آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاویس خالد

کاش ہم استاد بن جائیں

اویس خالد کا ایک اردو کالم

کاش ہم استاد بن جائیں

5 اکتوبر کو ٹیچرز ڈے گذرا۔سوچا تھا کہ اس دن استاد کے حوالے سے کچھ لکھوں مگر خیال آیا بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جائے گا۔کچھ اہل رائے کی باتوں سے ہی لطف اٹھا لیں گے،ہاں جو کچھ اس دن محسوس کروں گا وہ بعد میں آپ کے ذوق کی نذر ضرور کروں گا۔یہ منظر گذر جائے تو ذرا دور سے اس منظر کی حقیقت کو دیکھ کر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کروں گا۔میری طبیعت اور مزاج کبھی بھی ان ہستیوں کو ایک دن میں قید کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔مصروف زندگی میں ان ہستیوں کے ذکر کے لیے ایک دن متعین کرکے خراج تحسین پیش کرنے میں کوئی برائی نہیں۔بس یہ سمجھنا چاہیے کہ والدین ہوں یا اساتذہ ہر دن ہر لمحہ ہر گھڑی ان کے احترام کا دن ہے۔آج کل جہاں دیکھیں نئی نسل کا رونا سنائی دیتا ہے کہ یہ بگڑ چکی ہے۔ان میں بڑوں کا احترام بالکل نہیں رہا۔انھیں وقت کی قدر نہیں ہے۔ان کے اندر احساس ذمہ داری کا فقدان ہے۔لیکن یہ شور کرنے والے نہ توان سب مسائل کی وجوہات کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ ہی اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہیں جو ان بچوں کی تربیت کے دوران خود انھوں نے کی ہیں۔میں 5 اکتوبر والے دن کچھ ضروری کاموں میں الجھا رہا۔اور سچ بتاؤں تو مجھے کچھ خاص علم بھی نہیں تھا اور نہ ہی کچھ احساس تھا کہ یہ دن ٹیچرز ڈے کے طور پر منایا جا رہا ہے۔بوجہ مصروفیت میں سوشل میڈیا پر اور اپنے فون نمبر پر موصول ہونے والے میسجز نہیں دیکھ سکا۔شام کو کچھ فرصت ہوئی تو میں معمول کے مطابق سارے پیغامات کو دیکھتا رہا اور ان پیغامات اور تصاویرکی حقانیت کو سمجھنے اور بھیجنے والوں کے ذوق کا جائزہ لیتا رہا تو دیکھا کہ ایک دو نہیں،آٹھ دس نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں میرے نام ٹیچرز ڈے پرپیغامات بھجوائے گئے تھے۔فیس بک پر مجھے ٹیگ کیا گیا تھا۔نیک خواہشات کا اظہار کرنے والوں میں بڑی تعداد ان طلبا کی بھی تھی جو کسی دور میں پڑھ کر جا چکے تھے اور جن کے بارے میں عام تاثر یہ قائم ہے کہ یہ بھول جاتے ہیں۔ان پیغامات میں سے کچھ تو انٹرنیٹ کی پیداوار تھے یعنی بنے بنائے تھے لیکن ذیادہ تر پیغامات ان بچوں کی اپنی ذاتی رائے تھی جس کا اب انھوں نے کھل کر اظہار کیا تھا۔ایسی ایسی دعائیں لکھیں تھیں کہ جو میں خود بھی کبھی اپنے لیے شاید نہیں مانگ سکا تھا یا میری توجہ اس طرف نہیں گئی تھی۔ ایک بیٹے نے لکھا جس کے ایک حصے کاکچھ متن یوں تھا کہ سرمجھے آپ سے ایسی عقیدت ہے کہ میری دعا ہے کہ زندگی بھر آپ کا کوئی کام بھی خلاف شریعت نہ ہو۔ ایک نے لکھا جو اب ڈاکٹر ہے کہ جیسے آپ نے میرے اندر کی چھپی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کیا ہے،دعا ہے اسی طرح آپ کے اندر کے چھپے خزانے سے دنیا مستفیدہوتی رہے اور آپ کو اس کا اجر عظیم ملتا رہے۔

