- Advertisement -

کچھ طبیعت ہی ایسی پائی ہے

تالیف حیدر کی مزاحیہ تحریر

کچھ طبیعت ہی ایسی پائی ہے

بڑے بزرگوں کا قول ہے کہ
"چمگادڑکو اگر محل میں رکھو تو بھی سوئے گا چھت سے لٹک کے ہی۔”

اس میں اس کی کچھ غلطی نہیں کہ فطرت نے ہر ذی روح کی طبیعت میں کچھ ایسے کمالات شامل کر دیئے ہیں کہ وہ اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ ہماری طبیعت بھی آرام طلبی،عیاشی،مطالعے اور مجاہدے وغیرہ کے ضم میں کچھ ایسی ہی واقع ہوئی ہے۔ ابتدائی امور ثلاثہ کی تفصیل میں جانے سے قبل مجاہدے کے متعلق یہ بیان کردیناضروری ہے کہ اس سے مراد آباو اجداد کے وہ دینی امور ہیں جن کی پابندی گزشتہ آٹھ سو برس سے ہمارے خاندان میں ہوتی چلی آ رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب کا انکار اب ہماری طبیعت کا حصہ بن چکا ہے، لیکن ایک زمانہ تھا جب ہم اپنے والدین کی ہدایتوں پردعائے قنوت کابڑی کثرت سے ورد کیاکرتے تھے اور خاصی قنوطی زندگی گزارنے کے قائل تھے۔ تصوف اوڑنا،بچھونا تھا جس کی وجہ سے جلد خاصی کھردری اور ٹاٹ نما ہوگئی تھی۔ ماتھے پر دس کے نئے سکے کے برابر کالا دھبہ پڑ گیا تھا اور چہرے کی شناخت مجمع ِعام میں اُسی بد نما دھبے سے ہوتی تھی۔ اللہ اور رسول کا نام بعد میں زبان پر آتا تھا غوث اور قطب پہلے نکلتا تھا۔نماز کا یہ عالم تھا کہ تہجد کا قضا ہونا گناہِ کبیرہ معلوم ہوتا تھا،لہٰذاکراماً کاتبین سے تہجد کے وقت منہ پر چانٹے مار کر اٹھا دینے کا وعدہ لے کر عشا ءکے بعد مصلے پر ہی سوجاتے تھے تاکہ آنکھ کھلے تو سر وفورِ شوق میں سجدے کی حالت میں پایا جائے اور روزے کا یہ عالم کہ رات کے کھانے کے بعد منہ باندھتے تو دوسرے روز افطار کی کھجور سے ہی کلا کشائی عمل میں آتی تھی۔

زکوۃ دینے کے سلسلے میں عہد طفلی میں ہی ایسے چاق اور طاق ہو گئے تھے کہ ابا کی دی ہوئی زکوۃ کی تعلیم خود ابا کو گراں گزنے لگی تھی اور حج کا منصوبہ سن بلوغت تک پہنچنے کے بعد ا س طرح کا بنا رکھا تھا جیسا حسن بصری نے کسی زمانے میں کیا تھا، یعنی جب بھی سفر حج کا ارادہ ہو گا تو ہر دو قدم پر دو رکات نماز پڑھتے ہوئے زیارت بیت اللہ کو جائیں گے۔

یہ تو بھلا ہو محلے کی بگڑی صحبتوں اور بولی ووڈ کی فلموں کا جس نے چودہ برس کے بعد سے ہماری تصیح فکر پر جو کمر باندھی تو ہمیں دو سے تین مہینوں میں ہی یہ احسا س ہو گیا کہ ہم کس عہد جاہلی میں زندگی گزار رہےتھے۔ عبادتِ دین تو خیر کچھ ایسی بری بات نہیں لیکن اس میں اتنا غلو کسی صحیح الدماغ شخص کی علامت نہیں(یہ وہ زمانہ تھا جب ہم اپنی فطرت سےکلیتاً ناواقف تھے)۔

