جمود طاری تھا، وہ صبح بیدار ہو کر گھنٹوں چھت کو تکتی رہتی تھی اور سوچتی کہ آج اور کل میں کیا فرق ہے؟
اس کی کیفیت اس صحرا نورد کی سی تھی جس سے صحرا میں سراب نظر بھی چھن گیا ہو۔آج بھی صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا، چھت پر ایک چھپکلی بے حس و حرکت تاک لگائے بیٹھی تھی، اچانک ایک مکھی اس کے قریب آئی تو چھپکلی نے اسے شکار کرلیا۔اس نے سوچا:
” موت بھی اس چھپکلی کی طرح انسان کی زندگی کی تاک لگائے بیٹھی ہوتی ہے، اچانک سے کہیں سے بھی زندگی کا سامنا موت سے ہوہی جاتا ہے۔”
اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور اپنے آپ کو سرزنش کرتی تیار ہو کر گھر سے باہر آگئی۔وہ روز کی طرح آج بھی حسب معمول بس اسٹاپ کے بینچ پر تنہا بیٹھی ہوئی تھی ۔وہ روز صبح سے دوپہر تک کا وقت اسی بس سٹاپ پر بیٹھ کر گزارتی تھی۔یہاں بیٹھ کر اسے تنہائی کا احساس کم ہوتا تھا۔آج بھی وہ بس سٹاپ پر بیٹھی اپنا وقت بتا رہی تھی ۔اس کی سوچ کا دھارا یک لخت پھر مڑ گیا اور وہ سوچنے لگی:
“میں وقت کو بتا رہی ہوں یا وقت مجھے بتا رہا ہے۔”
اپنی احمقانہ سوچ پر وہ خود ہی کھلکھلا کر ہنس پڑی ،اسے اپنی ہنسی کی آواز بہت ہی اجنبی سی لگی،وہ ایک دم سے سہم کر پھر اپنے خول میں بند ہوگئی۔اچانک اس نے دیکھا سامنے سڑک پار سے دو بچے اپنے والدین کا ہاتھ پکڑے خراماں خراماں چلے آرہے تھے ۔ بچے بہت ہی خوش اور پرجوش تھے، اس نے بہت حسرت سے اس خاندان کی طرف دیکھا،میاں،بیوی اور دو پیارے پیارے بچے۔ایک مکمل جنت کا نمونہ۔۔۔۔۔۔ اس کے سامنے تھا۔وہ کھوئے کھوئے انداز میں ان کو دیکھ رہی تھی ۔بچوں کا جوش و جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا،ان کے بھولے ،معصوم چہرے ہلکے سے گلابی ہورہے تھے۔ان کی آنکھوں میں ایک تجسس آمیز چمک سی تھی،اسے ان کی گفت و شنید سے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ سرکس دیکھنے جارہے تھے ۔بس آئی تو وہ باتیں کرتے اس پر سوار ہوگئے۔وہ بھی ایک معمول کی طرح ان کے پیچھے کشاں کشاں بس پر سوار ہوگئی۔بس پر بھی بچے مستقل اپنے والدین سے سرکس کی بابت سوال کرتے رہے۔ اس کو لگا جیسے کسی نے اس کے ماضی کا روزن کھول دیا ہو، اس کی آنکھیں نم سی ہوگئیں، اسے یاد آیا رومیز کو بھی تو سرکس بہت پسند تھا۔ وہ ہر سال ضد کر کے سرکس جاتا تھا۔ اس کے دل میں ایک درد کی ٹیس سی اٹھی،وہ چونک گئی ،یہ کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ابھی بھی زندہ تھی۔اسے اب بھی درد محسوس ہوتا تھا ۔اس نے اپنی آنکھوں پر بے یقینی سے ہاتھ پھیرا، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔اس کو اچانک ایک عجب سی خوشی محسوس ہوئی ،شاید طویل عرصے کے بعد اسے زندگی کا احساس ہوا تھا ۔ بس سرکس کے گراونڈ کے قریبی سٹاپ پر رکی،شفق بھی اس خاندان کے پیچھے پیچھے اتر گئی۔ بس سٹاپ سے گراونڈ تک کے سفر میں شفق نے دیکھا، بے شمار لوگ اپنے بچوں کو سرکس دکھانے لے کر آئے ہوئے تھے ۔شفق نے بھی کانپتے ہاتھوں سے گیٹ پر ٹکٹ خریدا اور ہجوم بے کراں کے پیچھے پیچھے سرکس میں داخل ہوگئی ۔ہر طرف مختلف تماشے ہورہے تھے ۔ایک طرف ایک شخص بانس کے ڈنڈےپیروں سے باندھے چل رہا تھا،ایک طرف ایک لڑکی اپنے منہ سے آگ کے شعلے نکال رہی تھی ۔ایک گوشے میں ٹریپیز پر جمناسٹک کے مظاہرے ایک جوڑا کر رہا تھا۔اسے ٹریپیز دیکھ کر چکر سا آگیا، اس نے اپنا دھیان دوسری طرف مبذول کیا۔ ایک کونے میں گھوڑا ناچ رہا تھا۔ہر طرف ایک چہل پہل اور گہماگہمی کا سماں تھا۔ چلتے چلتے وہ کاٹن کینڈی کے اسٹال پر رک گئی ۔اسے یاد آیا رومیز کیسے اس کا اور جبران کا ہاتھ تھامے ،شور مچاتا سرکس میں داخل ہوتا تھا۔ وہ ہر سال اتنا ہی پرجوش ہوتا تھا جیسے پہلی دفعہ سرکس دیکھ رہا ہو ۔وہ کاٹن کینڈی کھاتے ہوئے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں پھیلا کر وہ کہتا تھا:
“مما جی دیکھیں نہ،کیسے یہ لڑکی آگ اگل رہی ہے ۔”
جبران شرارت سے ہنس کر کہتا:
“رومیز! ساری لڑکیاں آگ ہی اگلتی ہیں ۔۔۔۔
اپنی مما جی سے پوچھو۔”
اس کے منہ سے اچانک نکلا:
“بس کیجئے جبران۔”
مگر اسے احساس ہوا کہ آج وہ اس سرکس میں تنہا تھی۔اس کے ساتھ آنے والے تو کب کے بچھڑ چکے تھے ۔درد کے آرے نے پھر اس کا دل چیرنا شروع کردیا،اس کی روح اپنے زندان میں چیخ پڑی۔اچانک اس کی نظر دور کرتب دکھاتے مسخرے ہر پڑی۔اسے یاد آیا کہ رومیز کو مسخرے بہت پسند تھے،وہ ہر سال سرکس میں مسخروں کے ساتھ کافی وقت بتاتا ،اس کی ہر سالگرہ پر بھی جبران مسخروں کو ضرور بلاتا تھا، وہ ایک تنویم زدہ معمول کی طرح اس جانب چل پڑی۔ مسخرے کی نظر بھی اس سے ملی تو شفق کو لگا کہ جیسے وقت رک گیا ہے ۔مسخرے کے میک اپ تلے چھپے اس شخص کو اس کی دھڑکن بخوبی جانتی تھی ۔مسخرے کی آنکھیں بہت ہی اداس تھیں ۔مسخرے نے بھی سب کچھ بھول کر اس کی جانب قدم بڑھائے۔ وہ دونوں تھوڑی دیر ایک دوسرے کے آمنے سامنے خاموشی سے جامد و ساکن کھڑے رہے پھر خاموشی سے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ شفق کو لگا جیسے وہ دونوں اس گراونڈ میں اس پل میں بالکل تنہا تھے۔اسے لگا ان کے اردگرد موجود لوگ،بچے،شور شرابا سب کچھ کہیں تحلیل ہوچکا تھا، بس ایک لامتناہی خلا باقی تھا۔صرف “مسخرا” اور “وہ” اس پل کی حقیقت تھے۔شفق نے بہت سالوں بعد اپنے کانوں میں اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز سنی۔اس نے اپنی توجہ بدلی اور دل سنبھال کر پوچھا:
“تم کیسے ہو؟”۔
مسخرے نے اداسی سے اس کی طرف دیکھا،شفق نے سوچا:۔
“کیسا یہ کھلا تضاد ہے۔۔۔۔ مسخرے کے لب مسکرا رہے ہیں مگر آنکھیں کچھ اور داستان سنا رہیں ہیں ۔”
وہ آہستگی سے بولا:
مسخرے دل بنائے جاتا ہوں۔۔۔
اب میں سب کو ہنسائے جاتا ہوں،
راگ چھیڑو نہ تم اداسی کے۔۔۔۔
شوخ نغمے سنائے جاتا ہوں،
تالی تم بھی بجا کے دیکھو نا۔۔
میں تماشا دکھائے جاتا ہوں،
مر ہی جائے گی یہ اداسی اب ۔۔۔
دیکھ میں مسکرائے جاتا ہوں،
کتنے توڑے ہیں میں نے دل صاحب۔۔۔
سوچ کر جاں سے جائے جاتا ہوں ۔
(صاحب کپور☆☆کلام )
شفق کو اس کی اداس آواز مزید اداس کر گئی۔اس نے حوصلے سے مسخرے کی آنکھوں میں جھانکا اور آہستگی سے اس کا ہاتھ پکڑا، اس کے ہاتھ بہت سرد تھے،اس نے دیکھا مسخرے کی آنکھوں میں اشکوں کی نیا ڈول رہی تھی۔شفق نے دھیرے سے کہا :
“یہ اداسی مرے گی نہیں ۔۔۔۔۔
یہ تمھارا اور میرا خراج لے کر ٹلے گی۔
خدارا جبران!۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو “رومیز” کی خاطر ہی معاف کردو۔وہ ایک حادثہ تھا،تم نہیں جانتے تھے کہ سرکس کا وہ کرتب رومیز کی جان لے لے گا ورنہ تم اسے کبھی بھی اسٹیج پر نہ جانے دیتے۔ اپنے آپ کو اور مجھے مزید سزا مت دو،رومیز کی روح کو مزید دکھ مت دو۔”
مسخرے کے صبر و ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ،وہ سسکتا ہوا ،بلکتا ہوااس کے گلے لگ گیا۔ شفق نے ایک مہربان ماں کی طرح اسے گلے لگا لیا،اسے معلوم تھا کہ وہ اس شام بھی نہیں رویا تھا ،جب ڈاکٹرز نے ان کے اکلوتے بیٹے کی موت کی تصدیق کی تھی ۔مسخرے کے آنسوؤں سے اس کا سارا میک اپ دھل گیا تھا۔ شفق نے اس کے چہرے کو محبت سے اپنے رومال سے پونچھا ،آج بہت عرصے بعد اس نے اپنا بچھڑا پیار پا لیا تھا۔ سرکس سے رخصت ہوتے ہوئے شفق نے مڑ کر دیکھا اس کا رومیز،اس کا اکلوتا بیٹا ٹریپیز کے نیچے کھڑا اسے ہاتھ ہلا رہا تھا ۔آن واحد میں وہ مدہم ہو کر غائب ہوگیا۔ شفق جانتی تھی کہ اب رومیز شانتی میں رہے گا۔وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک ان دیکھی،نئی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔بہار ایک کونے پر کھڑی مسکرا رہی تھی ۔
مونا شہزاد