لذتِ وصل سے انکار بھی ہو سکتا ہے
دل ترے ہجر سے سرشار بھی ہو سکتا ہے
مری خلوت میں مرے ساتھ الجھنے والے
اک تماشا سر بازار بھی ہو سکتا ہے
تُو نے جس طور اجاڑا ہے مدینہ دل کا
یہ تری روح کا آزار بھی ہو سکتا ہے
ہجرتِ شوق بھی اچھی ہے مگر یاد رہے
وہ جو اُس پار ہے اس پار بھی ہو سکتا ہے
یوں تو ہر چیز پہ جاری ہے تصرف اس کا
آدمی بے بس و لاچار بھی ہو سکتا ہے
اتنی حسرت سے جو تکتے ہیں کنارے والے
ڈوبنے والا، مددگار بھی ہو سکتا ہے
آپ کو اتنا سنورنے کی ضرورت ہی نہیں
آئینہ رنگ سے بیکار بھی ہو سکتا ہے
افتخار شاہد