ہم نے جلد ہی اپنی اوندھی طبیعت کا جائزہ لے کر خود کو ان خرافات سے دور کیا، لیکن جیسے ہی مذہبی امور سے دوری بنائی تو دوسری طرف کا پلہ اتنا بھاری ہو گیا کہ نماز کے نام سے چڑ ہونے لگی، روزہ ر کھنا گراں گزرنے لگا، زکوۃ اصراف بے جا نظر آنے لگی اور حج عربوں کی چالبازی معلوم ہونے لگا۔
اعتدال چونکہ طبیعت کا حصہ ہی نہیں تھا لہٰذا ابا اور اماں کے دین سے پھرے تو ایسے پھرے کہ ابو جہل اپنا بھتیجا لگنے لگا۔ عزازیل کو اپنا یار غار بنا لیا اور محفل رقص سرود میں یہاں تک گرمی پیدا ہوگئی کہ اذان کی آوازبھی اس میں تحریک پیدا کرنے والا عمل بنتا چلا گیا۔

ایک طرف ایمان تھا تو ایسا ایمان کہ جبریل و خضر حاسد ہوئے جاتے تھے دوسری جانب کفر آیا تو ایسا کہ عزازیل جونیر اسسٹینٹ بن گیا۔ یہ تو خیر ہے کہ اللہ میاں نے ہماری طبیعت میں اسی وصفِ خاص کے ساتھ ایک کمال یہ بھی پیدا کر دیا ہے کہ کسی عمل پہ مسلسل تکیہ نہیں کرتے، بلکہ اپنے کانوں کو ایسا کچا پایا ہے کہ جہاں جس نے کسی عمل کی ذرا سی برائی کی اور دل اس سے اچاٹ ہو گیا۔

صحبت صحبت کی بات ہے، جب ذرا ایسے لوگوں میں گھرنے لگے جن کو پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا تو طبیعت عملی طور پر دین ابراہیمی کو تکلیف پہنچانے سے ادھر کی طرف مائل ہو گئی۔ لہٰذا کفر کی اب وہ کل وقتی والی کیفیت تو نہ رہی، بس کبھی کبھی ایک ہوا کا جھونکا آ جاتا ہے جس کی وجہ سے "ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر”والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

مطالعے کے میدان سے پہلے مذہب اور کفر نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا تھا جتنا اس وبالِ جان نے پہنچایا۔ مذہب خواہ کیسی ہی بری چیز کیوں نہ ہو بدن کی جمالیات کا خوب خیال رکھتا ہے اور پھر اسلام کے امور مذہبی کی کثرت سے بدن میں بیماریوں کی کثرت پیدا نہیں ہوتی، کفر کا بھی یہ ہی عالم ہے کہ اگر نماز روزے سے گئے اور بری صحبتیں اختیار کیں تو بھی لونڈوں لپاڑوں کے ساتھ میدان میں ہو ہلڑ مچانے چلے گئے، چوک چورائے کی گرد پھانکی اور بدن کو اتنا حرکت میں رکھا کہ طبیعت میں گرانی نہ پیدا ہونے پائی۔