میں اپنی تحریر کے اس پہلو کو انھی مثالوں پر اکتفا کرتے ہوئے یہیں مختم کرتا ہوں کیونکہ اپنی توصیف کا عنصر کہیں غالب نہ آ جائے۔لیکن مجھے اپنے طلبا میں کہیں کوئی محقق نظر آیا،کہیں کوئی فلاسفر نظر آیا،کہیں کوئی اچھا مقرر نظر آیا،بات استاد کے نبض شناس ہونے کی ہے۔ایک واقعہ بھی بیان کرتا چلوں۔چند سال پہلے ایک کلاس ایسی بھی گذری کہ وہ بچے میرے انتظار میں دروازے کے پیچھے چھپ جاتے تھے اور جونہی میں کلاس کادروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتا تو وہ بچے فورا دروازہ کھول دیتے تھے اور مجھے اتنی بھی زحمت نہ کرنے دیتے،یہی حال کلاس سے جاتے وقت بھی ہوتا۔پورا سال ان کے ہوتے ہوئے مجھے خود دروازہ نہیں کھولنا پڑا۔اکثر وہ آپس میں دروازہ کھولنے پر اسرار کرتے بھی پائے جاتے۔میرے پاس پانی کی بوتل موجود رہتی ہے،ایک دن میں بوتل بھول گیا۔حسب عادت کچھ ہی دیر بعد مجھے حلق تر کرنے کی حاجت ہوئی تو میں نے سامنے بیٹھے ایک بچے سے کہا بیٹا کیا آپ کے پاس پانی ہے کیا آپ مجھے پانی پلائیں گے؟اس نے مجھے فورا پانی کی بوتل تھما دی۔آپ سوچیں گے کہ اس میں بھلا کیا خاص ہے۔خاص بات یہ ہے کہ پھر میرے بار بار اسرار کرنے کے باوجود پورا سیشن اس بچے نے میرے لیے پانی لانا نہیں چھوڑا۔میرے پاس پانی موجود ہوتا تھا لیکن مجھے اس کا دل رکھنے کے لیے اس سے ایک دو گھونٹ پینا پڑتا تھا۔یہ کالم یقینا وہ تمام بچے بھی پڑھیں گے۔میں اس کالم کی وساطت سے انھیں کہتا ہوں کہ آپ کی یہ محبت اور احترام میں بھی کبھی بھول نہیں پاؤں گا اور یہ کہ ہمیشہ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ان حیرت انگیز واقعات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے بچے آج بھی ہمارا بڑا احترام کرتے ہیں،بس وہ ہم سے شفقت،پیار،خلوص اور اخلاقی وروحانی تربیت کے متقاضی ہوتے ہیں۔وہ اپنی پروان چڑھتی سوچ میں طوفانوں کی طرح اٹھنے والے سوالات کے اطمینان بخش جوابات چاہتے ہیں جو ان کے ذوق تسخیر کی تسکین کر سکیں۔وہ اپنے استاد سے اپنے ہر مسئلے کے حل کی امید رکھتے ہیں۔

وہ اپنے استاد کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہتے ہیں لیکن ہماری طرف سے ان کو نہ سمجھنے والا دماغ ان کو مایوس کر دیتا ہے۔آن لائن کلاسز کے دوران کسی آؤٹ سائیڈر بچے نے ایک کلاس کے طالب علم کی (جو یقینا اس کا دوست ہو گا) آئی ڈی ہیک کر لی اور دوران کلاس وہ طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگا جس سے مجھے اپنی بات کرنے میں خاصی دقت ہوئی،میں نے ایک دو بار عام سے لفظوں میں تنبیہہ کی،ایک دو بار اسے ریموو کیالیکن وہ تو مکمل شرارت کے موڈ میں تھا۔پھر میرا بھی موڈ بدلا اور میں نے اسے دو منٹ میں ایسے پیار سے سمجھایا۔قرآن کی ایک آیت کے زریعے خوف خدا دلایا۔اور کہا کہ میں آپ کو ریموو نہیں کروں گا،آپ یقینا بہت اچھے ہیں لیکن اس وقت شیطان کے نرغے میں ہیں ورنہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم ہو اور ایسی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کرے۔سو اب آپ کا دل کرے تو آپ کلاس میں موجود رہیں اور مجھے سنیں یقینا آپ آج کے لیکچر سے لطف اندوز ہوں گے۔بلکہ آپ یہ حسرت کریں گے کہ کاش آپ نے بھی ہمارے اس ادارے میں داخلہ لیا ہوتا۔ اس نے فورا انتہائی عاجزی سے مجھ سے معذرت کی اور اس کے بعد کبھی تنگ نہیں کیا۔میں آج بھی سوچتا ہوں کہ اگر میں اسے ضد پر مائل کرتا تو نجانے وہ اور کتنا تنگ کرتا۔جب بچے ہماری عزت نہیں کرتے تو اس میں سارا قصور بچوں کا نہیں ہوتا۔اس میں اکثر ہم قصور وار ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہم بڑے ہوتے ہیں تو اپنے بڑے پن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سارے الزامات بچوں کے سر دھر دیتے ہیں۔ہمارے بچے بد تہذیب نہیں بس کاش ہم استاد بن جائیں تو پھر دیکھیں کہ بچے کیسے ہمارے آگے اپنی پلکیں بچھاتے ہیں۔

اویس خالد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button