اب سنیئے مطالعے کی کثرت کا عالم۔ جب ذرا کچھ دوستوں کے اصرار اور دلی رجحان سے اس کوچے میں قدم رکھا تو کھانا پینا جاتا رہا، چلنا پھرنا چھوٹ گیا۔ ایک کونے میں پڑے مطالعے میں غرق رہنے لگے۔ چونکہ مطالعے کا آغاز طلسماتی دنیا اور ہدی وغیرہ ٰقسم کے واہیات رسائل سے ہوا تھا لہٰذا اس میں بہت لطف آنے لگا اور آٹھوں پہر گردن اسی میں جھکی رہنے لگی ۔ اس کے بعد جب جاسوسی ناولوں کا نمبر آیا تو دوپہر کا کھانا بھی گول ہونے لگا۔ طبیعت ادھر سے جب سنجیدہ ادب کی طرف مائل ہوئی تو پانی کی کمی کی وجہ سے پیشاب کی پیلاہٹ مستقل ہو گئی۔ غالب میں غرق ہوئے تو قبض کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے، میر اٹھایا تو آنتیں کم مائدگی کی وجہ سے چپکنے لگیں۔ پریم چند، منٹو، بندی سے ہوتے ہوئے عصمت تک آئے تو نیچے کا بدن ہلکا اور اوپر کا بھاری ہوگیا۔ان حضرات سے ذرا ترغیب پا کر عالمی ادب کی طرف نظریں جمائیں تو آنکھوں کے کناروں پر کیچڑ جمع ہونے لگا ۔لہٰذا اس امر میں اتنی ترقی کی کہ دو برس میں ڈاکٹروں نے بی پی اور شوگر کا مریض گھوشت کر دیا۔ پھر یہ ہوا کہ ابھی تو جوانی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھا ہے اور ابھی سے نیچے کے خون کی روانی 100 اور اوپر کی 150 ہونے لگی تو جلد ہی لذت دنیاوی ہاتھ سے نکل جائے گی اور گور کا دہانا آباد ہو جائے گا۔

مطالعے کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب کسی نے اس کے نقصانات پر روشنی ڈالی اور کھیل کے فوائد بیان کرنا شروع کیے۔ شروع شروع میں تو یہ معاملہ رہا کہ
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

مگر وہی کانوں کا کچا پن۔کھلاڑی تو بہت سے معاملات میں ہم بچپن سے ہی تھے، جلد ہی اس میدان عمل میں کود پڑے۔چونکہ اب عمر سن شعور کو پہنچ چکی تھی، بلکہ کثرت مطالعہ کی وجہ سے اس سے کچھ تجاوز کر چکی تھی لہٰذا کرکٹ سے اس کی ابتدا کی۔ بچپن میں اپنی چھت سے ہاتھ میں تسبیح تھامے اور دور و سلام کا ورد کرتے ہوئے جس کھیل کو گناہ عظیم کے ارتکاب کی نگاہوں سے تکا کرتےتھے اس میں جب اپنا دامن رنگا تو اپنے جوہر خود پر کھلنا شروع ہوئے۔بالنگ کبھی کی نہیں تھی اس لیے گیند پھنکنا شروع کی تو احباب کو بینائی کی موجودگی پر شبہ ہونے لگا۔بلا بھی کبھی نہیں تھاما تھا اس لیے اس کی قواعد سے بالکل لاعلم تھے،مگر اسی سے ملتی جلتی ایک شئے جھاڑو کا خوب استعمال کیا تھا لہٰذا یہاں بھی اسی طور کا مظاہرہ کیا اور جلد ی جلدی آوٹ ہونے کی وجہ سے گیارویں بلے بازوں میں شمار ہونے لگے۔ فیلڈنگ بھی کچھ خاص نہیں آتی تھی اس وجہ سے لوگ اپنی ٹیم میں لینے سے کترانے لگے اور ہم ان آخری کھلاڑیوں میں شمار ہونے لگے جو فریقین کے ازراہ مروت دونوں جانب سے کھیلتا ہے اور بہت کم ہی بلے اور گیند تک اس کی رسائی ہو پاتی ہے۔ پھر بھی ہم میدان میں ڈٹے رہے اور اکثر دوستوں کو اس وقت زور سے قہقہہ لگاتے دیکھا جب میدان کے ایک نہایت ہی کونے میں کھڑےاپنی طرف گیند کے آنے کے منتظر پائے گئے۔ فرقین نے بھی ہماری صلاحیتوں سے بیزار ہو کر ہمیں ایسی تاریک گلی کے سپرد کیا تھا کہ گیند سال، چھ مہینے میں اٹھارہ، بیس زاویوں پر اتفاق سے نہ رک پانے کی وجہ سے ہم تک پہنچتی تھی۔ گیند کے اس فراق نےہمیں اپنے جذبہ عشق میں ایسا مبتلا کیا کہ طرح طرح کی گیندیں اپنے کمرے میں سجا کر رکھنے لگے اور جب کھیل ختم ہوتا اور گھر جاتے تو ان تمام گیندوں کو باری باری ہاتھ میں لے کر اپنے اضطراب کو تسکین میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے۔

اس کھیل نے جب پوری طرح مایوس کیاتو ہم نے مختلف بیرون خانہ کھیلوں کی طرف التفاط کی نگاہوں سے دیکھا۔ کیریم اور شطرنج جس میں قوت فکر اور قوت ارادی کو خاصہ دخیل پایا تو جلد ہی اس سے بھی بیزار ہو گئے اور لوڈو، سانپ سیڑی اور پانچ پتھر جیسے نسائی کھیلوں کی طرف توجہ مبزول کی اور ان کو اپنی طبیعت کے عین مطابق جان کر عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ ان کی نذر کر دیا۔ لوڈو میں اپنی پانسا پھینکنے کی صلاحیت سے ایسی مہارت حاصل کی کہ خواہ کوئی کیسا ہی کھلاڑی کیوں نہ ہو اختتامی اڈے تک پہنچنے میں اسے کوسوں دور چھوڑنا ہمارا خاصہ بن گیا۔ بعض دوست اس کھیل میں کئی مرتبہ ہار کر جب حسد کے مارے گلے گلے تک دھنس گئے تو جذبہ نفریں میں ہمارا نام ہی لوڈو رکھ دیا۔ محلے، پڑوس میں جلد ہی اس نام کی تشہیر ہو گئی اور اس گھن گرنج نےچندہی روز میں اتنی ترقی کی کہ اماںکو کالج میں داخلے کے وقت پورے نام کے ساتھ عرف لوڈو لکھوانا پڑا۔ بعد میں عرصے تک اس عرفیت نے محلے کے ڈاکیوں کو زحمت خانہ بدوشی سے محروم رکھا۔

کھیل سے دل اس وقت ہٹا جب کسی نے فلم بینی کی طرف مائل ہونے کا مشورہ دیا۔ فلم بینی کا بخار چونکہ ایک زمانے میں پہلے بھی چڑھتے چڑھتے رہ گیا تھا اس لیے بہ آسانی اس کے دام میں آ گئے۔ اب جو اس پر کمر بندھی تو کیا اپنا اور کیا پرایا محلے میں کسی کا گھر نہ چھوڑا جہاں ٹی وی کو آن پایا اور اس پر کسی فلم کو چلتا دیکھا غریب الوطن شخص کی طرح اسے سائے عاطفت سمجھ کر وہیں براج گئے۔ اپنے گھر کے ٹی وی کو اتنا استعمال میں لائے کہ اس کا رنگ ہلدی مائل ہونے لگا۔ آنکھوں پر جب بہت زیادہ زور پڑا تو ان میں دھندلاہٹ پیدا ہونے لگی۔اس کے باوجود رات کا تین بجا ہو یا دوپہر کا دوآنسو بہتی آنکھوں سے ٹی وی میں کھوئے رہے ۔ نہ صبح دیکھی نہ شام۔ایک سعید ناظر کی طرح صبر و استقال سے جمے رہے۔ جلد ہی فلموں سے پروگراموں پر آ گئے اور اس کے بعد جنگلی جانورں کے ڈاکیو ڈاماز پر ۔ معیار گرتے گرتے اتنا گر گیا کہ اشتہار بھی لذت نظر کا بہانہ بننے لگے۔ ایک برس تک اس کا ایسا شوق فرمایا کہ آنکھوں کے سفیدی مائل حصے پرسرخ شاخیں اگنے لگیں اور اگلے چھ ماہ میں یہ پورہ علاقہ لال جنگل میں تبدیل ہو گیا۔ کالی پتلیوں پربہت زور پڑا تو انہوں نے اپنی سرحدیں وسیع کرنا شروع کر دیں۔ اول اول تو حکومت صرف دہلی کے قرب و جوار تک پھیلی تھی، مگر جلد ہی اس نےمشرق میں سرحد بنگال اور مغرب میں ملتان سے گزرتے ہوئے قندھار تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ اس سے آنکھوں میں ایک مضحکہ خیز صورت یہ پیدا ہوگئی کہ پہلی نظر میں دیکھنے والے کو یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ آنکھیں سفید ہیں، سرخ ہیں یا سیاہ۔ جب ڈاکٹر روں کی دوایں اور بزرگوں کی دعایں تک ناکام ہو گئیں تو ایک روز ہم نے کسی عزیز کی باتوں میں آکر عشق مجازی کی طرف اپنی قلبی کیفیت کو منتقل کر دیا۔

اب سنئے عشق مجازی کا قصہ۔ یوں تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عمل میں آیا،کہ کسی حسین لڑکی کو تلاش کیا جائے اس کی اداووں کی برچھی سے خود کا سینہ چھلنی کیا جائے اور دھیرے دھیرے اس سے مراسم پیدا کرنے کی راہ نکالی جائے اور صحیح وقت اور حالت دیکھ کر اس سے اظہار عشق کر دیا جائے، صورت کچھ بن جائے تو ٹھیک نہیں تو”تونہیں اور صحیح اور نہیں اور صحیح”پر عمل پیرا ہوا جائے۔حالاں کہ یہ امر ہمارے گزشتہ رجحانات کے بالمقابل ذرا مشکلِ ابتلا تھا مگریہاں قسمت نے کچھ یاوری کی۔ ایک حسینہ جو کالج میں ابھی نئی ہی داخل ہوئی تھی وہ ہمارے ماضی بعید کے شوقِ علم کا چرچہ سن کر ہمارے دام عشق کی جانب خود ہی کھنچی چلی آئی۔ ابتداً تو اس نے صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ہمارے ماضی کو مسلمانوں کے ماضی کی طرح روشن بتایا اور ہم سے دوستی کا مطالبہ کیا،مگر ہم نے اپنے آپ کو اس امر میں قطعی کمزور تصور کرتے ہوئےخود کودوستی کی زنگ آلود تلوار سے قدرے فاصلے پر رکھنا ہی بہتر سمجھا۔ حسن میں تو وہ یکتائے روزگار تھی ہی، صرف اسے اپنے عشق میں نابغہ روزگار بنانے پر عمل پیرا ہونا تھا۔ ہم نے دوستی کا ہاتھ بڑھا یا اور میر جعفر کی مانند اپنی منافقانہ گارگزاریوں سے اس کو آہستگی سے اپنے دم فریب میں کھینچنے لگے۔ لیکن وہ جلد ہی صورت حال کو بھانپ گئی اور کنی کاٹنے پر اتارو نظر آنے لگی۔ ہم نے جب آئی ہوئی بھیڑ کو کچھار سے کھسکتے دیکھا تو طبیعتِ غیر معتدلاں نے جوش مارا اور اس سے فوراً ایک نشست میں اظہار عشق کرتے ہوئے یہ کلمات کہہ گئے کہ” ہم سے زیادہ جاں نثار عاشق آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔”اس نے بڑے صبر و تحمل سے ہمارے دعوے سنے، اپنے دل میں موجود ہمارے گزشتہ عزت و احترام کی کدورت کو دل سے مٹایا اور ہمیں ٹکا سا جواب دے کر لوٹ گئی کہ

کوئی اور ہی ہے جس سے مجھے دردِ دل ملا ہے
ہم نے بھی اپنے آپ پر ایک جنونی کیفیت تاری کر کے اس کوخود کی طرف مائل کرنے کی راہ پر لگا دیا۔ اب جو اس کے پیچھے آلودہ بدن ہونے پر ڈٹے تو دن دیکھا نہ رات ۔حالت یہ تھی کہ
اس کا ہجرہ ہے، ہم ہیں، آنکھیں ہیں
ٹکٹکی باندھ کر اس کے ہجرے کو تکے جاتے تھے جب بام پر آتی تو نظارہ شوق سے لذت تسکین کا سامان ہوتا۔ وہ ظالم تھی توہم سید زادے تھے، اپنا خانہ اس کی گلی کو بنایا اور لگے اس کے دل پر جمی برف پگھلانے۔لیکن اس بار اتفاق یہ تھا کہ عشق ماہ سرما میں ہوا تھا، موسم سازگار نہ تھا اور رات کا ایک ایک لمحہ عشق سے باز آجانے کی تنبیہ کرتا تھا، جوں ہی رات کا تین بجتا شب یخ کے پئے در پئے حملے کمر اور ریڑھ کی ہڈی کا لوچ ختم کر دیتے۔ گردن شمالی زاویے کی حالت میں جم جاتی اور ہاتھ پاوں کی رگوں میں خون جمنے کی وجہ سے وہ پہلے مٹمیلے ہوتے، پھر پیلے اور آخر میں سفید۔ ہونٹوں پر تھوک کی قاشیں ابھر آتیں اوربالائی منزل پر ٹکی چشم ِانتظار یہ صورت اختیار کر لیتی کہ
اب یہ پتھرائی ہوئی آنکھیں لیے پھرتے رہو
میں نے کب تم سے کہا تھا مجھے اتنا دیکھو
لیکن اس ظالم کا چہرہ اس وقت نظر آتا جب رات کی ٹھنڈ ہمیں جما کر سوا نیزے پر چمکتے آفتاب کی نذر کر دیتی۔ستم صرف اتنا ہوتا تو بھی کیا بات تھی،مگر ہم اس کی گلی میں اکڑوں بیٹھے رہنے کی وجہ سے آس پاس کے علاقے والوں کی نظر میں آنے لگے۔ لہٰذا عشق کی گرمی کے ہاتھوں جو جھلسا ہوا ہو خواہ وہ زمانے کی پروا نہ کرے پر بچوں کے ان جملوں سےاپنی سماعت کو کیسے بچائے جن میں وہ کبھی عاشق زار کو درویش ناہنجار بتاتے ہیں تو کبھی چور چکار اور گلی کے ان کتوں سے خود کو کیسے محفوظ رکھے جو اپنے علاقے میں کسی نئے برادر زادے کو داخل ہی نہیں ہونے دیتے۔ بچوں کی باتوں کو تو ہم ٹال گئے مگر کتوں کی وجہ سے رات کے وہی لمحے دیدارِ ہوس کوبجھانے میں کار آمد ثابت ہوئے جب کتے بھی برف کی سلی بن جانے کے خوف سے کونے کھدروں میں دبکے بیٹھنے کو ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ ہر ہر ملاقات میں ہم نے اپنے عشق کی گرمی کا اسے احساس دلانے کی کوشش کی اور اس کی بے اعتنائی کو اپنی ڈھٹائی سے ٹالتے رہے۔آخرایک برس کی محنت شاقہ سے ہم اس منزل مقصود تک پہنچ گئے جب وہ اپنے عاشق نام نہاد سے یہ کہہ کر ہمارے پہلو میں آن بسی کہ

تری باتیں ہی باتیں اور سید کام کرتا ہے
اتنے شدائد اور ہجر و فراق کے بعد جو وصل میسر آیا تو طبیعت نکھر گئی لذت کام دہن سے اس سلسلے کا آغاز کیا اور میر صاحب کی اس حسرت کا تصور باندھ کر کہ
وصل اس کا خدا نصیب کرے
میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ
تقلید سے اجتہاد کی منزلوں تک پہنچ گئے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کوچے میں جب سے قدم رکھا ہے مسلسل اسی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔آج کئی برس کے بعد بھی کان کا وہ کچا پن جو کسی فعل سے یکسر بیزار کر دیتا تھا اس امر میں مانع نہیں ہو پا رہا ہے۔ خیر
دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہوئے
تاب دل کم ہے پیچ وتاب بہت

تالیف حیدر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
An Urdu Ghazal By Shakeel Badayuni